سونامی اور انقلاب کیا ہوں گے کامیاب
رمضان کے مہینے میں عام طور پر سیاسی سرگرمیاں مدھم پڑ جاتی ہیں
رمضان کے مہینے میں عام طور پر سیاسی سرگرمیاں مدھم پڑ جاتی ہیں ، لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہوا کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاون نے اپوزیشن کو گویا خواب غفلت سے بیدار کر دیا ہے ۔ وہی عمران خان ، خم ٹھونک کر میدان عمل میں آ گئے اور حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ۔ طاہرالقادری کوعدم مشاورت سے افسوس ضرور ہوا ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رابطے ختم ہو گئے ہیں۔
چوہدری برادران، عمران خان اور طاہر القادری سے رابطے میں ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ، عمران خان سے مل کر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی مشترکہ کال دینے پر آمادہ ہیں ، لیکن مسئلہ عمران خان کا ہے کہ ان کی نظر اپنی باری پر بھی ہے ، اور جب نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ ان کے 'مخالف' اپنی باری کا انتظار کریں، تو بالواسطہ طور پر اس میں عمران خان کے لیے یہ پیغام مستور ہوتا ہے، کہ ٹھیک ہے، میری اس باری کے بعد اگلی باری آپ کی ۔ کیونکہ انتخابی مہم کے دوران میں عمران خان کی تقریر کا ٹیپ کا مصرعہ یہ ہوتا تھا کہ 'میاں صاب ، جان دیو ، ساڈی واری آن دیو۔'
مگر معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف نے بہت دیر کر دی ۔ ن لیگ حکومت کے خلاف تحریک انصاف ، عوامی تحریک ، مسلم لیگ ق اور شیخ رشید احمد کی حد تک اپوزیشن کا غیر اعلانیہ اتحاد وجود میں آ چکا ہے اور جیسا عرض کیا گیا تھا کہ ایم کیوایم بھی اس اتحاد کا حصہ ہو گی؛ بلکہ اب تو سردار عتیق کی مسلم کانفرنس بھی شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ گویا حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک مومینٹم پکڑ چکی ہے ۔
عمران خان لاکھ کہیں کہ ان کا لانگ مارچ حکومت گرانے کے لیے نہیں ، لیکن حقیقتاً اس کا مقصد حکومت گرانا ہی ہے ۔ وہ گزشتہ ایک سال سے دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے ، لیکن اب صاف صاف کہہ دیا کہ چار حلقوں کی بات ختم ، اب حکومت کے خلاف لانگ مارچ ہو گا ۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ موسم گرما کی شدت کی پروا کیے بغیر تحریک انصاف اگر یہ لانگ مارچ کرنے جا رہی ہے ، تو اس کا مقصد صرف اسلام آباد پہنچنا اور وہاں جا کے جلسہ کرنا نہیں۔
تحریک انصاف کی قائدین اور کارکنوں کو علم ہے کہ حکومت کے خلاف ان کا لانگ مارچ اگر بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے ، تو ان کو اس کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا ،کیونکہ اس کے بعد حکومت کے خلاف ان کی کال پر عوام توجہ نہیں دیں گے ۔ شیخ رشید احمد کہتے ہیںکہ عمران خان کے لیے یہ لانگ مارچ ایک چیلنج بن چکا ہے، اور اگر وہ عہدہ برآ نہ ہو سکے تو ان کی سیاست کا سحر چکناچور سکتا ہے۔ سو ، تحریک انصاف کے عہدے دار اور کارکن لانگ مارچ کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔
پارٹی کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے عمران خان نے بہاولپور جلسہ میں پولیس کو مخاطب کرکے جو وارننگ دی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو معلوم ہے کہ14اگست کو ان کے کارکنوں اورپولیس میںآمنا سامنا ضرور ہوگا۔ عام تاثر یہ ہے کہ23 جون کو جس طرح عوامی تحریک اور ق لیگ کے کارکنوں نے پولیس کا مقابلہ کیا تھا ، تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے شاید مشکل ہو ، اور اگر لانگ مارچ کے بعد دھرنا بھی ہوگا، تو سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے کارکن ، عوامی تحریک کے کارکنوں کی طرح استقامت سے دھرنا دے سکیں گے ۔
تاہم اگر چوہدری برادران کی عمران خان اور طاہر القادری کو ایک پیج پر لانے کی کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں، اور تحریک انصاف، عوامی تحریک، مسلم لیگ قائداعظم کے کارکن متحد ہو کر اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں تو اس سیلاب بلا کے آگے بند باندھنا پولیس کے لیے ناممکن ہو گا۔ سانحہ ماڈل ٹاون پر شدید عوامی اور سیاسی ردعمل کی وجہ سے پولیس اندر سے ہل چکی ہے اور لانگ مارچ کو پرتشدد طریقہ سے روکنے کی استعداد سے محروم ہو چکی ہے۔
حکومت کی طرف سے اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ 14 اگست کو ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے آئین کے آرٹیکل245 کے تحت فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے تو بالواسطہ طور پر یہ اس امر کا اعتراف ہے کہ مشترکہ لانگ مارچ کی صورت میں خود حکومت کو پولیس کے ذریعہ ہنگامی صورت حال پر قابو پاناممکن نظر نہیں آ رہا ؛ اور اگر ایک بار تحریک انصاف ، عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق کا مشترکہ مارچ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے ڈی چوک پر دھرنا دے دیا، توحکومت کے لیے اس صورت حال سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا، کہ اس مرحلہ پر ذرا سی بے احتیاطی سے ہجوم بپھرسکتا ہے اور صورت حال ناقابل یقین رخ اختیار کر سکتی ہے۔
اس کالم نگار کی اطلاع یہ ہے کہ عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری برادران سے برابر رابطے میں ہیںاور مشترکہ لانگ مارچ کرنے پر بات چیت جاری ہے۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ اگر ان کا لانگ مارچ بے نتیجہ رہتا ہے اور نوازشریف حکومت بدستور قائم رہتی ہے ، تو اس کا جو نقصان تحریک انصاف کی سیاست کو ہو گا ، اس کا مداوا کورکمیٹی کے اجلاس نہیں کر سکیں گے۔ اس طرح طاہر القادری کو بھی علم ہے کہ اگر عمران خان تنہا سونامی مارچ کرتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں تو اس کا فال آوٹ ان کے انقلاب لانگ مارچ پر بھی ہوگا۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری معاملہ کے اس پہلو پر سوچ بچار کر رہے ہیں، اور مشترکہ لانگ مارچ پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں اگست کے پہلے ہفتے میں وہ حکومت کے خلاف الگ سے اپنے انقلاب مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں، جو یقیناً سونامی مارچ کے بعد ہوگا۔ اگر طاہر القادری یہ فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے کارکن ظاہر ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ سے لا تعلق رہیں گے۔ عمران خان تسلیم کریں یا نہ کریں، ان کے لیے اکیلے حکومت سے نمٹنا مشکل ہے۔
یہ بات بھی ان کو سمجھنا چاہیے کہ نوازشریف حکومت اگر اس وقت خود کو مشکلات میں گھرا ہوا محسوس کر رہی ہے ، تو اس کی وجہ دھاندلی کے خلاف عمران خان کے احتجاجی جلسے نہیں ، بلکہ وہ حالات و واقعات ہیں،جو طاہر القادری،چوہدری برادران لندن ملاقات ، سانحہ ماڈل ٹاون اور طاہر القادری کے جہاز کا رخ بدلنے سے رونما ہوئے ہیں ۔ عمران خان نے بھی اس کے بعد ہی جمپ ان کرکے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا ہے ۔ لہٰذا ،یہ عمران خان کے عین مفاد میں ہے کہ وہ طاہر القادری اور چوہدری برادران سے مل کر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں ۔
مسلم لیگ ق کی قیادت ، جنھیں صرف حکومت کا نہیں، اپوزیشن کا بھی کافی تجربہ ہے ، کو معلوم ہے کہ اس مرحلہ پر جب کہ حکومت کے خلاف مومنٹ مومینٹم پکڑ چکی ہے ، اپوزیشن میں انتشار کا فائدہ صرف اور صرف حکومت کو ہو گا ۔ چنانچہ وہ عمران خان اور طاہر القادری کو ایک پیج پر لانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ انھی کوششوں کانتیجہ ہے کہ طاہر القادری نے حالیہ دنوں میں دو ایک بار یہ اشارہ دیا ہے کہ اگر مشترکہ ایجنڈے پر اتفاق ہو جاتا ہے ، تو وہ حکومت کے خلاف عمران خان سے مل کر مشترکہ لانگ مارچ کرنے کو تیار ہیں۔
چوہدری برادران کے بقول ، طاہر القادری نے جو لچک ظاہر کی ہے، اس پر عمران خان کا ردعمل بہت حوصلہ افزا ہے ۔ شیخ رشید احمد ، جو اس سلسلے میں عمران خان اور طاہر القادری سے براہ راست ملاقات کر چکے ہیں ، وہ بھی بہت پرامید نظر آرہے ہیں ۔ان کے بقول ، اگر عمران خان اور طاہر القادری مشترکہ لانگ مارچ پر راضی ہو جاتے ہیں ، تو امکان یہ ہے کہ کراچی سے ایم کیوایم بھی اس لانگ مارچ میں شامل ہوجائیگی۔
اس کے برعکس اگر عمران خان اس چکر میں پڑ ے رہے کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ ہو گا، توتنہا انھی کی قیادت میں ہو گا، اور اس میں کوئی ان کا حصہ دار نہیں ہو گا ، تو آخر کار اس کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان ہی کو ہو گا ؛ کیونکہ طاہر القادری اگر چوہدری برادران سے مل کر الگ سے انقلاب مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیتے ہیں تو اس کے بعد عمران خان اپوزیشن کی موجودہ پوزیشن پر قائم نہیں رہ سکیں گے ۔ پہلے ہی ان کے بارے میں یہ منفی تاثرموجود ہے کہ وہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں ، خیبر پختون خوا میں حکومت اور پنجاب میں اپوزیشن ۔ سو ، بال اب عمران خان کی کورٹ میں ہے ۔ شاعر نے کہا تھا ؎
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر ِیک دانہ
یک رنگی وآزادی اے ہمت ِمردانہ