زباں فہمی نمبر222 اُردو کی دَراوَڑی بہن براہوی

زباں فہمی نمبر222 ؛ اُردو کی دَراوَڑی بہن براہوی ۔ از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)


سہیل احمد صدیقی September 15, 2024
زباں فہمی نمبر222 ؛ اُردو کی دَراوَڑی بہن براہوی ۔ از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)

روسی محقق آندرونوف [Andronov] نے اپنی کتاب ' دی براہوی لینگوئج' [The Brahui Language] میں براہوی قوم کی قبائلی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے تین بڑے گروہ ہیں جن کے لسانی لہجے بھی تین ہیں۔ قبائل کے نام موصوف نے یہ گنوائے: قدیم قبائل بشمول اِلتازَئی، احمد زئی، گُر گ ناڑی، کلندراڑی، کمبراڑی، مِیرواڑی، رودینی، سومالاڑی، ساراوانی قبائل بشمول رَستم زئی، ساتک زئی، سرپرا [Sarparra]، رئیسانی، ماماشاہی، کُرد، لاہڑت [LahRT]، زہری۔ مینگل، بنگل زئی، لانگاؤ [Laangav]، شاہوانی، جھالاوان کے قبائل نی چاڑی، ہارونی، پندرانی، ساجدی، بِزنجاوْ، ماماسانی، زہری اور مینگل۔ ان میں قدیم قبائل نے زیادہ تر وادی قلّات میں سکونت اختیار کی، ساراوانی قبائل نے قلات کے شمال میں، جبکہ جھالاوانی قبائل نے قلات کے جنوب میں ڈیرا ڈالا۔ (ان کے املاء میں سہو کا اِمکان ہے کیونکہ سردست راقم اپنے براہوی دوست کو تصدیق کے لیے زحمت نہیں دے سکتا)۔

زباں فہمی نمبر 221 میں ایک براہوی محقق جناب اکرم آمل کی تحقیق کا کچھ حصہ نقل کیا تھا جو درحقیقت رَدّ تحقیق ہے۔ اُن کی تحریرکا بقیہ حصہ پیش خدمت ہے:

اکرم آمل صاحب نے فرمایا کہ ''دراوڑی زبانوں میں لفظ Ko ہر اونچی شے، پہاڑ وغیرہ کے علاوہ بادشاہ کے لیے مستعمل تھا اور ہے۔ اور انہیں زبانوں میں کو+اِٹم\اِڈم= کوئِٹم\کوئڈم کا مطلب ہے وہ جگہ یا مقام جہاں بادشاہ مقیم ہو جیسے محل۔ اس لفظ میں اِٹَم یا اِڈَم سے مراد جگہ ہے۔ ان زبانوں میں ٹ اور ڈ میں فرق نہیں کیا جاتا''۔

یہاں رک کر یہ دیکھیے کہ ہمیں آنلائن تمل انگریزی لغت سے کیا ملا:

Meaning of 'ko'

  1. v. t. (com. kor), string pearls, beads etc, kovaicey; 2. thread a needle; 3. clasp, join, totu; 4. compose, arrange, ozungkakku; 5. fabricate (as stories) kataikattu; 6. put on, wear; tari; 7. oppose, resist, tatu, etir. koppu, v. n. stringing, arranging, manner, method.


kovai, korvai, v. n. a string of beads, flowers etc. 2. a kind of poem; 3. series, row; 4. a climbing plant.

korvaiyani, pegs for joining rafters together.

kovaikkovai, a poem of Avvyar.

kaykovai, manay--, different kinds of kovai creeper.

kaikokka, see under kai.

kaikkorvai, joint-hands, a cord of gold thread.

muttukkorvai, a necklace of pearls.

[https://www.tamildictionary.org/tamil_english]

علاوہ اَزاِیں ایک اور جگہ یہ بیان بھی دیکھنے کو ملا:

  1. Without referring to any Tamil dictionary, I will just give you the three meanings I know for the Tamil term, Ko. It means, a king, God ( Ko + Il = koyil = the house of God) and a cow. As and when I come to know of other meanings, I will update this answer.


Ko becomes kodu and refers to a hill . In the Russian language, personal names ending with the letters, KOV, refer to male names, especially those men with superior social status, I am told by Prof Madhivaanan, a language archaeologist. In the Indus Valley seals, he further says ( he has deciphered the complete set of the Indus seals two decades ago and the English version of his Tamil book on this will be published soon ), many personal names ending with the word 'ko' are found. Ancient Tamil literary works also contain names of kings ending with the word 'ko' ( Ilango, Perungadungo). Ko+v+an= Kovan ( = the one who looks after cows, cattle, the protector of cattle, a cowherd) becomes kovalan and Sanskrit makes this into Gopalan ( Lord Krishna's name) retaining the meaning as in Tamil. K>g; v>p.

  1. Ko is actually a ............(Tamil words can't be reproduced, here: SAS)(meaning- a word with more than one meaning).


"Ko" mainly indicates A king, A Leader...

It also means Potter.

[https://www.quora.com/

What-is-the-meaning-of-Tamil-word-ko

ان دل چسپ اقتباسات سے حیران کُن انکشافات سامنے آئے ہیں۔

ا)۔ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نا صرف 'کو' کے استعمال میں بہت تنوع ہے، بلکہ یہ لفظ سنسکِرِت کے توسط سے یا کسی اور ذریعے سے دیگر زبانوں بشمول رُوسی تک جاپہنچا اور وہاں جا کر 'کوف' ہوگیا جو اکثر مردانہ ناموں کا لاحقہ ہے اور کمیونزم کے غلبے کے بعد، مسلمانوں کے نام بھی اسی کلّیے کے تحت تبدیل کردیے گئے۔ چیچنیا کے موجودہ سربراہ مفتی رمضان قادروف ہی کا نام لے لیںیا ماضی میں عظیم مجاہد رہنما جعفر دُودائیوف کو یاد کرلیں۔

ب)۔ نہایت دل چسپ نکتہ یہ بھی معلوم ہوا کہ کوسے بننے والے لفظ 'کووان' سے مراد گلّہ بان یا مویشیوں کا رکھوالاہے اور اسی تناظر میں ہندوؤں کے اَوتار کرشن جی کو ''گوپلان'' کہا جاتا ہے جو سنسکِرِت میں، اسی لفظ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔

ج)۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ 'کو' کا ایک مطلب ظروف ساز بھی ہے۔

د)۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک ہی لفظ خُدا، بادشاہ، گلّہ بان اور ظروف ساز کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

ہ)۔ وادی سندھ کی قدیم مُہروں کی عبارت پڑھنے کے دعوے دار لسانی محقق Prof Madhivaanan نے یہ انکشاف کیا کہ ان آثارمیں 'کو' پرمشتمل متعدد اَسماء کا استعمال بھی دریافت ہوا ہے۔

و)۔ قدیم تَمِل بادشاہوں کے ناموں میں بھی یہ لفظ بطور لاحقہ دریافت ہوچکا ہے۔

اکرم آمل صاحب نے بجا کہا کہ ''یہ ''کوٹا'' کے لیے صرف ایک حوالہ ہے سینکڑوں (سیکڑوں: س ا ص) الفاظ تک فہرست جاسکتی ہے مگر سردست اسی پہ اکتفا کیا جاسکتا ہے۔ تامل (تَمِل: س ا ص) لفظ ''کو'' بمعنی ''بادشاہ'' میں نے اپنی طرف سے فرض نہیں کیا ہے اسی لغت سے ملاحظہ کیجیے''۔ یہاں خاکسار بوجوہ وہ فہرست نقل کرنے سے گریز کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ معانی کی یہ وسعت اور تنوع عربی کے بعض الفاظ کی وسعت ِ تفہیم سے ٹکراتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل خاکسار نے اپنے فیس بک دوست ڈاکٹر تاج الدین تاجور صاحب کی ایک تحریر دیکھی جس میں کوئٹہ کو پشتو لفظ قراردیا گیا تھا، مگر اکرم آمل نے اس کی تردید کردی۔ کوئٹہ کے نام کی توجیہ کرتے ہوئے موصوف نے بیان کیا کہ ''اب کیسے کوئی یہ بات پھیلاتا ہے کہ ''کوئٹہ'' پشتو کا لفظ ہے؟.....سیدھی سے بات ہے پشتو لفظ مستعار ہے۔ خیر یہ تو ہے ایک اشتقاقی غلطی جو پھیلا دی گئی ہے۔ القصہ لفظ ''کوئٹہ'' کسی بھی طرح پشتو کا لفظ نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک دراوڑی لفظ ہے جو کئی زبانوں میں معنی اور صورت بدل کر داخل ہوا ہے۔ اب آتے ہیں نام ''کوئٹہ'' کی انگریزی املا کی طرف۔ یوں تو اسے رومن میں Koita لکھا جانا چاہیے تھا لیکن یہ ہر جگہ ممکن نہیں عام انگریزی کی بورڈوں سے ایسا نہیں لکھا جاسکتا، لہٰذا اسے Koita ہونا چاہیے تھا۔ روایات کا برقرار رہنا ضروری نہیں اور بسا اوقات توڑنا ناگزیر ہوتا ہے۔ انگریز جس چیز کو خود جیسے ادا کرتے ہیں اسی طرح لکھتے ہیں تو کیا ہم ان کے ادا کرنے کے پابند ہوں گے؟ اسی طرح لفظ ''بِراہوئی'' کی کم از کم درست اسپیلنگ Birahui ہے لیکن انگریز کیوں کہ ''Bir'' کی واوِل ہٹا کر اسے ''Br'' کی کلسٹر کے ساتھ ادا کرتے ہیں جو ہم خود کبھی نہیں کرتے۔ مختصر یہ کہ ''قلات'' کی درست املا Qalat اور کوئٹہ کی Koita ہے''۔

اکرم آمل کی اس تحقیق سے یہ نکتہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ سے مراد بلند وبالا مقام، پہاڑی مقام اور شاہ کا مقام لیا جاتا ہوگا۔

ماقبل خاکسارنے اس موضوع کے آغاز میں، اپنی خُرد معاصر محقق آنسہ زاہدہ رئیسی راجی کا خیال نقل کیا تھا کہ براہوی، بلوچ قوم ہی کا حصہ ہیں اور پھر اگلی قسط میں اکرم آمل کا جواب بھی پیش کیا تھا۔ میری مجبوری ہے کہ سردست اُن کے بیان کا بقیہ حصہ نقل کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، حالانکہ ابھی موضوع کی کئی جہتیں باقی ہیں۔ اکرم آمل کا کہنا ہے کہ:''ڈاکٹر فاروق بلوچ صاحب، یہ جاننے کے باوجود کہ نوری نصیر خان کے ایران و افغانستان سے موصول (ہونے والے) خطوط میں انہیں خانِ براہوئی و بلوچ مخاطب کیا گیا ہے، ایک بات قصدًا لکھتے، پھیلاتے اور بولتے (کہتے : س ا ص) رہتے ہیں کہ لفظ ''براہوئی'' انگریز کا ایجاد کردہ ہے۔ ''بلوچی قدیم شاعری'' نامی کتاب میں بھی، جسے یہ لوگ مستند سمجھتے ہیں، ''براہوئی'' کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح شاہ عبداللطیف بھٹائی (پیدائش 1690، وفات 1752) کے وقت انگریز یہاں نہیں تھے اور نہ ہی وہ کسی انگریز کی لکھی کتاب سے متاثر تھے۔ یہ دو تصاویر بھٹائی کی کتاب کے صفحوں سے ہیں۔ ایک تصویر میں شیخ ایاز کا اردو ترجمہ ہے اور دوسری میں اصل متن۔ جہاں ''بُرفت'' اور ''بروہی'' صاف صاف لکھا ہے۔ (سُر: دیسی، داستان نمبر پانچ) (یہاں خاکسار سہیل تصحیح کرنا ضروری سمجھتا ہے : شاہ جو رِسالو کا منظوم ترجمہ شیخ ایاز کا نہیں، پروفیسر آفاق صدیقی کا کارنامہ ہے)۔ آپ برفت اور اس کے قبائل کے حوالے سے تحقیق کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بھٹائی نے بلوچ کے لیے کئی مقامات پر ''بروچ'' کا لفظ استعمال کیا ہے جو آج بھی سندھ میں بلوچ کے لیے عام ہے۔ اسی طرح براہوئی کے لیے ''بروہی'' لکھا ہوا ہے جو آج بھی سندھی میں عام ہے''۔ (یہاں لفظ بروچ میں سندھی کا مخصوص دونقطے والا 'ب' استعمال ہوا ہے جو نقل کرنا ممکن نہیں: س ا ص)

اب ہم ایک مرتبہ پھر رُخ کرتے ہیں پروفیسر خاطر ؔ غزنوی کی تحقیق کی طرف جنھوں نے ایک نہیں، کئی ایک جَدوَل بناکر دراوڑی زبانوں کے اشتراک ومماثلت نیز اُن کے ہندکو سے تعلق پر روشنی ڈالی۔ ایک فہرست سے اکتساب کرتا ہوں:

براہوی میں لفظ 'ای' بمعنی 'میں' بولا جاتا ہے جو تَمِل میں 'ناں' اور 'یاں' ہے، کنڑ میں 'ناں' اور 'آں' ہے، ٹوڈا میں فقط آں ہے، ہندکو میں ایاں (میں تھا) اور سندھی میں (املاء کے فرق سے قطع نظر: س ا ص) ماں اور آؤں ہوگیا ہے، جبکہ پراکِرِت میں یہ ہاں اور ہوں تھا اور سنسکِرِت میں اَہم۔ {تحقیق کا باب وَا ہوتا ہے توہم یہ بھی جان جاتے ہیں کہ موجودہ ہندو مَت یا برہمن ازم درحقیقت آریوں کی ذات پات کی تقسیم اور مختلف مشرکانہ عقائد کا ملغوبہ ہے۔ اس ضمن میں اصلاحی تحریکوں نے بُدھ مَت اور جین مت کی شکل میں جنم لیا، مگر کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوا۔ بُدھ مت میں خدا کا باقاعدہ تصور نہ ہونے کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ مہاتما گوتم بُدھ نے اخلاقیات کی تعلیم دی تو وہ محفوظ رہ گئی، دیگر تعلیمات کسی سبب بھُلادی گئیں اور اَگر روحانی علم رکھنے والوں کی بات سچ مانی جائے تو بُدھ نے گیان دھیان سے نِروان (معرفت) حاصل کرلیا تھا اور وہ توحید کے پرچارک تھے، بہرحال اس مذہب کا بھی وہی حشر ہوا جو دیگر مذاہب کا ہوا تھا کہ بُدھ کے ماننے والوں نے اُن کی تعلیمات کا عقیدی حصہ چھوڑ کر خود بُدھ کی پوجا شروع کردی: س ا ص}۔ خاطر ؔ غزنوی نے لکھا ہے کہ ''لسانی اِرتقاء کے، منڈا اور دراوڑی یا آمری نال تہذیبوں اور ہڑپہ، موئن جو دڑو کے دور کے بعد، آریا قوم کا برصغیر میں ورود ہوا۔ آریاؤں (آریوں: س ا ص) نے جیسا کہ اس سے پیشتر ذکر ہوچکا ہے ، دراوڑوں کو تین جانب دھکیل دیا اور اُن کی باقیات کو نئے آقاؤں کی خواہشات کے مطابق داس یا غلام بنالیا گیا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا مختلف محققوں نے اپنے طور پر ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے کہ اُن کے ساتھ رشتے ناتے بھی ہوئے اور یوں اُن کو اپنے آپ میں جذ ب کرنے کی کوشش بھی ہوئی .................... پھر یوں ہوا کہ سنگ تراشی مذہب کا حصہ بن کر خوب پھلی پھولی۔ آریوں کے عروج کے دور ہی میں دریائے سندھ کی وادی تہذیب کا مرکز یا علم وفن کا گہوارہ اور تاریخ کا حصہ بنی۔ ان میں گندھارا اور ٹیکسلا کے تہذیبی آثار آج بھی ان حقائق کا آئینہ ہیں۔.................... یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ جب آریا شمال مغرب کی جانب سے ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہ بادشاہ یا راجاؤں کی طرح یلغار کرتے ہوئے نہیں آئے تھے، بلکہ گروہوں کی صورت میں خانہ بدوشوں یا مُہاجروں کے طور پر آئے۔ راجہ یا کسی سرزمین کے سربراہ کا تصور اُنھیں ہندوستان کے اصل باشندوں سے حاصل ہوا ''۔

ابتداء میں یہ بات ہوگزری ہے کہ براہوی قوم کے بلوچستان تک پہنچنے کی بابت دو مشہورنظریات یا مفروضے پائے جاتے ہیں جن میں شاید حقیقت کی تلاش محال ہو۔ یہ قیاس کہ براہوی، ہندوستان کے شمال یا جنوب سے ترکِ وطن کرکے یہاں آئے، ہمارے دوست محقق اکرم آمل کو قبول نہیں، بلکہ آمل صاحب دوسرے نظریے کے حامی ہیں کہ براہوی اصل میں وہ دراوڑ ہیں جو آریوں کے حملے کے وقت، بجائے آگے جانے کے، یہیں تک محدود ہوکررہ گئے تھے۔

(جاری)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔