قرض آزادی اور خود مختاری کی موت

بس معاہدے میں طے کی جانے والی شرطوں پر عمل درآمد کے لیے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمارکرتے رہیں


Dr Mansoor Norani September 16, 2024
[email protected]

خبر آئی ہے کہ 25 ستمبر 2024 کو IMF کا ایگزیکٹو بورڈ ہماری درخواست پر حتمی فیصلہ کرے گا۔ کئی مہینوں سے ہماری یہ درخواست زیر التواء ہے۔ تقریباً تین ماہ قبل اسٹاف لیول پر یہ معاہدہ منظور ہوچکا تھا اور اس کی منظوری سے پہلے ہم نے ایک ایک کر کے اُن کی ساری شرائط بھی من و عن مان لی تھیں۔ ہم نے صحیح معنوں میں اس کی منظوری کے لیے اپنی ناک بھی رگڑ ڈالی ہے۔


عوام پرآج مہنگائی کے جو پہاڑ توڑے گئے ہیں، اُس میں IMF کا بہت بڑا کردار ہے۔ ہم یہ نہ کرتے توکیا کرتے؟ مادر وطن کو دیوالیہ ہوجانے سے بچانے کے لیے اس کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔ IMF کی جانب سے '' ڈو مور'' کے مطالبوں کا سلسلہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے 25 ستمبر کوکچھ اور نئے مطالبے بھی سامنے آجائیں۔


ویسے بھی سات ارب ڈالرزکا یہ معاہدہ اگر منظور بھی ہوگیا تو اس کی قسطیں جاری ہونگی اور ہر قسط سے پہلے وہ ہمارے مالی حالات کا جائزہ ازسر نو لے گا بھی اور ہر قسط سے پہلے نئے مطالبے سامنے لائے گا۔ ہمیں اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اس معاہدے کی منظوری سے ہمیں مزید کچھ نہیں کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف دراصل بنایا ہی گیا ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے کہ ہمارے جیسے لاچار اور مجبور ملکوں کو اپنی مرضی سے جینے بھی نہیں دیا جائے، وہ قومی ترقی و خوشحالی کے کوئی منصوبے بھی نہ بناسکیں اور ہر وقت اُن کی مرضی و منشاء کے تابع رہیں۔


بس معاہدے میں طے کی جانے والی شرطوں پر عمل درآمد کے لیے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمارکرتے رہیں۔ بجلی کے نرخ اتنے مہنگے کر دیے جائیں کہ ساری انڈسٹری برباد ہوکر رہ جائے۔ مینوفیکچرنگ اتنی مہنگی ہوجائے کہ ہمارا مال دنیا میں ایکسپورٹ کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس اسٹیج پر پہنچے ہی کیوں؟ آج جو حالات ہیں کیا وہ 2017 میں تھے۔ نہیں، ہم 2017 میں IMF کے چنگل سے باہر نکل چکے تھے لیکن پھر ایک سازش کے تحت سارا سیاسی سیٹ اپ تباہ و برباد کر دیا گیا اور ہمیں ایک بار پھرIMFکے پیروں میں ڈال دیا گیا۔ یہ ایک بین الاقوامی سازش تھی جس پر عمل درآمد کی ذمے داری ہمارے اداروں کو دی گئی۔


عالمی طاقتیں ہم جیسے آزاد اسلامی ملک کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتی ہیں، وہ جانتی ہیں کہ ہم اگر آزاد اور خود مختار ہوگئے تو اُن کے اشاروں پر یوں نہیں ناچیں گے جیسے آج ناچ رہے ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام ان کی نظروں میں تو پہلے ہی کھٹک رہا تھا، مگر سی پیک منصوبے نے انھیں اور بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے، وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ پاکستان اُن کی گرفت سے باہر نکل جائے ۔ سی پیک منصوبہ نے اُن کی نیندیں بھی اُڑا کے رکھ دی ہیں۔


آج اگرکچھ ریلیف کی صورت نظر آرہی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ آگے بھی جاری رہے، ہم اگر آج ICU سے باہر نکل چکے ہیں توکل پھر دوبارہ بھی ICU میں ڈالے جاسکتے ہیں۔ ویسے بھی آج ہماری معاشی حالت اس قدر اچھی نہیں ہے کہ اگلے تین چار سال خیریت سے گزر جائیں۔ کسی وقت بھی کوئی انہونا واقعہ ہوسکتا ہے اور ہم دوبارہ کسی کی ہشت پالی گرفت میں جکڑ دیے جائیں۔


ہمارے تبصرہ نگار ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے غیر جانبداری سے ہرگز تبصرہ نہیں کرتے، وہ ہماری مالی مشکلات کا الزام ہمیشہ سارے سیاستدانوں کو دیتے رہے ہیں، حالانکہ جانبداری کی عینک اُتارکر دیکھیں تو معلوم ہوگا، یہ اس ساری صورتحال کی ذمے داری یکساں تمام سیاستدانوں پر نہیں ڈالی جاسکتی ہے۔ سارے سیاست دان ایک جیسے نہیں ہیں۔ ہمیں غورکرنا چاہیے کہ کس کے دور میں ہم معاشی و اقتصادی ابتری کا شکار ہوئے ہیں اور کس نے ہمیں ان مالی مشکلات سے باہر نکالا ہے۔


سارے سیاستدانوں کو ایک لکڑی سے ہانکنے کی وجہ سے ہم عوام کی نظروں میں تمام سیاستدانوں کو برا بھلا ثابت کرتے رہے ہیں۔ ذرا غورکیجیے کس کے دور میں عوام کے مسائل حل ہوئے ہیں اور کس کے دور میں ہم تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔ صرف اسمارٹ یا ہینڈسم ہونا سیاسی قابلیت کے زمرے میں نہیں گردانا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہم اگر قابل سیاستدانوں پر نظر دوڑائیں تو شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان ملے، جس کی ظاہری شکل و صورت کسی فلمی ہیرو جیسی ہو اور وہ ایک اچھا سیاستدان بھی ثابت ہو۔


ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ سیاسی بصیرت اور قابلیت اس شخص میں کتنی ہے، وہ کیسے چلتا ہے اور کیسے بولتا ہے، ہمارا پاس کسی کی قابلیت کا معیار یہی ہے۔ ہم آج بھی یہی کچھ کر رہے ہیں، جو سیاستدان خوب بولتا ہے، تقریر پرجوش کرتا ہے، اپنی خطاب میں مخالفوں اور اداروں کو لتاڑتا ہے ہمارے نزدیک وہی ایک کامیاب سیاستدان ہے، جس کی ایک تقریر سے ایوان صدر ڈھیر، دوسری سے عدلیہ منہدم ہوجائے ہمارے لیے وہی نڈر اور بے باک سیاستدان ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے اس طرح کے رویوں سے اس ملک کا نقصان کتنا ہوتا ہے۔


ہماری پسند اور ناپسند کا معیار جب متین سنجیدہ اور شائستہ اسلوب کے بجائے محض ظاہری حسن اور شکل و صورت اور جوش خطابت ہوجائے تو پھر ہمیں اپنے مستقبل سے بے بہرہ اور لاتعلق ہوکر ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھنے کی زمانے کے مد و جزر کے حوالے ہی کردینا چاہیے۔ پھر ہمیں یہ گلا ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ ہم قوموں کی برادری میں اتنے بے آبرو اور بے وقارکیوں ہیں۔


ہم اس وقت جن مالی مشکلات سے دوچار ہیں اس کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ ہم ابھی حال ہی میں ڈیفالٹ ہوجانے سے بچ گئے ہیں، لیکن اگر ہمارا انداز فکر یہی رہا تو پھر ہمیں آیندہ آنے والے دنوں میں دیوالیہ ہوجانے سے کوئی بھی بچا نہیں پائے گا۔ اس کے بعد ہمارا جو حشر ہوگا اس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ یہ ہمارا نیوکلیئر پروگرام اور سی پیک منصوبہ سب کچھ ختم اور بھسم ہوکر رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے پرانے قرضے ادا کرنے کے لیے IMF کے پاؤں پکڑنے پڑے ہیں، جب کہ تین دوست ممالک نے ہمیں دس ارب ڈالرز صرف خزانے میں رکھنے کے لیے دے رکھے ہیں۔


تب جا کے ہم کچھ سانس لینے کے قابل ہوئے ہیں۔ اس کے بعد بھی ہم اگر نہیں سدھرے تو پھر شاید ہی کوئی ملک ہمارا ہاتھ پکڑ پائے گا۔ قوم پر مہنگائی کے اتنے سارے بم برسا کے ہم خود کو بڑی مشکل سے ڈیفالٹ ہوجانے سے بچا پائے ہیں۔ عزت نفس اور خودی کو داؤ پر لگا کر ہم نے یہ مہلت حاصل کی ہے، لیکن اس کے بعد ہمارے پاس کوئی مہلت نہیں ہے۔ ہم قرضے لے کر بھی خود کو بچا نہیں پائیں گے اور پھر ہمارا کوئی دوست ملک بھی ہمارا ہاتھ نہیں پکڑے گا۔ ہمیں اپنے بچاؤکی جو تدابیرکرنی ہے، آج ہی سے کرنی ہے۔ ہم سری لنکا جیسے بھی نہیں رہیں گے جو ڈیفالٹ ہوجانے کے بعد بھی دوبارہ اپنے پیروں پرکھڑا ہونے لگا ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جس طرح سری لنکا بچ گیا ہم بھی بچ جائیں گے، وہ شاید اس لیے بچ گیا کیونکہ نہ وہ ایک اسلامی ملک تھا ، نہ اس کے پاس ایٹمی پروگرام تھا اور نہ اس نے سی پیک جیسا کوئی منصوبہ شروع کر رکھا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں