اجتماع کی آزادی

مزدور اور کسان تنظیمیں قائم ہونے لگیں اور 1906میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا


Dr Tauseef Ahmed Khan September 12, 2024
[email protected]

سینیٹ اور قومی اسمبلی نے اسلام آباد کی حدود میں غیر قانونی اجتماع کرنے کو جرم قرار دینے کا قانون منظورکر لیا۔ صدر آصف علی زرداری نے فوری طور پر یہ قانون اسلام آباد میں نافذ کردیا۔ سینیٹر عرفان صدیقی کے پیش کردہ قانونی مسودے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنرکی اجازت کے بغیر اجتماع کرنے اور جلوس نکالنے پر تین سال تک قید اور جرمانہ کی سزا ہوسکتی ہے۔

اس قانون کے تحت ڈپٹی کمشنرکو 7دن قبل اجتماع کی اجازت کے لیے درخواست دینی ہوگی اور صرف حکومت کے طے کردہ مقامات پر ہی کوئی اجتماع ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ ایک سیاہ قانون ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اقدامات سے دہشت گردی کو تقویت ملتی ہے اور روزمرہ کے معاملات میں فرق پڑتا ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

تاریخی حقائق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہوتے۔ اجتماع کا مطلب رائے عامہ کو متاثرکرنا ہوتا ہے، اگر ڈپٹی کمشنر شہر سے بہت دورکسی جگہ پر اجتماع کی اجازت دے گا تو پھر اجتماع کا مقصد ختم ہوجائے گا، اگرکسی ہنگامی صورتحال میں لوگ سڑک پر آئیں گے تو اس کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا۔ یہ قانون پاکستان کے آئین کے انسانی حقوق کے باب کی واضح خلاف ورزی ہے۔

پاکستان نے 1948میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کیے۔ اس چارٹر میں ریاستوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شہریوں کے اجتماع کے حق کو تحفظ فراہم کریں۔ یہ قانون اقوام متحدہ کے چارٹرکی بھی شدید خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز میں تنظیم سازی اور عوام کے اجتماع کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یوں یہ قانون بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری کے مترادف ہوگا۔ انگریز حکومت نے دفعہ 144 کے تحت ڈپٹی کمشنرکو کسی اجتماع کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون نافذ کیا تھا۔ یہ قانون انگریز حکومت کی دفعہ 144 کی توسیع قرار دیا جاسکتا ہے۔

برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی معاشرے کی ہیت تبدیل ہوگئی۔ کسان اپنے آبائی پیشہ کو چھوڑکرکارخانوں میں ملازم ہوئے، یوں مزدور طبقہ وجود میں آیا اور متوسط طبقہ ابھرا۔ اس کے ساتھ ہی Urbanization کا عمل بڑھا۔ ہندوستان میں 1854 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ختم ہوئی اور برطانوی ہند کی حکومت قائم ہوئی۔ برطانوی حکومت نے ہندوستان میں جدید انتظامی و عدالتی نظام قائم کیا۔ جدید تعلیمی نظام کی بنیاد ڈالی گئی۔ کلکتہ سے دلی تک ریل گاڑی چلائی گئی، یوں ہندوستان میں سفر آسان ہوا اور لوگوں میں موبیلٹی بڑھ گئی۔ پھر بجلی آئی اور صنعت کاری کا عمل شروع ہوا، یوں مزدور طبقہ پیدا ہوا اور متوسط طبقے کی بنیاد پڑگئی۔ ایک انگریز نے 1885میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔

مزدور اور کسان تنظیمیں قائم ہونے لگیں اور 1906میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ پہلے انگریز سرکار کے پرتشدد مسلح جدوجہد کا رجحان تھا مگرکانگریس نے پرامن جدوجہد کی بنیاد ڈالی۔ انگریز حکومت نے دفعہ 144 کے تحت ڈپٹی کمشنر کو سیاسی جماعت کے اجتماعات اور مظاہروں پر پابندی لگانے کا اختیار دیا۔ ہندوستان کے مختلف اضلاع میں سیاسی جماعتوں، مزدوروں اورکسانوں کے اجتماعات پر پابندی عائد کی جانے لگی۔ جب کانگریس کی جدوجہد تیز ہوئی تو حکومت نے سیاسی اجتماعات پر پابندی لگانا شروع کردی تو 13 اپریل 1919ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ متحدہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر امرتسر میں کانگریسی رہنما ڈاکٹر سیف کچلو کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہزاروں افراد امرتسر کے جلیانوانہ باغ میں جمع ہوئے۔

ضلع انتظامیہ نے اجتماع کو غیر قانونی قرار دیا۔ انگریز پولیس افسر جنرل ڈائر نے اجتماع کو منتشر کرنے کی وارننگ دی۔ ابھی اجتماع کے شرکائجنرل ڈائر کی دھمکی پر احتجاج کے طریقہ پر غور کررہے تھے کہ جنرل ڈائر نے پولیس کو ہجوم پر براہ ِراست فائر نگ کا حکم دے دیا۔ اس فائرنگ میں سیکڑوں افراد شہید ہوئے۔ جلیانوالہ باغ میں ہندوستانی شہریوں کے قتل عام پر پورے ہندوستان میں احتجاج ہوا۔ جنگ آزادی کے عظیم ہیرو بھگت سنگھ نے اس قتل عام کے بعد نئی طرزکی جدوجہد کا طریقہ کار وضح کیا۔ جلیانوالہ باغ میں ہندوستانی شہریوں کے قتل عام کے بعد انگریز حکومت نے ہندوستان کو آزاد کرنے پر غورکرنا شروع کیا۔ جب ہندوستان کے بٹوارے کے بعد نئی ریاست پاکستان وجود میں آئی تو انگریزی تربیت یافتہ نوکر شاہی نے دفعہ 144 کے ذریعے سیاسی اجتماعات پر پابندی کا طریقہ استعمال کرنا شروع کیا۔

جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاالحق تک کے ادوار میں عوام سے اجتماع کرنے اور احتجاج کرنے کے حق کو غضب کرنے کے لیے مختلف سیاہ قوانین کے تحت کارروائی کی گئی۔ اس پورے دور میں سیاسی رہنما ؤں، طالب علم، مزدور،کسانوں اور خواتین کے نمایندوں کو تقاریرکرنے اور جلوس نکالنے پر گرفتارکیا جاتا تھا۔

اخبارات میں ان احتجاجیوں کی کوریج پر پابندی لگادی گئی مگر ہر آمر کے خلاف اجتماعات ہوئے اور احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ 1968کی ایوب خان کے خلاف تحریک، 1971میں جنرل یحییٰ خان حکومت کے خلاف مشرقی پاکستان کے عوام کی تحریک، وزیراعظم بھٹو حکومت کے خلاف 1977میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک پھر 1983 میں جنرل ضیاء الحق حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (MRD) کی، 1983کی تحریکیں سیاسی اجتماعات پر پابندیوں کے خلاف شروع ہوئی تھیں اور ان تحریکوں کے نتیجے میں اس ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تھی۔

پاکستان میں برسر اقتدار حکومتوں نے عوام کے اجتماع اور عوام کے پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرلیا تھا مگر اب پھر جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی حکومت عوام کے اجتماع کے بنیادی حق کو غضب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انسانی حقوق کا شعور رکھنے والے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ اب صوبائی حکومتیں بھی ایسے ہی قوانین بنائیں گی۔ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ عوام کے اجتماع کرنے اور احتجاج کرنے کے حق کو تسلیم کرے اور اس حق کو استعمال کرنے کے لیے آسان اور سادہ طریقہ کار اختیارکیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے مظاہروں اور اجتماع میں اس بات کا خیال رکھیں کہ روزمرہ کی زندگی متاثر نہ ہو اور کسی قسم کے تشدد کا امکان نہ ہو اور سڑکیں بند نہ ہوں۔ یورپی ممالک کی طرح اگر ایک ایمبولینس آجائے تو جلسے کے دوران اس کو راستہ دیا جائے، اگر حکومت نے یہ سارے اقدامات نہیں کیے تو اس قانون سے جمہوری نظام کمزور ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں