بے حس معاشرے کے مرد
جس معاشرے میں عورت کا احترام نہ ہو وہ معاشرہ قابل احترام نہیں رہتا۔ عورت ہمارے معاشرے کا ایک معزز رکن ہے
جس معاشرے میں عورت کا احترام نہ ہو وہ معاشرہ قابل احترام نہیں رہتا۔ عورت ہمارے معاشرے کا ایک معزز رکن ہے، اس کا ہر روپ قابل عزت ہے۔ مذہب اور قانون دونوں عورت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ عورت کا کردار بلا شبہ سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عورت کا وقار دراصل ہمارے معاشرے کا وقار ہے، لیکن افسوس ! صد افسوس! مرد کے اس معاشرے میں عورت کو ہر جگہ اور مقام پر دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور اس کی توہین کو مرد اپنی فتح و برتری سمجھ کر فخر محسوس کرتا ہے۔
عورت کی ترقی و خوشحالی، مقام و عہدہ، تعلیم و ترقی اسے احساس کمتری میں مبتلا کردیتے ہیں اور وہ ہر لمحہ عورت کو اپنے کردار و عمل سے ذلیل و خوار کرکے یا جسمانی و ذہنی اذیتیں دے کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ بعض مقامات پر عورت و مرد کا رشتہ باہمی محبت کا نہیں بلکہ آقا و غلام کے رشتے میں بدل جاتا ہے گویا عورت باندی ہے اور اس کی زندگی یا دنیا میں آمد کا مقصد صرف اور صرف مرد کی خدمت و اطاعت ہے۔ اسے بولنے اور اظہار رائے یا پسندیدگی کا کوئی اختیار حاصل نہیں، اس کی پسند و نا پسند بے معنی ہے اسے فیصلہ کرنے یا اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کا بھی کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اس کے تمام فیصلے مرد کے ہاتھ میں ہیں جس دن اس نے پسند کا کوئی فیصلہ کیا اس دن اس کی زندگی و موت کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
ماں، بہن، بیٹی، عورت کے تمام روپ انتہائی دلکش چین ہیں۔ محبت و ایثار کا دوسرا نام عورت ہے، قربانی و وفا عورت کی فطرت میں شامل ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور معاشرے میں اپنی حیثیت منوانے کا اسے پورا حق حاصل ہے۔ مرد عورت کا محافظ ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر دور میں یہی مرد عورت کے لیے خوف کی علامت بنا رہا ہے۔ کہیں عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے اور کہیں موت کی نیند سلادی جاتی ہے۔ کہیں کاروکاری کی نذر ہوجاتی ہے اور کہیں ادلے بدلے کی شادی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے کہیں رشتوں کی آنچ میں جھلس کر دم توڑ دیتی ہے۔ کہیں اس کے سر سے آنچل کھینچ لیا جاتا ہے اور کہیں ننگے سر و ننگے پائوں بازاروں میں تماشا بنا دی جاتی ہے۔
افسوس ترقی و آزادی کے نام پر بھی عورت کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ کہیں کلب میں تھرکتی ہے اور کہیں اشتہارات میں نصف لباس میں نظر آتی ہے۔ مرد عورت کو اپنے مقاصد کے لیے نہایت چالاکی کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور عیاری کے ساتھ اپنی ترقی کا زینہ بناتا ہے۔
افسوس !صد افسوس! عورت کیا واقعی ناقص العقل ہوتی ہے کہ مرد آسانی سے اسے کھلونے کا درجہ دے کر دل بہلائے۔ کیا اسے اپنی طاقت اور مقام کا احساس نہیں۔ کیا وہ ایک کمزور ہستی ہے جسے ہمیشہ مظلوم کا کردار ادا کرنا ہے اور مرد کو ظلم کے مواقعے فراہم کرنا ہے۔
عورت دیکھتی بھی ہے سنتی بھی ہے اور محسوس بھی کرتی ہے۔ بظاہر وہ جتنی کمزور و نازک اندام نظر آتی ہے اس کے برعکس وہ انتہائی طاقتور ہوتی ہے۔ اس کا عزم و حوصلہ چٹانوں کی مانند ہوتا ہے۔ تاریخ کے بے شمار کردار اس کی عظمت کے گواہ ہیں۔ بے شمار مردوں کی کامیابی و ناکامی میں اس کے پس پردہ کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کہیں وہ پھول و خوشبو ہے تو کہیں انگارہ و شعلہ اس کی فطرت و ذہنیت کو ہم جب ہی سمجھ سکتے ہیں۔ جب کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ اسے سمجھنے کی کوشش کریں اسے بحیثیت انسان مرد کی برابری کا درجہ دیں اور اس کے تمام حقوق ذمے داری کے ساتھ ادا کریں۔ عورت کو اگر سماج سے خارج کردیا جائے تو یہ سماج کس قدر بے رونق نظر آئے گا۔ وجود زن ہی کی بدولت تصویر کائنات کے تمام رنگ نظر آتے ہیں۔
عورت تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے مرد کی پرورش کرتی ہے اپنی نیند اپنا سکون اس کی تربیت کی نذر کرتی ہے اور پھر یہی مرد اسے ایک کمتر ہستی کا درجہ دیتا ہے اور کوئی ندامت بھی محسوس نہیں کرتا ہے۔
بے حس معاشرے کے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ عورت کو ہر مقام اور ہر جگہ ہراساں کرکے نفسیاتی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ گھر کی ملازمہ ہو یا دفتر میں کام کرنے والی ملازمت پیشہ خاتون بسوں میں سفر کرنے والی خواتین ہوں یا اسٹاپ پر کھڑی ہوئی عورت، تنہا گھر سے نکلنے والی لڑکی ہو یا کھیتوں میں کام کرنے والی دوشیزہ، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، مرد کی جسمانی حرکات و سکنات اور اشاروں کناروں سے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔
چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش رکھنے والی عورت اکثر مقامات پر نہایت معصومیت سے مرد سے فریب کھا جاتی ہے عشق کی پر فریب کہانی۔ محبت کا یقین مظلومیت کے قصے، روشن مستقبل کی رنگین تصویریں، سب کچھ اچھا لگتا ہے لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوتا ہے جیسا نظر آتا ہے اکثر برعکس ہوتا ہے یہ تمام راستے دلدل، بند گلی اور تاریک راہوں کی جانب کھلنے لگتے ہیں۔
عورت تماشا بن جاتی ہے اور مرد تماش بین ۔ واہ چہ خوب است۔ کاش عورت اپنے مقام کو اور مرد عورت کے مقام کو پہچان لے عورت باعزت ہستی ہے بلا شبہ اس باعزت ہستی کو معاشرے میں متعارف کرانے کے لیے اور اس کے مقام کا تعین کرنے کے لیے ہمیں قوانین بنانے اور ان پر عمل کرانے سے زیادہ مردوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مرد عورت سے متعلق اپنے خیالات کو نہیں بدلیںگے تب تک عورت باعزت شہری کے طور پر کبھی بھی سماج میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتی۔