دنیا کیوں خاموش ہے
خالد القزاز مصر کے صدر محمد مرسی کی حکومت میں امور خارجہ کے سیکریٹری تھے۔
FAISALABAD:
خالد القزاز مصر کے صدر محمد مرسی کی حکومت میں امور خارجہ کے سیکریٹری تھے۔ گزشتہ سال جولائی میں انھیں مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ انھوں نے جیل سے انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز کو خفیہ طریقے سے ایک مراسلہ بھیجا ہے جو 28 جون کو اس اخبار نے شایع کیا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔
''میں اب چند ہی دنوں میں اپنی قید کے 365 دن پورے کرلوں گا۔ قید و بند کا یہ زمانہ میں نے قاہرہ کی بدنام زمانہ تورہ جیل کے انتہائی سیکیورٹی کے اسکورپین ونگ میں قید تنہائی میں گزارا ہے۔ اس پورے سال کے دوران میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتا رہا ہوں کہ میں نے کیا کیا جو میں آج اس جگہ ہوں۔ اس سے بڑھ کر جو سوال مجھے باربار پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام سیاست داں، حقوق انسانی کے علم بردار اور میڈیا میرے معاملے میں خاموش کیوں ہیں؟
اپنی تعلیم کے اعتبار سے میں انجینئر ہوں اور درس و تدریس میرا پیشہ ہے۔ 2011 میں انقلاب مصر کے بعد مجھے سیاست سے دلچسپی ہوئی اور میں نے صدر کے انتخاب کی مہم میں ایک ورکر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ جولائی 2012 میں جب مصر کے پہلے جمہوری طریقے سے صدر منتخب ہونے کے بعد محمد مرسی نے عہدہ سنبھالا تو مجھے ان کا امور خارجہ کا سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ پھر جب فوج نے جناب مرسی کی حکومت کو ختم کیا تو یہ بات عیاں تھی کہ صدر کو اور ان کے رفقا کارکو سزا دی جائے گی۔ میں اس کے لیے تیار تھا۔ میں نے اور صدر کے عملے کے آٹھ اراکین نے فیصلہ کیا کہ ہم فوج کی منتقمانہ کارروائی کا انتظار کریں گے۔
3 جولائی 2013 کو نئے سیکریٹری دفاع کے حکم پر ریپبلکن گارڈز نے جناب مرسی کو گرفتار کرلیا۔ ہم بھی ان کے ساتھ گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے اس کی توقع تھی لیکن ہماری گرفتاری کے بعد جو خاموشی چھا گئی اس کی مجھے توقع نہیں تھی۔
اس ایک سال کے دوران جب مرسی صدر تھے ہماری حکومت اور عالمی لیڈروں کے ساتھ بیسیوں ملاقاتیں ہوئیں،کبھی سرکاری دوروں میں اور کبھی بین الاقوامی کانفرنسوں ان تمام ملاقاتوں اور میٹنگوں میں، میں موجود رہا ہوں کیونکہ صدر کے لیے میٹنگ نوٹس مجھے لینے ہوتے تھے۔ ہم نے اپنے علاقے میں قیام امن کے لیے مغربی لیڈروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ان کے نمایندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ نومبر 2012 میں ہم نے صدر اوباما اور سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن سے تعاون کرکے غزہ میں جنگ بندی کرائی۔
شام اور مالی میں بھی ہم امن قائم کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے ہم نے ایک قابل عمل منصوبہ تیار کیا۔ ہم نے مصر کے لیے حقوق انسانی کا ایجنڈا بھی تیار کیا اور اقوام متحدہ کو دعوت دی کہ وہ قاہرہ میں مصری خواتین کے حقوق کا اپنا دفتر قائم کرے۔ ہم نے ایک نئے مصر کی تعمیر کے لیے قانون سازی کی سفارش کی اور اس سلسلے میں اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے زیادہ سے زیادہ مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں سے رابطہ قائم کیا۔ ہماری ان تمام کوششوں اور رابطوں کے باوجود جولائی 2013 میں ہماری گرفتاری پر عالمی برادری کی خاموشی کی وجہ اب تک میری سمجھ میں نہیں آئی۔
ہماری گرفتاری اور قید پر امن اور حقوق انسانی کے علم بردار کیوں چپ ہیں۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ جب فوج نے مصری حکومت کو برطرف کیا تو ہمارے بین الاقوامی شرکائے کار کی طرف سے ایک آواز بھی نہیں اٹھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان کے نزدیک ہمارا وجود ہی نہ تھا۔ ان کی خاموشی ایسی گمبھیر تھی کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: کیا واقعی ہمارا کوئی وجود تھا یا ہم محض ایک عکس تھے۔ پھر جب دسمبر میں ہیومن رائٹس واچ نے ہماری جبریہ گمشدگی پر ایک بیان جاری کیا تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارا وجود ہے اور ہم زندہ ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا یہ بیان ہمیں مہنگا پڑا۔ صدر کے دو سینئر ساتھیوں، ان کے اسسٹنٹ اور ایک مشیر کو مزید الزامات لگاکر انتہائی نگرانی کے جیل خانے میں بھیج دیا گیا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ اسی Maximum Security کی جیل میں پہنچادیا گیا۔ ہوسکتا ہے اس مضمون کی یادداشت میں مجھ پر مزید الزامات لگادیے جائیں اور میں انتقامی کارروائی کا مستحق ٹھہروں۔
میرے ساتھ یہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں تہذیبوں اور ثقافتوں کے مابین مخلصانہ میل جول اور مفاہمت چاہتا ہوں۔ میں اس عالمی فکر کی نمایندگی کرتا ہوں جو ایسے میل جول کی حامی ہے۔ میں اس نسل کا نمایندہ ہوں جو ملکی سرحدوں سے بے نیاز ایک عالمی برادری کے طور پر رہنا چاہتی ہے، جو غیر جمہوری اداروں کے تسلط کی مخالف اور ان کی کارروائیوں میں مزاحم ہے۔ میری زندگی تین براعظموں میں گزری ہے۔ ایشیا میں کہ میرا بچپن متحدہ عرب امارات میں گزرا ہے، شمالی امریکا میں کہ میں نے کینیڈا میں کالج میں پڑھا ہے اور وہیں پوسٹ گریجویٹ تعلیم حاصل کی ہے اور افریقہ میں کہ مصر میرا وطن ہے۔
میری بیوی کینیڈین ہے، ہمارے چار بچے کینیڈین مصری ہیں۔ میں مسلمان ہوں اور مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان اختلاف سے زیادہ ان باتوں کا قائل ہوں جو ان کے درمیان مشترک ہیں۔ میں کینیڈا کو رواداری اور ملٹی کلچر ازم (Multi Culturism) کا ماڈل سمجھتا ہوں۔ امریکا اور یورپ میری نظر میں ایجاد و اختراع کے مرکز ہیں جو اصول پرستی پر مبنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا میں امن قائم کرسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایشیا ان قدروں کے ساتھ جو ساری دنیا کی بھلائی کی ضامن ہیں عالمگیر سائنسی ترقی میں شریک کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری نظر میں مشرق وسطیٰ تہذیبوں کا سنگم ہے جو مستحکم امن کے ساتھ نوع انسانی کے ایک دوسرے پر انحصار اور باہمی رواداری کی لازوال مثال بن سکتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ موجودہ صدی پچھلی صدیوں سے مختلف ہے۔ اب معاملات میں عالمی برادری کا عمل دخل زیادہ ہوگا اور اس کے تقاضے سیاست دانوں کو پورے کرنے ہوں گے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ خواب ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ خواب ہی رہے۔ کچھ خواب ضرور پورے ہوتے ہیں۔
25 جنوری 2011 کو جب پانچ افراد تحریر اسکوائر میں جمع ہوئے اور انھوں نے قوم کو آزادی، انصاف اور انسانی وقارکے نام پر اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی تو پورے مصر نے لبیک کہا۔ ہم نے ایک ڈکٹیٹر سے جو تیس سال سے حکومت پر قابض تھا، چھٹکارا حاصل کرلیا۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے مجھے 2012 کی انتخابی مہم میں کام کرنے پر آمادہ کیا۔
آج میرے خواب ایک سوال کا جواب چاہتے ہیں۔ نوع انسانی میں میرے بھائیوں اور بہنوں! میں جانتا ہوں مصر کی فوجی حکومت مجھے خاموش رکھنا چاہتی ہے لیکن آپ کے لب کیوں بند ہیں؟ بتائیے! آپ میرے بارے میں کیوں نہیں بولتے؟