سچی پیش گوئیاں تیسرا اور آخری حصہ
وہ راجے مہاراجے جو جنگجو تھے یعنی لڑائی کے فن میں ماہر تھے، وہ شراب اور بھنگ کے نشے میں مست ہوں گے
اپنے بڑے بھائیوں کو قتل کروانے کے بعد اورنگزیب نے اپنے باپ کو گوالیار کے قلعے میں قید کر دیا اور خود تخت و تاج کا مالک بن بیٹھا۔ بعد میں شاہجہاں کو آگرے کے قلعے میں قید کر دیا اور باپ سے بہت ناروا سلوک روا رکھا۔ دارالشکوہ کی کتاب کا اردو ترجمہ سفینۃالاولیا کے نام سے بازار میں موجود ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے۔ اورنگزیب نے حضرت سرمد شہید کو بھی قتل کروا دیا تھا جو ایک بہت بڑے بزرگ اور مجذوب تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے یہ اشعار 1134 میں کہے اور مغلوں کی آمد کی تاریخ یوں ہے:
(1)۔ظہیر الدین بابر (1526 تا1530)
(2)۔نصیر الدین ہمایوں (1530 تا 1540 اور پھر 1555-56)
(3)۔جلال الدین اکبر (1556 تا 1605)
(4)۔نورالدین جہانگیر (1605 تا1627)
(5)۔شہاب الدین شاہجہاں (1627 تا 1658)
(6)۔اورنگزیب (1658تا 1707)
مغلیہ دور میں اٹھارہ بادشاہ گزرے ہیں لیکن زیادہ شہرت مندرجہ بالا بادشاہوں کو ملی یا پھر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو جو ایک عمدہ شاعر بھی تھے اور جن کو دفن ہونے کے لیے بھی اپنے وطن کی سرزمین نہ ملی۔ ان کا یہ شعر دیکھیے:
کہتا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
مغلوں کا دور ہندوستان کا سنہرا دور تھا، انگریزوں کو جب یہ پتا چلا کہ ہندوستان سونے کی چڑیا ہے تو انھوں نے تجارت کے بہانے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا اور پھر اس سونے کی چڑیا کے پَر کاٹ کر اپنی قید میں کر لیا۔ اب یہ پیش گوئی دیکھیے۔
تا مدت سہ صد سال در ملک ہند بنگال
کشمیر، شہر بھوپال، گیرند تاکرانہ
یعنی مغلوں کی حکومت تین سو سال تک رہے گی اور یہ حکمرانی بنگال کے علاوہ کشمیر اور بھوپال میں بھی ہوگی۔دیکھا آپ نے کہ ان پیش گوئیوں میں نہ صرف زمانے کا تعین ہے بلکہ ہر بادشاہ کا نام بھی ہے۔ سوائے اورنگزیب کے۔ اس کا سبب وہی بزرگ جانتے ہوں گے۔ اب اس شعر میں بابا گرونانک کی پیدائش اور ان کی شہرت و عزت کا ذکر کرتے ہیں۔
نام او نانک بود آرد جہاں باوے رجوع
گرم بازار فقیر بیکراں پیدا شود
یعنی نام اس کا نانک ہوگا، لوگ اس کی طرف مائل ہوں گے، اس بہت بڑے فقیر کا دنیا میں بہت چرچا ہوگا۔ بابا گرونانک کی پیدائش پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں 29 نومبر 1469 میں ہوئی۔
اب ایک اور شعر دیکھیے، گرو نانک ہی کے حوالے سے:
دلمیان ملک پنجابش شود شہرت تمام
قوم سکھانش مرید و پیراں پیدا شود
یعنی ان کی شہرت ملک پنجاب کے درمیانی علاقے میں ہوگی، سکھ قوم اس کی مرید ہوگی، جب کہ وہ ان کے پیر کے طور پر ظاہر ہوگا۔
اس کے بعد وہ انگریزوں یعنی عیسائیوں کی آمد کی پیش گوئیوں کی طرف آتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
بعد ازاں گیرد نصاریٰ ملک ہندویاں تمام
تا صدی حکمش میاں ہندوستاں پیدا شود
یعنی ان کے بعد عیسائی (نصاریٰ) سارے ہندوستان پر قابض ہو جائیں گے۔ ہندوستان پر ان کا حکم سو سال تک چلے گا۔ بزرگ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ انگریز سو سال تک ہندوستان پہ قابض رہے۔
آں راجگانِ جنگی مئے خور مست بہنگی
در ملک شاں فرنگی آئند تاجرانہ
فرماتے ہیں:
وہ راجے مہاراجے جو جنگجو تھے یعنی لڑائی کے فن میں ماہر تھے، وہ شراب اور بھنگ کے نشے میں مست ہوں گے۔ فرنگی یعنی انگریز ان کے ملک میں تاجر بن کر آئیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ انگریز مرچ مسالوں کی تجارت کے بہانے آئے اور آہستہ آہستہ جہانگیر کے دور سے لے کر فرخ سیر کے زمانے تک انھوں نے بہت قوت حاصل کر لی تھی اور پھر اپنی شاطرانہ چالوں سے پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے اور یہاں کی قیمتی اشیا بھی ساتھ لے گئے۔
اب ذرا یہ شعر دیکھیے جس میں ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ کئی صدیوں پہلے اللہ کے ولی کو یہ معلوم تھا، وہ اپنے دیدۂ بینا سے سب کچھ دیکھ رہا تھا، اور یہ بصیرت اسے باری تعالیٰ نے دی تھی، وہی تو ہے جو اپنے ولیوں کے لیے سب کچھ آشکارا کر دیتا ہے۔
دو حصص چوں ہند گردد، خوں آدم شد رواں
شورش و فتنہ فزوں از گماں پیدا شود
یعنی ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور اس کی وجہ سے انسانوں کا خون بہے گا، جب کہ بہت زیادہ ہنگامہ خیزی اور فتنے پیدا ہوں گے۔ کس قدر سچائی ہے اس شعر میں، ہمارے بزرگوں نے سہا اور دیکھا ہے کہ تقسیم کے دوران کس طرح قتل و غارت گری ہوئی۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوئے، اپنے بسے بسائے گھروں کو چھوڑ کر لوگ کس طرح نکلے۔ بقول شاعر:
بسے بسائے گھروں سے بچھڑنے والے ہم
وہ اہلِ ہجر ہیں جن کا کہیں ٹھکانہ نہیں
یا
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
''سچی پیش گوئیاں'' میں بہت سے آنے والے زمانوں کی بھی خبر دی گئی ہے۔ امام مہدی کی آمد، حضرت عیسیٰؑ کی آمد، دجال کا خروج اور سانحہ مشرقی پاکستان سمیت اور بھی واقعات ہیں۔ تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ یہ کتاب توصیف احمد خان نے ترتیب دی ہے جو صحافی بھی ہیں اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی وابستہ ہیں۔ یہ کتاب نگارشات پبلشرز نے شایع کی ہے۔ کراچی میں یہ فضلی سنز، اردو بازار میں دستیاب ہے جب کہ لاہور میں میاں چیمبر،3 ٹیمپل روڈ، لاہور سے مل سکتی ہے۔