عوامی فنڈز کی بچت کیلیے اسسٹنٹ کمشنرز کیلیے گاڑیاں خریدی جارہی ہیں سندھ حکومت

سندھ حکومت نے اسسٹنٹ کمشنرز کیلیے گاڑیاں خریدنے کے معاملے پر وضاحت جاری کردی


محمد سلیم جھنڈیر September 05, 2024
فوٹو فائل

سندھ حکومت نے صوبے بھر کے اسسٹنٹ کمشنرز کیلیے نئی گاڑیاں خریدنے سے متعلق وضاحت جاری کردی جس میں کہا گیا ہے کہ معاملے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔

ترجمان سندھ حکومت کے مطابق الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر سندھ حکومت کی جانب سے صوبے میں اسسٹنٹ کمشنرز (ACs) کیلئے گاڑیوں کی خریداری کیلئے 2 ارب روپے مختص کرنے کے فیصلے پر اٹھائے گئے سوالات میں نہ صرف سیاق و سباق کا فقدان ہے بلکہ اس فیصلے کے پیچھے ضرورت اور دلیل کو بھی غلط انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنرز صوبائی انتظامیہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے ACs امن و امان برقرار رکھنے، قیمتوں پر قابو پانے، پولیو کے خاتمے، سیلاب کے انتظام، اسکولوں اور اسپتالوں کے معائنے، لینڈ ایڈمنسٹریشن، الیکشن ڈیوٹی اور دیگر ضروری کاموں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

وضاحت میں سندھ حکومت نے کہا کہ مذکورہ افسران اکثر چوبیس گھنٹے اور دور دراز علاقوں میں سرکاری مشینری کے کام کو یقینی بنانے کیلئے انتھک محنت کرتے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشرنز کیلئے گاڑیوں کی آخری خریداری 2010 اور 2012 میں کی گئی تھی اور اُس وقت چھوڑی گاڑیاں خریدی گئیں تھیں جن کی اوسط عمر 8 سال تک ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ حکومت کا اسسٹنٹ کمشنرز کیلیے 138 لگژری ڈبل کیبن گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں خریدی گئی گاڑیوں میں سے زیادہ تر گاڑیاں اپنی میعاد پوری کرچکی ہیں اور مقررہ حد سے بھی زیادہ چل چکی ہیں جس کے باعث اُن کے پرزوں میں خرابی پیدا ہورہی ہے جبکہ کچھ افسران کے پاس 2005 سے پرانی ماڈل کی گاڑیاں بھی ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گاڑیاں خراب اور پرانی ہونے کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنرز سرکاری فرائض کے لیے اپنی پرائیویٹ گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو کہ ناقابل عمل اور غیر منصفانہ ہے، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے افسران کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں بھی نہیں ہیں اور اس لیے وہ سرکاری فرائض اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے نجی گاڑیاں کرائے پر لینے پر مجبور ہیں۔

مزید برآں سندھ حکومت نے اس وقت پرانی گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ ہونے والے عوامی فنڈز کو کم کرنے کیلیے دو ارب روپے کی مالیت سے نئی ڈبل کیبن گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا کیونکہ نئی گاڑیاں آنے کے بعد مرمت پر ہونے والے لاکھوں کے اخراجات کم ہوجائیں گے۔

وضاحتی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہے کہ حکومت نے اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے جن ڈبل کیبن گاڑیوں کو خریدنے کا فیصلہ کیا ہے وہ کبھی بھی لگژری گاڑیوں کے زمرے میں نہیں آتیں۔ یہ آپریشنل گاڑیاں ہیں اور حکومت لاگت کی تاثیر کو یقینی بنانے کے لیے سب سے بنیادی قسم کی خریداری کرے گی۔

اس کے علاوہ حکومت موٹر وہیکل انسپکٹرز کے ذریعے ناکارہ اور ناقابل تلافی گاڑیوں کا فعال طور پر معائنہ اور انکی مذمت کر رہی ہے، جس سے ان اثاثوں کی کھلی نیلامی کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ سرکاری گاڑیوں کی وصولی کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں جو اس وقت غیر مجاز قبضے میں ہیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں پہلے ہی ایسی 50 فیصد سے زائد گاڑیوں کی وصولی ہو چکی ہے جنہیں متعلقہ محکموں اور فیلڈ دفاتر کو دوبارہ تفویض کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ کی جانب سے ویگو گاڑیاں خریدنے کا معاملہ اسمبلی پہنچ گیا

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے آپریشنل گاڑیوں کی خریداری کا فیصلہ حکومت سندھ کے لیے منفرد نہیں ہے۔ سسٹرصوبوں نے اسی طرح اپنے انتظامی افسران کو آمد ورفت سہولت سے لیس کیا ہے۔ اعلامیے میں کہاگیا ہے کہ گاڑیاں خریدنے کے فیصلے کو شاہانہ قرار دینا گمرہ کن عمل ہے کیونکہ اسسٹنٹ کمشنرز دو راز علاقوں میں جاکر ہنگامی حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، اس بات کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ فیلڈ افسران فعال اور قابل اعتماد گاڑیاں استعمال کریں اور صوبائی انتظامیہ کی سالمیت کو برقرار رکھیں۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سیلاب متاثرین کی ضروریات اور دیگر اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کا عزم غیر متزلزل ہے۔ تاہم انتظامی افسران کی آپریشنل کارکردگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ آخر میں فیلڈ افسران کے لیے گاڑیوں کی خریداری کے لیے مطلوبہ اخراجات ایک جائز اور ضروری فیصلہ ہے جس کا مقصد ہمارے افسران کی انتظامی صلاحیتوں کو بڑھانا اور بہتر عوامی خدمت کی فراہمی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان افسران کے اہم کردار کو پہچانیں اور ایسے اقدامات کی حمایت کریں جو انہیں زیادہ مؤثر طریقے سے عوام کی خدمت کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں