ختم نبوت کی چوکیداری مبارک

نبی رحمت کی پیش گوئی کے مطابق مختلف ادوار میں جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہوئے


[email protected]

دور نبوی سے لے کر آج تک ہر دور میں مسلمان اللہ کی وحدانیت اور حضور ﷺ کی ختمِ نبوت کے عقیدے پر جذباتی اور مرمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ہیں اور عالم کفر کی کوشش رہی کہ کسی طرح مسلمانوں کا اللہ پر یقین کمزور اور عقیدہ ختمِ نبوت پر زد آجائے۔ حضور کی ذاتِ با برکات اور عقیدہ ختمِ نبوت مسلمانوں کا وہ بنیادی سرمایہِ حیات ہے جس کے بغیر مسلمان، مسلمان نہیں رہتا۔ سلسلہِ نبوت جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا، وہ آنحضرت پر ختم کردیا گیا۔آپ اللہ کے آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپ کی امت آخری امت ہے اس کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی، آپ پر جو کتاب (قرآن کریم) نازل ہوئی وہ آخری کتاب ہے۔

یہ عقیدہ ختم نبوت کہلاتا ہے۔''عقیدہ ختم نبوت'' اسلام کے بنیادی عقیدہ، بنیاد اور اساس ہے، اس پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی اکرم کی رسالت پر ایمان لانے جیسا ضروری ہے۔ حضور اکرم کی ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ عقیدہ قرآن کریم کی سو سے زائد آیات اور دو سو احادیث سے ثابت ہے، امت کا سب سے پہلا اجماع بھی اسی پر ہوا، ختم نبوت کا مسئلہ اسلامی تاریخ کے کسی دور میں مشکوک اور مشتبہ نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اس پر بحث کی ضرورت سمجھی گئی، بلکہ ہر دور میں متفقہ طور پر اس پر نہ صرف ایمان لانا ضروری بلکہ اس عقیدے کا تحفظ بھی ایمانی غیرت کا تقاضا سمجھا گیا۔

نبی رحمت کی پیش گوئی کے مطابق مختلف ادوار میں جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہوئے اور ذلت و رسوائی سمیٹ کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور آقاکریم کی ختم نبوت کا چمکتا تاج ہر دور میں بلند اور تاقیامت بلند رہے گا۔ ہمارے ہاں بھی اسوۂ نبوی اور صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علمائے حق جھوٹے دعویٰ نبوت کے خلاف میدان عمل میں آئے اور مسلمانوں نے ان علما حق اور مشائخ عظام کی قیادت میں عقیدہ ختم نبوت کے لیے لازوال قربانیاں دیں، جانوں کے نذرانے دیے، ماریں کھائیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر آقاکریم کی ختم نبوت پر ڈاکا برداشت نہیں کیا۔

اس کے لیے 1953 میں تحریک چلی، جس میں یہی بنیادی مطالبہ تھاکہ آقاکریم کی ختم نبوت پرایمان نہ رکھنے والوںکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، انھیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ 1973 میں ایک بار پھر بھرپور ملک گیر تحریک چلی اور تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کا بیک آواز ایک ہی مطالبہ تھا کہ منکرین ختم نبوت کو غیر مسلم اقلیت قراردیا جائے۔ نصرت الٰہی سے اس مطالبے نے زور پکڑا، تاریخی اور بے مثال تحریک چلی، پوری قوم اس مسئلے پر متفق تھی، چنانچہ یہ تحریک7 ستمبر کے تاریخ ساز آئینی فیصلے پر منتج ہوئی۔7 ستمبر 1974کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وہ تاریخی بل منظور کیاگیا۔

قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا۔ جس کا سہرہ حضرت مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبدالحق، مولانا شاہ احمد نورانی اور قومی اسمبلی میں موجود دیگر اکابرین کے سر جاتا ہے۔ اس کا کریڈٹ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور تمام اراکین پارلیمنٹ کو بھی جاتا ہے کہ انھوں نے اس گروہ کو متفقہ اور دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ اس فیصلے کو 50 سال گزر چکے ہیں، الحمدللہ 7 ستمبر 1974سے 22 اگست 2024تک مسلمانان پاکستان نے پارلیمنٹ کے اس تاریخ ساز فیصلے پر پہرہ دیا اور سچے عاشقان مصطفیٰ ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ 22 اگست 2024کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی کیس کے اپنے ہی فیصلے سے رجوع کیا اور متنازع فیصلے کو قرآن و سنت اور آئین پاکستان کی روشنی میں درست کیا۔

اس پر آگے تفصیل سے بات کرتے ہیں، سردست آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ امسال مسلمانان پاکستان 7 ستمبر 1974 کے تاریخ ساز فیصلے کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں۔ ملک گیر سطح پر ختم نبوت کے عنوان پر سیمینارزاور کانفرنسیں شروع ہیں، اس سلسلے میں سب سے بڑا اجتماع جمعیت علمائے اسلام پاکستان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مینار پاکستان پر تاریخ ساز ختم نبوت کانفرنس ہونے جا رہی ہے، جس میں مولانا مفتی محمود کے فرزند اور عقیدہ ختم نبوت کے چوکیدار اعلیٰ مولانا فضل الرحمٰن، مجلس کے عالمی امیر مولانا پیر ناصر الدین خاکوانی، مولانا اللہ وسایا اور تمام مکاتب فکر کی نمایندہ جماعتوں کے جید اکابرین خطاب کریں گے۔

پورے ملک میں اس کانفرنس کی تیاریاں جاری ہیں، چاروں صوبوں سے لاکھوں عاشقان ختم المرسلین جوق در جوق شریک ہونگے۔ 22 اگست کے فیصلے کے بعد اس کانفرنس کی اہمیت اور عوام میں جوش مزید بڑھ گیا ہے۔ اس اجتماع کے ذریعے جہاں 7 ستمبر 1974کے تاریخ ساز فیصلے کی گولڈن جوبلی منائی جائے گی، وہاں 22 اگست 2024 کے تاریخ ساز فیصلے پر ''یوم الفتح'' منایا جائے گا۔

قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے پہلے 6 فروری کو اور بعد ازاں 24 جولائی کو فیصلے سنائے، ملک بھر کی دینی و سیاسی جماعتوں نے ان فیصلوں کے بعض نکات پر اعتراض کیااور انھیں قرآن و سنت اور آئین و قانون سے متصادم قرار دیا۔ اس ایشو پر ملک گیر احتجاجی مظاہروں نے زور پکڑ لیا تھا، بات شہروں اور شاہراہوں تک محدود نہیں رہی تھی، پاکستان کی پارلیمان کے اندر بھی شدید بے چینی پائی گئی، جہاں حکومت سمیت تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے اراکین نے بھی احتجاج کیا تھا، پارلیمنٹ میں قرار داد بھی پاس ہوئی۔ وفاقی ہی نہیں پنجاب حکومت بھی حرکت میں آئی اور اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی۔ متفرق درخواستوں میں بعض جید علمائے کرام کا نام لے کر عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ اس مقدمہ کی تشریح کرتے وقت ان کی آراء کو مدنظر رکھا جائے، عدالت نے اس درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ان علمائے کرام کو نوٹسز جاری کیے۔

24 جولائی کو سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی، عدالت کی معاونت کے لیے مولانا فضل الرحمٰن، مفتی شیر محمد خان، مولانا محمد طیب قریشی، صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر اور مولانا ڈاکٹر عطاالرحمن ذاتی طور پر پیش ہوئے جب کہ مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے اور عدالت کی معاونت کرتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کا حق ادا کردیا۔ شیخ الاسلام مولانا تقی عثمانی نے عدالت کی توجہ فیصلے کے متنازعہ نکات کی طرف دلائی، متنازع پیرا گرافکس حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے مفتی تقی عثمانی کے تمام نکات کی تائید کی۔ مولانا نے کہا کہ آج میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ختم نبوت کے لیے یہاں کھڑا ہوں۔

78 سال میں پہلی بار ختم نبوت کے مسئلے پر عدالت میں کھڑا ہونا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب اپنے فیصلے کا پیرا گراف نمبر42 حذف کر دیں۔تمام اکابرین نے قرآن و سنت اور آئین و قانون کی روشنی میں ٹھوس دلائل دیے۔ ان کی آرا کو سن کر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی درخواست اور علمائے کرام کی تجاویز منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیراگرافس حذف کردیے۔

عدالت نے قرار دیا ہے فیصلے کے مطابق جو پیراگراف حذف کرائے گئے ہیں وہ کسی بھی فیصلے میں بطور نظیربھی پیش نہیں ہوں گے، سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لینے کا بھی حکم دیا ہے۔ فیصلے کے اگلے ہی روز مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی اپیل پر ملک بھر میں یوم فتح منایا گیا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، بلاشبہ اس تاریخ ساز فیصلے پر پوری قوم عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری پر مبارکباد کی مستحق ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں