بنگالی بھائیوں کی تیسری آزادی آخری قسط

شیخ حسینہ نے طلباء کو discredit کرنے کے لیے الزام لگایا کہ ’’یہ تو پاکستان کی حمایت کرنے والے رضا کار ہیں‘‘


[email protected]

ہندوستان کی خواہش کے باوجود بنگلہ دیش ہندوستان میں ضم نہ ہوا بلکہ برصغیر میں ایک کے بجائے دو مسلمان ملک قائم ہوگئے مگر شیخ مجیب نے جب بنگلہ مسلمانوں سے ان کا نظریہ حیات چھیننے کی کوشش کی اور بنگلہ دیش کو بھارت کا اطاعت گزار بنانا چاہا تو اسی دیش کے حریت پسندوں نے ملک کے بانی کو بھی معاف نہیں کیا اور اسے خاندان سمیت بھون ڈالا۔ میں دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمان کا وہ گھر دیکھنے گیا جو ان کا مقتل بنا، ہر کمرہ عبرت کا نشان تھا، مکان کے درودیوار اس بات کی دھائی دے رہے تھے کہ 47میں تسلیم کیا گیا دو قوموں کا الگ الگ وجود اور حیثیت ختم کرنے کی جس نے بھی کوشش کی، وہ خود فنا کے گھاٹ اتر گیا۔

یہ حقیقت کئی بار ثابت ہوچکی ہے کہ متحدہ پاکستان کے مشرقی حصے کے باشندے شروع سے ہی مغربی حصے سے زیادہ باشعور اور آزادی پسند ہیں۔ 1958کے مارشل لاء کے بعد بننے والی پہلی نیشنل اسمبلی میں آمریت کے خلاف بنگالی ارکان کی تقاریر اسمبلی سیکریٹریٹ کا تاریخی اثاثہ ہیں اور وہ نئے ارکان کو لازمی پڑھائی جانی چاہئیں۔

مشرقی پاکستانیوں نے نہ جنرل ایوب کی آمریت قبول کی اور نہ جنرل یحییٰ اور نیازی جیسے نااہل اور اخلاق باختہ کرداروں کے آگے سرجھکایا۔ وہ حریت پسندی کی اعلیٰ ترین اقدار اور روایات کے امین اور وارث ہیں، اسی لیے جب شیخ مجیب کے بعد اس کی فاشسٹ ذہن کی حامل بیٹی نے عوام سے ان کے حقوق اور آزادی چھین کر ہندوستان کے پاس گروی رکھ دی ، ہر مخالف کو جیل کی کال کوٹھڑیوں پھینک دیا، اسی اور پچاسی سال کی برگزیدہ شخصیات کو پھانسیاں دے دیں (دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئنز میں سے کسی نے اس کے ہاتھ نہ روکے) اور پھر جب اس ظالم نے کوٹے کے نام پر نوجوان طلباوطالبات سے ان کے خواب بھی چھین لینا چاہے تو پورے ملک کے طلباء اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس ڈکٹیٹر کو تخت سے اتار کر سرحد سے باہر پھینک دیا۔

شیخ حسینہ نے طلباء کو discredit کرنے کے لیے الزام لگایا کہ ''یہ تو پاکستان کی حمایت کرنے والے رضا کار ہیں'' اس کا جواب پورے بنگلہ دیش کے طلباء نے بیک زبان یہ نعرہ لگا کر دیا کہ ''میں کون، تم کون۔ رضا کار۔ رضاکار'' اس کے بعد ایک دو جگہوں پر فلسطینی پرچم کے ساتھ پاکستان کا جھنڈا بھی لہرایا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ حسینہ واجد اور اس کی پالیسیوں سے شدید نفرت اور ردّعمل میں کیا گیا۔ بنگلہ دیش کے طلباء کی تاریخی تحریک آزادی میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے۔

حسینہ واجد نے پاکستان کے ساتھ دشمنوں سے بڑھ کر مخاصمانہ طرز عمل اپنائے رکھا۔ وہ پاکستان سے متعلق ہر معاملے میں بھارت کی طرفدار رہی۔ اس نے صرف جماعت اسلامی کو ہی غیض وغضب کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ بنگلہ دیش کو سیکولر ملک بنا دیا۔ اسلام اور اسلامی عقائد کو امور مملکت سے الگ کردیا۔ یونیورسٹیوں میں اسلام کی بات کرنے یا قرآن پڑھنے والوں کو نکال دیا جاتا تھا۔ ایک وڈیو بہت وائرل ہوئی ہے جس میں طلباء ڈھاکا یونیورسٹی کے اس دھرئیے ڈین کے سامنے کھڑے ہوکر اسے قرآنی آیات سنارہے ہیں، جس نے اسلامی مجالس یا سیرتُ النبی کی تقریبات پر پابندی لگادی تھی، اور اس ڈین کو استعفیٰ دینا پڑا۔

بنگلہ دیش کے بہادر طلباوطالبات! آپ کے نعرے سن کر ہم خوش ضرور ہوئے ہیں مگر ہم نے کسی قسم کی کنفیڈریشن کا نام تک نہیں لیا، نہ ہی لینا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کی تیسری بار لی گئی آزادی پر آپ کو مبارک باد دیتے ہیں۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ آپ کے دل سے ہمارے لیے کدورتیں اور نفرتیں ختم ہوجائیں۔ ہم تسلیم کرتے ہیں آپ بڑے بھائی تھے، مسلم لیگ کے خالق آپ تھے اور پاکستان کے قیام میں آپ کا کردار ہم سے کہیں زیادہ تھا۔

اس لیے متحدہ پاکستان میں فیصلوں کا اختیار آپ کے پاس ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ ہماری طرف سے زیادتیاں ہوتی رہیں۔ مگر وہ زیادتیاں مغربی پاکستان کے عوام کی طرف سے نہیں ہوئیں، ان کے دل تو آپ کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ زیادتیاں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی طرف سے ہوئیں جو عوام کے نمایندے ہرگز نہیں تھے، وہ تو زبردستی حکومت پر قابض ہوگئے تھے، وہ منتخب حکمران نہیں غاصب تھے۔ مغربی پاکستان کے عوام تو خود کئی سالوں تک ان کی زیادتیوں اور جبر کا نشانہ بنتے رہے۔ لیکن ہم ان آمروں کی زیادتیوں پر بھی اپنے بنگالی بھائیوں اور بہنوں سے ایک بار پھر معذرت کرتے ہیں۔ پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم بھی کئی بار معذرت کرچکے ہیں۔

ایک گزارش پر آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں، ہمارے ہاں بھی کچھ افراد اور پارٹیوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی، وہ 1947 میں کانگریس کے ہمنوا تھے۔ مگر پاکستان بننے کے بعد ان میں سے زیادہ تر نے پاکستان کو دل سے قبول کیا اور پھر وہ اس کے آئین پر حلف اٹھا کر قومی اسمبلی کے ممبر، وزیر اور صوبوں کے وزیرِاعلیٰ اور گورنربنے اور مسلسل بن رہے ہیں، کسی نے اُن پر پابندی لگانے یا انھیں غدار قرار دے کر پھانسیاں دینے کا مطالبہ نہیں کیا۔

بڑی قومیں فراخدلی کا مظاہرہ کرتی ہیں، 16 دسمبر 1971 تک ڈھاکا اور پورا بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ (مشرقی پاکستان) تھا، اگر وہاں کے کچھ باشندوں نے بھارتی افواج کے مقابلے میں اپنے ملک پاکستان کی مدد کی یا سویلینز نے البدر جیسی کچھ تنظیمیں بنا کر پاکستانی فوج کی مدد کی تو انھوں نے کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، لہٰذا ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا تھا۔ آپ کے دل میں بھی ان کے لیے منفی جذبات نہیں ہونے چائیں۔ اگر کل کلاں بنگلہ دیش پر ایسا وقت آیا تو وطن کے دفاع کے لیے وہ سب سے آگے ہوں گے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکومتوں کے مابین معاہدہ بھی ہوچکا تھا کہ دونوں ملک 1971 کی جنگ کے حوالے سے کسی شہری کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلائیں گے۔ پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی اور صلاح الدین چوہدری نے بنگلہ دیش کو دل سے تسلیم کرلیا تھا۔

اس کے آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہاں پارلیمنٹ کے رکن اور کابینہ کے وزیر رہ چکے تھے۔ مگر پچاس سال بعد اچانک وزیراعظم حسینہ کو خیال آیا کہ چونکہ یہ لوگ میری آمریت پر تنقید کرتے ہیں لہٰذا ان پر نصف صدی پرانے الزامات لگا کر انھیں ختم ہی کردیا جائے۔ زرخرید ججوں نے مطلوبہ فیصلوں پر مہر لگادی اور ایک سفّاک حاکم نے اکیسویں صدی میں بھی اپنے سیاسی مخالفین کو تحتۂ دار پر لٹکا کر ظلم اور درندگی کی نئی تاریخ لکھ دی۔ اس پر دنیا کی خاموشی اور خود پاکستانی حکومت کی بے حسی انتہائی افسوسناک ہے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ بھارتی حکومت کی نگرانی میں لکھی گئی جھوٹی اور زہرآلود کتابوں کے بجائے غیرجانبدار رائٹرز کی کتابیں پڑھیں۔ آپ سبھاش چندر بھوس کی بھتیجی شرمیلا بھوس کی کتاب "Dead Reckoning"ہی پڑھ لیں تو آپ پر 1971 کے حقائق واضح ہوجائیں گے۔

حکومت کی نگرانی میں لکھائی گئی کتابوں میں پاکستانی فوج کے مظالم کے واقعات کو کئی ہزار گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ مکتی باہنی کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ غیر جانبدار رائٹرز نے مکتی باہنی کے مظالم اور غیر بنگالیوں کی نسل کشی کے جو واقعات بیان کیے ہیں وہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں پروفیسر سلیم منصور خالد شاید واحد دانشور ہیں جو دنیا کو حسینہ واجد کے مظالم سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اسی مردِ درویش کی قیادت میں فوری طور پر ایک خیر سگالی وفد بنگلہ دیش بھیجے جو وہاں کے سیاستدانوں، دانشوروں، اساتذہ، طلباء، صحافیوں اور علماء سے مل کر اہل پاکستان کے جذبات ان تک پہنچائے۔

عزیز طلباوطالبات! آپ نے 1971میں جنرل یحییٰ اور اس کے ہوس پرست ٹولے سے نجات حاصل کی۔ ہم آپ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ توقّع بھی کرتے ہیںکہ1947میں حاصل کی گئی اپنی پہلی آزادی کو فراموش نہ کریں، اس جنگ کے نظریاتی اور سیاسی رہنما علامہ اقبال، محمد علی جناح، اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین تھے ، جو ہمارے مشترکہ ہیرو ہیںلہٰذا موجودہ آزادی آپ کی دوسری نہیں تیسری آزادی ہے۔

آخری گزارش یہ ہے کہ ہندوستان آپ کے انقلاب کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کرے گا، اس سے ہوشیار اور چوکس رہیں، ملک میں اسلامی تہذیب کا احیاء کریں اور مسلم کلچر کو فروغ دیں۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ عوام کو بہت اچھی گورننس دیں اور ہر سطح پر انصاف کو یقینی بنائیں۔ اچھی گورننس اور انصاف دینے سے آپ عوامی طاقت سے کبھی محروم نہیں ہوںگے۔ ہم پاکستان کے عوام کسی formal اتحاد کے خواہشمند نہیں ، ہماری صرف اتنی سی آرزو ہے کہ ڈھاکا سے آنے والی ہوائیں محبّت سے لبریز ہوں۔ ڈھاکا میں کانٹا چبھے تو اسلام آباد میںدرد محسوس ہو اور اسلام آبادکی تکلیف پر ڈھاکا میں تشویش کی لہر دوڑ جائے۔ ہم دل وجان سے آپ کی آزادی، ترقی اور خوشحالی کے لیے دعاگو ہیں۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں