مہنگی بجلی کا مستقل حل ضروری ہے

پاکستان میں بجلی کے نرخ اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ وہ عوام کی برداشت سے باہر ہوگئے ہیں


عثمان دموہی August 25, 2024

ملک میں بجلی، گیس اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کی حالت پتلی کردی ہے۔ تیل اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کو تو لوگ کسی طرح برداشت کر رہے ہیں مگر بجلی کے روز بڑھتے ہوئے نرخوں نے ہر شہری کو پریشان کردیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کے نرخ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں۔

ہماری حکومت کو یہ بات پتا ہے مگر وہ اس سلسلے میں خود کو مجبور قرار دیتی ہے اور مختلف تاویلات بیان کرتی ہے۔ کبھی بجلی کی چوری تو کبھی لائن لاسزکی بات کی جاتی ہے مگر اصل بات آئی پی پیزکے معاہدے ہیں۔ اب عوام حکومت سے پرزور مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف اس سلسلے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں اور انھوں نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ بہت جلد عوام کے لیے سستی بجلی کا بندوبست کریں گے۔ ظاہر ہے یہ بات کوئی آسان نہیں ہے۔

مہنگی بجلی سے کچھ ریلیف دینے کے لیے پنجاب حکومت نے فی الحال ایک اسکیم شروع کی ہے جس کے تحت صوبے کے عوام کو فی یونٹ14روپے کی چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سہولت صرف دو مہینے کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ پنجاب حکومت نے دوسرے صوبوں کی حکومتوں سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ بھی اپنے ہاں عوام کو ریلیف دینے کے لیے راستہ نکالیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ یہ کام جب پنجاب حکومت کر سکتی ہے تو دوسرے صوبے بھی کر سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ میں سے کفایت شعاری کر کے مہنگی بجلی سے پیسے ہوئے عوام کو ریلیف دیا ہے دوسرے صوبوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

حکومت سندھ نے اپنی اپوزیشن واضح کر دی ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتی، اسی طرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا حکومت سے بھی زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں پھر جہاں تک کے پی کا تعلق ہے وہاں ایک طرف تو بجلی کے بل ادا نہ کرنے کلچر پروان چڑھایا گیا ہے ، دوسرا وہاں وفاقی حکومت کی مخالف پی ٹی آئی برسر اقتدار ہے جو کسی طرح بھی پنجاب حکومت کی پیروی نہیں کرے گی۔

وہاں عوامی احتجاج بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف ہے۔ بجلی کے بلوں کے حوالے سے اتنی شدت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ وہاں بل ادا ہی نہیں کرتے۔ بلوچستان میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ وہاں بھی بلنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ پنجاب اور سندھ میں بل ادا کرنے کا کلچر موجود ہے اور یہاں کے عوام کی اکثریت بجلی کے بل ادا کرتی ہے۔ سندھ حکومت نے کہا کہ وہ اپنے عوام کو پنجاب جیسا ریلیف دے سکتی ہے مگر اس سلسلے میں وفاق کو اس کی مدد کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب نے اپنے عوام کو ریلیف دے کر دوسرے صوبوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔

پاکستان میں بجلی کے نرخ اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ وہ عوام کی برداشت سے باہر ہوگئے ہیں۔ اس وقت بجلی 70 روپے فی یونٹ تک پڑ رہی ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بہت جلد عوام کو سستی بجلی مہیا کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ دیکھیے یہ وعدہ کب پورا ہوتا ہے۔ اس وعدے کی تکمیل کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ وزیر توانائی اویس لغاری پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ آئی پی پیز کے معاملے کو حکومت نہیں چھیڑ سکتی کیونکہ ان کے معاہدوں میں رد و بدل ناممکن ہے۔ بہرحال اس وقت عوامی سطح پر آئی پی پیز کے خلاف ہر طرف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔

ادھر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف پنجاب میں بجلی کے نرخ کم کرنے اور وہ بھی صرف دو ماہ کے لیے یہ سہولت فراہم کرنے پرسخت اعتراض کیا گیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستانی صرف پنجاب میں ہی نہیں بستے ہیں بجلی کے نرخ پورے ملک میں یکساں کم کیے جائیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ بجلی کے نرخ کم کرنے کے لیے وفاقی حکومت تیزی سے کام کر رہی ہے تو پھر بیچ میں پنجاب حکومت کاصرف دو ماہ کے لیے بجلی کے نرخ میں کمی کرنے کا اعلان عجیب سا لگتا ہے۔

پنجاب اور وفاقی حکومت چونکہ دونوں ہی (ن) لیگ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے کہیں ایسا تو نہیں کہ بڑے صوبے کے عوام کو 14 روپے فی یونٹ کا لالی پاپ دے کر اور دیگر صوبوں کے عوام کو ان کی حکومت سے الجھا کر معاملے کو دو مہینے کی طوالت کے بعدٹھنڈا کرنا مقصود ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت وفاقی حکومت بجلی کے معاملے میں بری طرح پھنس چکی ہے یا تو وہ اتنے طاقتور ہیں کہ حکومت کوہلا سکتے ہیں یا پھر ان میں حکومت سے قربت رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ لگتاہے پنجاب حکومت نے وفاق کی مشکل کا حل یہ نکالا ہے کہ وہ اگر 14 روپے فی یونٹ ریلیف دے کر عوام کو خوش کرسکتی ہے تو وفاق18 روپے فی یونٹ سہولت فراہم کرکے معاملے کو نمٹا سکتا ہے مگر اب معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اب تو پورے پاکستان کے عوام بجلی کے نرخ کم کرائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں