طاہر القادری پاکستان کیوں آئے ہیں

یہ آج کی پاکستانی تاریخ کا اہم سوال ہے۔ ڈاکٹر طاہر نے جنوری تیرہ کی سرد فضاؤں میں پاکستان کا سفر کیوں کیا؟


[email protected]

یہ آج کی پاکستانی تاریخ کا اہم سوال ہے۔ ڈاکٹر طاہر نے جنوری تیرہ کی سرد فضاؤں میں پاکستان کا سفر کیوں کیا؟ وہ جون چودہ کی آگ برساتی گرمی میں وطن عزیز میں کیوں کر آئے؟ اب تک کے جائزوں میں شاید ہی اس سوال کا جواب دیا گیا ہو۔ یہ تو شاید کسی نے نہ کہا ہو کہ ڈاکٹر قادری کا سفر پاکستان عمران خان کے سبب ہے۔ اس بات پر علامہ کے چاہنے والے حیران رہ گئے ہوں گے۔ کپتان کو پسند کرنے والوں کو بھی حیرت ہوگئی ہوگی۔ نواز شریف کے ماننے والوں کے لیے اس سوال کے جواب میں طنزیہ مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اگر اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ واقعی ڈاکٹر طاہر کا کینیڈا سے پاکستان کی جانب آنا عمران خان کے سبب تھا؟ اس سوال کے جواب میں سب سے زیادہ فائدہ نواز حکومت کا ہے۔ انھیں علامہ اور کپتان سے معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی اگر وہ اس گتھی کو سلجھا لیں۔

عمران خان انتخابی سیاست کے شہسوار ہیں۔ وہ بیلٹ کی طاقت سے بہتری کی بات کرتے ہیں۔ طاہرالقادری انقلابی سیاست کے گھوڑے پر بیٹھ کر گلے سڑے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان کچھ قربت ہے تو کچھ فاصلہ بھی۔ عمران نے نہ سرد فضاؤں میں کنٹینر میں جاکر اسلام آباد دھرنے کا ساتھ دیا اور نہ گرم موسم میں طیارے کو وفاقی سے صوبائی دارالخلافے موڑنے پر لاہور ایئرپورٹ گئے۔ پھر کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ علامہ کی پاکستان آمد کپتان کے سبب ہوئی ہے؟ اس پورے عمل کو سمجھنے میں سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف کا کیوں کر ہو سکتا ہے؟ ہے نا اب تک نہ سمجھ میں آنے والی باتیں۔ یہ باتیں ایسے مرحلے پر کی جا رہی ہیں جب جذبات کی گرد بیٹھ چکی ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ لوہا اس وقت گرم ہے اس لیے چوٹ لگا ہی دینی چاہیے۔

نواز شریف کے سامنے اس وقت ایک طرف عمران کا اسلام آباد کی جانب مارچ کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف طاہر القادری کا خطرہ کہ وہ نہ جانے کس وقت کیا کر بیٹھیں۔ وہ اس وقت دوراہے پر کھڑے ہیں۔ نواز حکومت ان دو راستوں میں سے کس کا انتخاب کرتی ہے؟ مسلم لیگ (ن) عمران اور قادری سے نمٹنے کی کوئی عمدہ تاریخ نہیں رکھتی۔ 1997 میں ایک کونسلر کی نشست نہ جیت سکنے والی تحریک انصاف سے معاملات طے کرنے میں کمزور اعصاب کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے جس دانش مندی سے طاہر القادری سے معاملات طے کیے تھے جب کہ لگتا تھا کہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور ان کے ساتھی تذبذب کا شکار ہو گئے۔ 17 جون کو منہاج القرآن کے دفتر پر حملے کرنے والے اسے کوئی غیر ملکی ادارہ سمجھ رہے تھے؟ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران اپنے سیاسی مخالفین کی نفسیات سمجھیں۔

''دیو کی جان طوطے میں ہوتی ہے'' والی کہانی ممکن ہے جھوٹی ہو لیکن کیا اسے سچ مانا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست کی جان عمران خان میں ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں 2002 میں جانا ہوگا۔ اس اسمبلی کے ڈاکٹر اور کپتان ممبران ہوتے ہیں۔ یہیں سے دونوں کی مشترکہ کہانی شروع ہوتی ہے۔ جب نواز شریف کو دونوں سے واسطہ پڑنا ہے۔ جب تینوں کی سیاست کا محور لاہور اور پنجاب ہے تو میاں برادران کو ضرور سمجھنا چاہیے کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سے نفسیاتی طور پر کیوں مرعوب ہیں؟ ممکن ہے اس بات سے نواز شریف کے چاہنے والے اتفاق نہ کریں۔

نئی صدی کی پہلی اسمبلی میں اپنے پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے دونوں اکلوتے ممبر تھے۔ پنجاب اور پنجابیوں کے دل میں بسا دونوں کا ٹارگٹ تھے۔ باصلاحیت اور کرشماتی شخصیات ہونے کے علاوہ علامہ اور عمران اپنے اپنے میدان کے شہسوار تھے۔ دونوں کے چاہنے والے بے شمار تھے لیکن ملنے والے ووٹوں کا شمار انگلی پر کیا جاسکتا تھا۔ اسی لیے اقتدار کی دیوی دونوں سے کوسوں دور تھی۔ ایسے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ادھورے رستے میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ کینیڈا چلے گئے کہ علمی و تحقیقاتی کام کریں گے۔ اب تک کی گفتگو سے کیسے ثابت ہوتا ہے کہ علامہ کی پاکستان آمد کا سبب عمران خان ہیں؟ نئی صدی کا ابتدائی عشرہ کیا کہتا ہے؟ یہ ہماری بات سچ ثابت کرے گا؟

جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی اہم واقعہ ثابت ہوتا ہے۔ عمران اس تحریک کے سرکردہ رہنما بن کر سامنے آتے ہیں۔ عدلیہ کی بحالی نہ ہونے پر عمران 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیتے ہیں۔ اب پیپلزپارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں تھی۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے پاکستان کے کردار کو ''دی اینڈ'' سمجھا اور علامہ تو تھے ہی کینیڈا کی سرد فضاؤں میں۔ 1990 والی سیاست یعنی ''ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے تم ہمیں نہ چھوڑنا'' کو غلطی سمجھا گیا۔ آئندہ کسی فوجی یا سیاسی بحران سے بچنے کے لیے دونوں بڑی پارٹیوں نے مفاہمت کی سیاست شروع کی۔ نئی صدی میں ''نہ تم ہمیں چھیڑو اور نہ ہم تمہیں چھیڑیں'' ایک کامیاب نسخہ ثابت ہوا۔ باریاں طے ہوگئیں کہ مستقبل میں نہ کوئی خان خطرے کا باعث بنے اور نہ کسی قادری کے قہر کا سامنا کرنا پڑے۔

آٹھ نو دس خیریت سے گزرے تھے کہ گیارہ کے دسویں مہینے میں لاہور کے مینار پاکستان پر عمران نے لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرلیا۔ کپتان کو نواز شریف کے علاوہ علامہ نے غور سے دیکھا۔ ایک نے خطرہ محسوس کیا تو دوسرے نے ہاتھ ملے۔ دس سال قبل کی اسمبلی میں ایک مقام پر کھڑے ہوئے لوگوں میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہوگیا تھا۔ علامہ نے محسوس کیا کہ عمران نے سیاست کے ساتھ ساتھ ایک کینسر اسپتال چلایا اور دوسرے کی بنیاد رکھی، نمل یونیورسٹی قائم کی، کرکٹ کمنٹریاں کیں، پارٹی منظم کی اور بچوں سے ملنے لندن بھی جاتے رہے۔

انھوں نے اپنے کسی کام کی خاطر نہ ملک چھوڑا اور نہ سیاست۔ ڈاکٹر قادری پاکستان میں رہ کر اپنے تمام کاموں کے ساتھ سیاست بھی کرسکتے تھے۔ عمران کی مقبولیت نے ہی ڈاکٹر قادری کے اندر کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا کیا۔ اب بات کچھ واضح ہو رہی ہے کہ علامہ اگر پاکستان آئے ہیں تو اس کا اہم سبب عمران ہیں۔ 75 لاکھ ووٹ، ایک صوبے میں حکومت اور پرائم منسٹر ان ویٹنگ کا ٹائٹل۔

کپتان انتخابی سیاست کے شہسوار ہیں تو قادری نے انقلاب کا راستہ چنا ہے۔ بیلٹ کے ذریعے اتفاق تو بلٹ کے ذریعے انتشار جنم لیتا ہے۔ ایک عشرے سے قومی سیاست سے دور ڈاکٹر قادری کی مبہم لیکن خطرناک باتیں کیا عمران کی کامیابیوں کا ردعمل ہیں؟ سیاست ہو یا کرکٹ، شطرنج ہو یا میدان جنگ، مخالف کی نفسیات سمجھ کر آدھی جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ کیا نواز شریف واقعی دوراہے پر کھڑے ہیں؟ ان کے سامنے عمران اور علامہ کے راستے ہیں۔ پہلے انتخابی دھاندلیوں کا کھوج اور پھر قانون سازی ہوئی تو عوام کا غصہ پرچی کے ذریعے نکل جائے گا۔ یہ عمران کا راستہ ہے۔ آنے والے مہینوں میں یہ نہ ہو اتو دوسرا راستہ برچھی کا راستہ ہے۔ عوام مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور ناانصافی سے تنگ ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا نے اعلیٰ طبقے کی کوٹھیوں اور گاڑیوں کے جلوے عوام کو دکھا دیے ہیں۔ اگر لاوا پھٹ گیا تو کوئی بھی طاہر القادری غریبوں کو جگا کر امرا کے محلات کے در و دیوار کو ہلا دے گا۔ عمران بہتر انتخابی نظام کا پھول لیے اور قادری انقلاب کا ہتھوڑا لیے نظام کے بت کو پاش پاش کرنے کے لیے پاکستانیوں کے سامنے ہیں۔ نواز شریف کس جانب بڑھتے ہیں؟ یہ تاریخ کا اہم سوال ہے۔ پاکستان کا تجربہ کار سیاستدان یہ فیصلہ اس وقت کرسکتا ہے جب وہ یہ جانے کہ نعرہ کیا لگ رہا ہے۔ ''کون بدلے گا نظام۔ طاہر القادری اور عوام''۔ علامہ اور عوام میں تلخی ہے۔ دونوں تلخیاں باہم مل گئیں تو دھماکے سے نظام پاش پاش ہوجائے گا۔ وزیر اعظم کو سمجھنا چاہے کہ پاکستانیوں کی سوچ کیا ہے۔ انھیں سمجھنا ہوگا کہ طاہر القادری پاکستان کیوں آئے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں