سٹڈی دی نوبل قرآن

قرآن مجید کے انگریزی تراجم میں ایک شاہکار اضافہ


فوٹو : فائل

قرآن مجید فرقان حمید ۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کی کتاب ہے۔اس کا پڑھنا باعث ِ ثواب اور اس پر عمل کرنا باعث ِ نجات ہے۔ دنیا کی ہر کتاب کی ایک عمر ہوتی ہے پھرایک وقت آتا ہے وہ کتاب معدوم ہو جاتی ہے اور اس کے پڑھنے والے بھی ختم ہو جاتے ہیں لیکن قرآن مجید ہمیشہ رہنے والی زندہ کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہر نماز میں بھی پڑھتے ہیں انفرادی طور پر بھی تلاوت کرتے ہیں اور ہر سال رمضان کے مہینہ میں تراویح کی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں ۔

قرآن مجید کے اولین مخاطب عرب تھے اس لیے اللہ نے یہ کتاب فصیح عربی میں نازل کی ہے۔ جس طرح اللہ تمام جہانوں کا رب ہے ، رسول مقبول ﷺ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں اسی طرح قرآن مجید دنیا کی تمام اقوام کے لیے کتاب ِ ہدایت ہے ۔ جب اسلام کی دعوت خطہِ عرب سے نکل کر دیگر اقوام میں پھیلنے لگی اور غیر عرب حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو قرآن مجید کے دیگر زبانوں میں تراجم کی ضرورت محسوس کی جا نے لگی ۔ اس لئے کہ جب قاری آیت کے ہر لفظ کے معانی جانتا ہو، پھر خواہ وہ اکیلا قرآن پڑھ رہا ہو یا کسی دوسرے کی تلاوت سن رہا ہو تو اسے سمجھنے میں لطف آتا ہے۔ قرآن کا اصل معجزہ اسی وقت عیاں ہوتا ہے جب اسے سوچ سمجھ کر پڑھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نزول کے وقت سے لے کر مسلسل قرآن مجید کے تراجم اور قرآنی علوم ومعارف پر کام ہو رہا ہے۔

تاریخی طور پر یہ سوال بہت دلچسپ اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ سب سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ کس زبان میں کیا گیا۔۔۔۔۔۔؟ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا تاہم یہ بات طے ہے کہ قرآن مجید کے دیگر زبانوں میں کئے گئے اولین تراجم کی حتمی تواریخ کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے اس لئے کہ اس کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں تاہم دستیاب معلومات کی روشنی میں ہم کچھ معلومات قارئین کے گوش گزار کرنا چاہیں گے۔۔۔۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی جو کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں شعبہ عربی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیںاور ان کی شخصیت علمی وادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں۔ انھوں نے ''ترجمات معانی القرآن الی ا نجلیزیہ '' کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ یہ کتاب دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے 2009 ء میں سعودی عرب کے معروف اشاعتی ادارہ '' مکتبہ التوبہ '' نے شائع کیا تھا ۔ وہ اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھتے ہیں : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پہلے فرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سورۃ فاتحہ کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ ڈاکٹر اورنگ زیب مزید لکھتے ہیں '' قرآن مجید کا مکمل ترجمہ 345 ہجری میں منصور بن نوح السامانی کے حکم سے علما کی ایک جماعت نے فارسی زبان میں کیا اور یہ تفسیر ابن جریر طبری کا ترجمہ تھا۔

قرآن مجید کا دوسرا ترجمہ 1143ء میں لاطینی زبان میں کیا گیا ۔ یہ ترجمہ مطبع کی ایجاد کے بعد بمقام '' باسل '' (سوئٹزر لینڈ کا ایک قدیمی شہر ) سے چھپ کر شائع ہوا ۔ یہ ترجمہ غلطیوں اور غلط فہمیوں سے بھرا ہوا اور متعصبانہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ سیارہ ڈائجسٹ کے خصوصی ایڈیشن بنام '' قرآن کریم کے تراجم مغربی اور مشرقی زبانوں میں '' مضمون نگار عبداللہ منہاس لکھتے ہیں '' قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں پہلا ترجمہ 1679ء میں آندرے ڈورائر نے کیا۔آندرے ڈورائر مصر کی فرانسیسی کونسل کا رکن تھا، عربی اور ترکی پر خاصہ عبور رکھتا تھا یہ ترجمہ پیرس سے شائع ہوا۔ برصغیر میں قرآن مجید کا سب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا جو کہ ابومعشر نجیح بن عبدالرحمن (م 172ہجری ) نے کیا ۔

اب ہم اصل موضوع، قرآن مجید کے انگریزی تراجم کی طرف آتے ہیں ۔ انگریزی زبان میں جن حضرات نے قرآن مجید کے تراجم کئے انھیں دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

1۔ مستشرقین کے انگریزی تراجم قرآن

2۔ مسلمانوں کے انگریزی تراجم قرآن

قرآن مجید کے تمام اولین انگریزی تراجم غیر مسلم اور عیسائی مبلیغین نے کئے ہیں۔ وجہ یہ رہی کہ عیسائیت کو اسلام کی صورت میں ایک مضبوط قوت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے سامنے عیسائیت ، پاپائیت اور ان کی مضبوط ترین سلطنتیں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئی تھیں لہذا فطری طور وہ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جبکہ اسلام کی تعلیمات کا منبع قرآن مجید فرقان حمید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قرآن مجید کے تراجم کئے، تاہم زیادہ تر عیسائی مبلغین اور مستشرقین نے یہ کام قرآن فہمی کی غرض سے نہیں بلکہ اسلام اور قرآن مجید کے بارے میں غلط تاثر دینے اور غلط فہمیاں پھیلانے کے لیے کیا۔انیسویں صدی تک اس میدان میں غیر مسلموں کی اجارہ داری رہی ہے، البتہ بیسویں صدی کی ابتدا میں مسلمانوں نے قرآن مجید کے تراجم شروع کیے۔

دستیاب معلومات کے مطابق قرآن مجید کا پہلاانگریزی ترجمہ انگلینڈ کے بادشاہ چارلس اول کے درباری الیگزینڈر راس نے 1649ء میں کیا تھا۔ الیگزینڈر راس عربی زبان سے نابلد تھا ، لہذا اس نے آندرے ڈو رائر کے فرانسیسی میں ترجمہ کیے گئے نسخے سے قرآن کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا ۔پہلی دفعہ یہ ترجمہ قرآن لندن سے شائع ہوا ،اس کا دوسرا ایڈیشن 1688ء میں اور تیسرا ایڈیشن 1806ء میں امریکہ سے شائع ہوا ۔ اب یہ ترجمہ قرآن ناپید ہے۔

الیگنڈرراس ایک متعصب عیسائی تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کے ترجمہ کیے گئے قرآن مجید کے ایک ایک صفحے سے تعصب کی بو آتی ہے ۔ راس کے خیال میں اسلام الگ سے کوئی مذہب نہیں بلکہ عیسائیت کا مسخ شدہ چربہ ہے اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے پیغمبر نہیں بلکہ ایک طالع آزما اور مہم جو تھے جن کا مقصد حیات نعوذ با للہ محض اقتدار کا حصول تھا۔

اس سے اگلا انگریزی ترجمہ جارج سیل ( Georage Sale)نے 1734ء میں کیا ۔ جارج نے 1697ء میں لندن کے ایک تاجر کے گھر جنم لیا، 1724ء میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ قانون کی تعلیم حاصل کی اور عربی زبان و ادب پر بھی دسترس حاصل کی ۔ جارج کا تعلق ایک عیسائی تبلیغی تحریک سے تھا۔ اس نے بھی اپنے ترجمہ ِ ِ قرآن کو اسلام اور قرآن کے خلاف زہر افشانی کے لیے وسیلہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔

ان کے بعد دیگر مستشرقین جن کے انگریزی تراجم مشہور ہوئے، درج ذیل ہیں

جے ایم راڈویل 1861ء ، ای ایچ پالمر 1880ء ، رچرڈ بیل1937ء ، اے جے آربری 1955ء ، این جے داؤد 1956ء

ان کے علاوہ بھی کچھ دیگر مستشرقین نے قرآن مجید کے انگریزی تراجم کیے ہیں۔

قرآن مجید کے انگریزی تراجم کی خدمات میں ہندوستانی علما کا بھی بڑا کردار ہے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی نے 1905ء میں کیا ۔ عبدالحکیم قادیانی تھے اگرچہ وہ بعد میں قادیانیت سے تائب ہو گئے تھے، تاہم قرآن کا انگریزی میں ترجمہ انھوں نے دور قادیانیت میں ہی کیا تھا اس لیے یہ ترجمہ لائق مطالعہ ہرگز نہیں ہے۔

قرآن مجید کا وہ معروف ترجمہ جسے شہرت دوام حاصل ہوئی، اس کا سہرا ریاست حیدر آباد دکن کے فرمانروا میر عثمان علی خان کی سرپرستی میں مارما ڈیوک پکتھال کو جاتا ہے۔ پکتھال ایک صاحب علم ِ اور ذی وقار انسان تھے۔ انھوں نے انگلستان اور یورپ کے دیگر ممالک میں تعلیم حاصل کی۔ انگریزی، جرمن، فرانسیسی اطالوی اور ہسپانوی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی ممالک عربوں، ترکوں اور مصریوں کی صحبت میں گزارا، وہ عربی میں بھی بہت اچھی دسترس رکھتے تھے۔ ان ملکوں کی سیاحت اور قیام کے دوران وہ 1914ء میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ جنوری 1925ء میں نواب حیدرآباد دکن کے ہاں چادر گھاٹ ہائی سکول میں بطور پرنسپل ملازمت شروع کی۔ اس دوران میں وہ اپنے طور پر قرآن مجید کے ترجمے کا کام شروع کر چکے تھے۔ ترجمے کے کام کو مکمل فرصت اور یکسوئی کے ساتھ انجام دینے کے لئے انھیں پوری تنخواہ کے ساتھ دو سال کی رخصت دی گئی۔ پکتھال ترجمہ مکمل ہونے پر مصر گیے وہاں انھوں نے جامعہ ازہر کے اساتذہ اور دیگر علماء سے اپنے ترجمے کے بارے میں مشاورت لی اور قرآن مجید کے مشکل مقامات پر بحث مباحثہ کیا جس کی روشنی میں انھوں نے اپنے ترجمے پر کہیں کہیں نظر ثانی بھی کی۔ قرآن پاک کا یہ ترجمہ 1930ء میں

Glorious Koran Meanings Of Theکے نام سے بیک وقت لندن اور نیویارک سے شائع ہوا۔ اسے گورنمنٹ سنٹرل پریس حیدرآباد سے بھی دو جلدوں میں شائع کیا گیا ۔ اس ترجمے کے اب تک بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے اور ہو رہے ہیں۔

قرآن مجید کے انگریزی مترجمین کی فہرست میں علامہ عبد اللہ یوسف علی کا نام بھی شامل ہے۔ علامہ عبداللہ یوسف علی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور برطانوی ہند کے دور میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے ان کا سب سے اہم کارنامہ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر ہے جو 1934 میں شائع ہوا ۔ تاہم علماء نے علامہ عبداللہ یوسف علی کے ترجمہ قرآن میں بہت سی اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔

جہاں قرآن مجید کے انگریزی تراجم کی سعادت مردوں کو حاصل ہوئی، وہاں اللہ نے یہ سعادت خواتین کو بھی بخشی ہے۔ پانچ سے زائد مکمل تراجم و تفاسیر ایسی ہیں جن کی تکمیل کی سعادت خواتین کو حاصل ہوئی ہے۔

قرآن مجید کے آج تک جتنے بھی تراجم ہوئے وہ سب بامحاورہ اور تحت اللفظ ہیں جو عموماََ دورنگوں میں ہیں ۔ یہ تراجم اس پہلو سے مرتب نہیں کیے گئے کہ قاری ہر عربی لفظ کے معنی کو سمجھ سکے، اس لیے تلاوت کرنے یا ترجمہ پڑھنے والے آیات میں استعمال شدہ عربی الفاظ کا فہم حاصل کیے بغیر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے قرآن مجیدکے حروف کے معانی کو الگ الگ سے سمجھنا ممکن نہیں ہوتا جبکہ قرآن مجید کے متن کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قاری آیات کے ہر لفظ کے معنی کو اپنی زبان میں جانتا ہو کیونکہ جب تک اسے قرآنی الفاظ کے معانی کا علم نہ ہو ، اس کے لیے قرآن کا اصل مفہوم ومدعا جاننا محال ہے۔ انگریزی دانوں کی اس مشکل کے پیش نظر دارالسلام انٹرنیشنل نے '' فور کلر سٹڈی دی نوبل قرآن '' کے نام سے مترجم قرآن مجید شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے جبکہ اس کے ترجمہ وتفسیر کی سعادت جید عالم دین ڈاکٹر تقی الدین ہلالی اور ڈاکٹر محسن خان نے انجام دی ہے ۔ انگریزی ترجمہ کو سمجھنے کیلئے '' فور کلر سٹڈی دی نوبل قرآن '' میں ایسی خصوصیات ہیں جو کسی دوسرے قرآن مجید میں نہیں ہیں ۔ مثلاََ

'' سٹڈی دی نوبل قرآن ''میں ڈبوں کے اندر لفظ بہ لفظ ترجمے کے ساتھ حاشیے میں آیات کے نمبر دے کر ان کا بامحاورہ ترجمہ بھی دیا گیا ہے ۔ اس سے قاری عربی الفاظ کے لغوی معنی جاننے کے ساتھ ساتھ آیات کا مجموعی فہم بھی حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور آیات کا مفہوم و منشا اس کے ذہن میں واضح اور تلاوت کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے ۔سٹڈی دی نوبل قرآن اس لحاظ سے منفرد اور متماز ہے کہ اس میں آیات کا لفظ بہ لفظ کلر کوڈڈ Colour Coded ترجمہ شامل ہے ۔ یعنی ڈبے کے اندر عربی لفظ جس رنگ میں ہے نیچے ڈبے میں اس کا مترادف بھی اسی رنگ میں ہے ۔ اس کی یہ خصوصیت بھی منفرد ہے کہ اسم ذات اللہ اور تمام اسمائے الٰہی دیگر اسما ء ، ضمائر ، افعال ، حروف جار اور حروف عطف کا فرق چاررنگوں سے واضح کیا گیا ہے ۔ عربی الفاظ اور جملوںکے مرادی معنی واضح کرنے کے لیے ترجمے کے وہ الفاظ قوسین (brackets) میں دیے گئے ہیں جو عربی میں واضح طور پر نہیں ہیں مگر عربی جملے کی ساخت میں ان کا مفہوم شامل ہے ۔ ان الفاظ کا رنگ مدھم رکھا گیا ہے ۔ '' سٹڈی دی نوبل قرآن '' کی کلر سکیم درج ذیل ہے :

سبز رنگ ۔۔۔۔یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات اور ان کے ترجمے کیلئے مخصوص ہے ۔، سیاہ رنگ ۔۔۔۔یہ عام اسماء اور اسمائے ضمیر( Pronouns)کیلئے استعمال کیا گیا ہے ۔، سرخ رنگ ۔۔۔یہ افعال کو ظاہر کرتا ہے ۔، آسمانی رنگ ۔۔۔اس میں حروفِ جار (Prepositions) اور حروف عطف ( Conjunctions) نمایاں کیے گئے ہیں ۔ ، زرد رنگ ۔۔۔۔آیات کے عددی دائروں کا رنگ زرد رکھا گیا ہے ۔، نارنجی رنگ ۔۔۔حاشیے کے بامحاورہ ترجمے میں آیات کے نمبر نارنجی رنگ میں دیے گئے ہیں ۔

وہ الفاظ خطوط وحدانی [ ]میں دیے گیے ہیں جو عربی جملے کی ساخت میں لازماََ شامل ہیں مگر انگریزی جملے کی ساخت میں شامل نہیں ہیں ۔ اس کی مثال نوبل قرآن کی اس آیت میں واضح ہے:

مٰلِکِ

یَوْمِ

الدِّیْنِ

the Owner

(of the) Day

(of) the Resurrection

نوبل قرآن کا رنگوں اور ڈبوں میں یہ ترجمہ قارئین کو قرآن کا عربی متن براہ راست سمجھنے کے قابل بناتا ہے اور اس کی لے آؤٹ ( ترتیب ) اس طرز کی بنائی گئی ہے کہ اسے باقاعدہ تلاوت کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے مستقل دہرائی کی سہولت میسر آتی ہے۔ ان تمام خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جو شخص بھی '' سٹڈی دی نوبل قرآن '' کو پڑھے گا تو وہ بے اختیار پکار اٹھے گا کہ جب سے قرآن مجید کے انگریزی تراجم کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے اب تک اس جیسا عام فہم ، ہمہ پہلو اور سائینٹیفک ترجمہ شائع نہیں کیا گیا۔ انگریزی زبان میں قرآن مجید کے مطالعہ کا ذوق رکھنے والے یا ایسے مسلمان بہن بھائی جن کے بچے بچیاں یورپ میں مقیم ہیں ان کے مطالعہ کیلئے '' سٹڈی دی نوبل قرآن'' لاجواب اور بے مثال تحفہ ہے جس سے وہ استفادہ کر کے نہایت آسانی سے قرآن مجید کے ترجمہ کو سمجھ سکتے اور اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں ۔ نفیس ، پائیدار ، جاذب نظر ،60گرام امپو رٹڈ پیپر پر طبع شدہ ، نذر نواز ، 4کلر، مضبوط جلد سے آراستہ یہ قرآن مجید معنوی حسن کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن سے بھی مزین ہے ۔ یہ قرآن مجید ایک جلد میں اور تین جلدوں میں بھی دستیاب ہے جو کہ دنیا بھر میں دارالسلام کی برانچوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں