کوچۂ سخن

وہ پوچھتا ہے جہاں میں کیا تھا خدا سے پہلے<br /> کہ سانس لینے کو اور کچھ تھا؟ ہوا سے پہلے


Arif Aziz August 18, 2024
فوٹو: فائل

غزل
وہ پوچھتا ہے جہاں میں کیا تھا خدا سے پہلے
کہ سانس لینے کو اور کچھ تھا؟ ہوا سے پہلے
ہم ایسے لوگوں کی زندگانی بھی کیا عجب ہے
فنا کے بارے میں سوچتے ہیں بقا سے پہلے
تُو چاہتا ہے مراد پوری اگر ہو تیری
تو آنسوؤں کا وضو ہے لازم دعا سے پہلے
مثالِ صحرا جھلس رہا ہے بدن ہمارا
کوئی تو سانسوں کا لمس بھیجے گھٹا سے پہلے
حجاب چہرے کو ڈھانپ لینا ہی تو نہیں ہے
حیا نظر کی بھی ہے ضروری ردا سے پہلے
کبھی وہ مجھ کو پکارنے کا گمان کرتا
میں اُس کی جانب پلٹ کے جاتا صدا سے پہلے
غرور توڑا ہے تیرگی کا دیے نے ارشدؔ
سیاہ شب کا تھا رقص ہر سُو ضیاسے پہلے
(ارشد محمود ارشد۔ سرگودھا)


۔۔۔
غزل
ہاتھ اٹھے خدا اداسی کا
کارخانہ بنا اداسی کا
سانس تھمنے لگے ہیں اب میرے
حل بتا دوستا اداسی کا
اشک رنگین ہو نہ پائے مرے
فائدہ کیا ہوا اداسی کا
خال و خد نہ تباہ کر اپنے
ڈھونڈ لے حل نیا اداسی کا
مجھ سے پیاسے کو آخرش لوگو
گھونٹ بھرنا پڑا اداسی کا
تیرے جانے سے میری نسلوں میں
چل پڑا سلسلہ اداسی کا
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
دل شکستہ و پریشان کہاں سوتے ہیں
ٹوٹے خوابوں کے نگہبان کہاں سوتے ہیں
ایک سے ایک نئی فکر کا در کھلتا ہے
ہم تری یاد سے حیران کہاں سوتے ہیں
کرچیاں خواب کی، حسرت کے شکستہ کوزے
کہاں رکھتے ہیں یہ سامان، کہاں سوتے ہیں
تنگیٔ جا ہو جہاں گھر کے مکینوں کے لیے
گھر میں آئے ہوئے مہمان کہاں سوتے ہیں
ٹیک دیوار سے لگتی ہے نہ سر تکیے پر
ہم ترے سوختہ سامان کہاں سوتے ہیں
رات ہو دشت ہو پُر ہول مسافت ہو صدفؔ
لوگ اس خوف کے دوران کہاں سوتے ہیں
(صدف رباب۔ ننکانہ صاحب)


۔۔۔
غزل
نگاہِ یار کے منتر نہیں سمجھتا تھا
میں اس کی بات کو فرفر نہیں سمجھتا تھا
تمام وقت گزرتا تھا ساحلوں سے پرے
ہمارے بھید سمندر نہیں سمجھتا تھا
ترے وجود سے دنیا سنور چکی تھی مری
تجھے میں صرف مقدر نہیں سمجھتا تھا
بہت یقیں تھا مجھے زندگی کے بارے میں
مگر میں آپ سے بہتر نہیں سمجھتا تھا
کئی چراغ مرے آس پاس تھے لیکن
کسی دیے کو بھی کمتر نہیں سمجھتا تھا
کیا خود اس کے رویے نے منکشف مجھ پر
میں اولاً اسے پتھر نہیں سمجھتا تھا
(مستحسن جامی ۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
کچھ دردگھٹانے سے گھٹائے نہیں جاتے
سورج کبھی پھونکوں سے بجھائے نہیں جاتے
ہم نے تو محبت میں بھی وہ خواب ہیں دیکھے
جو خواب بتانے سے بتائے نہیں جاتے
اے موت! تری خیر کہ وہ آئے ہوئے ہیں
جو لوگ بلانے سے بلائے نہیں جاتے
کچھ رشتے تو رستے میں بھی ہو جاتے ہیں قائم
کچھ ربط بنانے سے بنائے نہیں جاتے
میں شعر سنادوں بھی تو سمجھو گے نہ مفہوم
سب زخم دکھانے سے دکھائے نہیں جاتے
اک بار نگاہوں سے جو گِر جائیں وہ سانولؔ
پھر لاکھ اٹھانے سے اٹھائے نہیں جاتے
(عمران اختر سانول۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
راستہ پوچھنے والے کو سفر سے پہلے
چھوڑ آئے ہو کہاں راہ گزر سے پہلے
لاش پہچان میں جب آ نہ سکی تب سوچا
جنگ کس شکل میں تھی نقد و نظر سے پہلے
یہ الگ بات کبھی ذکر نہیں کرتا مگر
میرے رستے میں کئی خیمے تھے گھر سے پہلے
یہ دباؤ مرا ہم عصر نہیں جو مجھ میں
گھلنے آ جاتا ہے مرہم کے اثر سے پہلے
حرف قائم ہوا آواز کی بنیادوں پر
لحن شائستہ نہ تھا زیر و زبر سے پہلے
وقت پر کیسی کڑی آن پڑی ہے کہ زمان
لوگ تسلیم ہوئے اپنے ہنر سے پہلے
(دانیال زمان۔ خوشاب)


۔۔۔
غزل
بدن چنے ہیں سزاؤں پہ آنکھ رکھی ہے
خدا نے سارے خداؤں پہ آنکھ رکھی ہے
بنیں گے بازو یہی بادباں سمندر میں
سو کشتیوں نے ہواؤں پہ آنکھ رکھی ہے
کوئی ہے تنگ لباسوں کے جال میں الجھا
کسی نے خواجہ سراؤں پہ آنکھ رکھی ہے
میں شرمسار ہوں اپنے ضمیر کے آگے
مرے جنوں نے بلاؤں پہ آنکھ رکھی ہے
میں بند مٹھی کو کھولوں گا دیکھنا اک دن
کہ جاگتا ہوں خلاؤں پہ آنکھ رکھی ہے
مجھے خوشی بھی ہے صابر مگر یہ حیرت بھی
کسی نے میری وفاؤں پہ آنکھ رکھی ہے
(صابر چودھری۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل
جنگ میں تو جو روبرو نہیں ہے
مجھ کو اندیشۂ عدو نہیں ہے
کیوں مرا حال پوچھتے ہیں آپ
کیا مری آنکھ میں لہو نہیں ہے؟
مجھ سے آئینہ بحث کرنے لگا
جو کوئی بھی ہو پر یہ تو نہیں ہے
تو مری زندگی ہے اور مجھے
اب تری کوئی جستجو نہیں ہے
ایک مزدور کا پسینہ ہے
اس میں خوشبو ہے تیری بو نہیں ہے
دو جہاں میں ترا شریک نہیں
اور اس میں ذرا غلو نہیں ہے
امن کی خاطر اجتماع ہے اور
وہی موضوع گفتگو نہیں ہے
بوجھ مجبوریوں کا باندھا ہے
میرے پاؤں میں گھنگھرو نہیں ہے
حکم ہجراں تسلی سے کیجے
اس میں پھر کوئی ریویو نہیں ہے
درد ترتیل کر رہا ہوں میں
میرے گریے میں ہاؤہو نہیں ہے
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
کہیں درخت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
میں تیرا بخت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
وہ خالی ہاتھ ہی ویرانے کو چلا اور میں
سفر کا رخت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
میں ایک عمر ترے ہجر کو پہنتا رہا
اب اتنا سخت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
کہاں کہاں کہ دلاسوں نے دل پہ وار کیے
یہ لخت لخت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
وہ ایک میز جسے ماں نے خود بنایا تھا
مجھے وہ تخت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
زمانے بھر کی محبت سمیٹ کر بھی کیفؔ
وہ یوں کرخت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
(احمد علی کیف ۔لاہور)


۔۔۔
غزل
گیاجل کی لہر اُٹھائے ہوئے جہازوں میں
عجیب حبس تھا آئے ہوئے جہازوں میں
عدم، وجود پگھل کر سبھی برابر ہے
کرن کی لَو سے چلائے ہوئے جہازوں میں
ہر ایک چیز مسلسل مگن ہے موشن میں
جمود توڑ کے آئے ہوئے جہازوں میں
شعورِ سمت ہے پرواز کا سلیقہ بھی
حویلیوں میں بنائے ہوئے جہازوں میں
نظامِ زندگی کی مختلف کلوننگ تھی
بلیک ہول سے آئے ہوئے جہازوں میں
زمینی مسئلوں سے بے خبر سوار ہوئے
ہم اپنے ہاتھ اُٹھائے ہوئے جہازوں میں
بس اتنا حکم تھا ہم نے اناج بھرنا ہے
فلک کی سمت سے آئے ہوئے جہازوں میں
(توحید زیب ۔ترنڈہ میر خاں، لیاقت پور)


۔۔۔
غزل
زندگی، جیت کے ہاری ہو تو دھوم مچے
عشق کی یا بیماری ہو تو دھوم مچے
اس کی زلف سا جگ میں کوئی سیاہ نہیں
رات نے ہمت ماری ہو تو دھوم مچے
وہ درویش نہیں ہے، بس دکھلاوا ہے
اُس پہ وحشت طاری ہو تو دھوم مچے
یہ کیا کوئی گزرے لوگ خموش رہیں
یہ کیا اس کی لاری ہو تو دھوم مچے
وہ جو لکھنے بیٹھے لفظ مہکتے ہیں
کسی میں یہ فنکاری ہو تو دھوم مچے
اپنے عشق کے بارے گاؤں جانتا ہے
صرف یہ وقت گزاری ہو تو دھوم مچے
شعر اربابؔ کے اچھے ہیں پر کوئی شعر
دل کی بات سے بھاری ہو تو دھوم مچے
(ارباب اقبال بریار۔واہنڈو، گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
قدرت نے اشک جب مری قسمت میں لکھ دیے
دنیا کے سارے غم تری صورت میں لکھ دیے
اب تک ادا نہ کر سکے جو دل لگی میں ہم
وہ قرض سارے پیار کی قیمت میں لکھ دیے
پینا ہے کڑوا گھونٹ ہر اک لمحہ ہجر کا
یوں سارے تلخ لمحے محبت میں لکھ دیے
پل پل ہماری سوچ کا محور ہے ایک شخص
پل پل اسی کے غیروں کی رغبت میں لکھ دیے
اتنا نہیں تھا سہنے کے قابل ہمارا دل
دکھ جتنے ایک شخص کی الفت میں لکھ دیے
ساگرؔ مرے وجود کا ہر درد ہے گواہ
سارے ہی دکھ سکون کی حالت میں لکھ دیے
(رجب علی ساگر ۔پہاڑ پور، ڈیرہ اسماعیل خان)


۔۔۔
غزل
جانے کیوں آج مرے دل میں یہ بات آئی ہے
عشق ہوتا ہی وہی ہے جسے یکتائی ہے
ہجر قاتل ہی سہی مجھ کو گوارا ہے مگر
وصل کی بات میں اندیشۂ رسوائی ہے
ایسا لگتا ہے مرے دل میں پڑے ہیں چھالے
اتنی شدت سے مجھے یاد تری آئی ہے
اے مری جاں تجھے اس درد کا احساس کہاں
چوٹ دل سے مری دھڑکن میں اتر آئی ہے
جس سے آگے کوئی ہونا بھی نہیں ہونا ہے
تری فرقت مجھے اس موڑ پہ لے آئی ہے
عشق امید جگاتا ہے ہمیشہ ورنہ
بارہا دل کے بکھرنے کی صدا آئی ہے
یونہی مرتا تو پھر الزام ترے سر جاتا
یہ تو اچھا ہے مری موت وبا لائی ہے
(ظہیر لاغرؔ۔اسکردو)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں