زمین آزاد ہے

زمین تو ہر جگہ زمین ہی ہے، جہاں قدرت نے میخیں گاڑھ کر پہاڑ کھڑے کردیے وہ بھی زمین ہے



FAISALABAD: زمین تو ہر جگہ زمین ہی ہے، جہاں قدرت نے میخیں گاڑھ کر پہاڑ کھڑے کردیے وہ بھی زمین ہے۔ جہاں نیلگوں سمندر بہتے ہیں یا ساکت رہتے ہیں احمر کی صورت وہاں ان کی تہہ بھی زمین ہے۔ جہاں چرند پرند چلتے اڑتے پھرتے ہیں، وہ بھی زمین ہے۔

جہاں اس کے سینے میں 400 فٹ طویل درخت گڑھے ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں برف جمی رہتی ہے وہ بھی زمین ہے، جہاں ان برفوں کا پانی دریا بن کر بہتا ہے وہ بھی زمین ہے، جہاں سے طیارے پرواز کرتے ہیں، جہاں وہ اترتے ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں سے یہ انسان تباہ کن گیسیں فضا میں بھیج رہے ہیں وہ بھی زمین ہے جہاں برق رفتار یا آہستہ خرام ٹرینیں چل رہی ہیں وہ بھی زمین ہے۔

جہاں جنگ زدہ لوگ رہ رہے ہیں وہ بھی زمین ہے جہاں پر آسائش گھر ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں یتیم ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں اپنے پیاروں کی راہ تکنے والے رہتے ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں پیارے گئے ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں محبت کے گیت گائے جا رہے ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں نفرت کے الاؤ سلگ رہے ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں عزتیں لٹ رہی ہیں وہ بھی زمین ہے، جہاں عزتوں کے ڈاکو رہ رہے ہیں وہ بھی زمین ہے، چوروں، ڈاکوؤں کے ٹھکانے بھی زمین ہے، مظلوموں کی آہوں کے ڈیرے بھی زمین ہے، وہ بھی زمین ہے.

جہاں شہیدوں کے لہو سے امن کے پھول کھلتے ہیں، جہاں طاقت اور ظلم کے عفریت کے پاؤں ہوتے ہیں وہ بھی زمین ہے، جو ملتی ہے وہ بھی زمین ہے، جو چھن جاتی ہے وہ بھی زمین ہے، بلند و بالاعمارتوں کے نیچے بھی زمین ہے، فقیر کی جھونپڑی کے نیچے بھی زمین ہے، جھگڑے بھی زمین کے ہیں، زندہ بھی زمین پر ہیں، مرتے بھی زمین پر ہیں، خدا نے ہم انسانوں کو مٹی سے بنایا ہے، ہم میں سے مٹی نکل جائے تو ہمارے نقش بگڑ جاتے ہیں، سارے نقش و نگار ''نقاش ازل'' نے مٹی سے بنائے ہیں مٹی سر پر نہیں ہوتی مٹی پیروں میں ہوتی ہے، قدموں کے نیچے ہوتی ہے، خاک ہے اس کا نام اور اس سے ہے ہماری نمود۔ اور جب یہ خاک اپنا مقام بھول جائے تو بغاوت جنم لیتی ہے اور یہ خاک آگ سے ساز باز کرلیتی ہے اور اسے ''ابیلیسیت'' کہتے ہیں۔ اس کا ڈیرہ ''بڑوں'' کے یہاں ہوتا ہے۔ چھوٹوں اور غریبوں کے پاس اس کی ختم کی ہوئی نکالی ہوئی ''عاجزی'' رہتی ہے اور وہ ہمارے رب کو بہت پسند ہے۔

وہ سب کچھ ہے ''عاجز'' نہیں ہے، یہ خوبصورت وصف اس نے انسان کو دے کر اسے اپنے قریب کرلیا۔ جیسے ماں اپنے بیمار بچے کو دل سے لگا کر رکھتی ہے، جن زمینوں پر انسان شہید کیے جا رہے ہیں ان زمینوں کا مرتبہ بڑھ رہا ہے۔ شہید کا خون دھرتی کو لعل کردیتا ہے۔ خدا کا گھر بھی زمین پر ہے وہ انسانوں کے ساتھ رہتا ہے۔ انسانوں کو اپنے گھر بلاتا ہے ان کی دعوت کرتا ہے اس کے پیارے محبوب کا سب کچھ زمین پر ہے۔ وحی کیا گیا کلام۔ عطا کی گئیں زریت اور وہ لوگ جو آنکھوں میں اس کے محبوب اور دل میں اسے رکھے ہوئے ہیں۔

یہ لوگ کہاں ہیں، اے خدا! تیرے دربار میں تو خال خال ہی وہ نظر آتے ہیں جو ''تیرے'' ہیں! یہ غیروں کے چاہنے والے زر، زمین کے پرستار، یہ تو ''تیرے'' نہیں ہیں، تو نے تو ''دینے والے'' پیدا کیے تھے، یہ تو ''لینے والے ہیں'' ان کا بس چلے تو تجھے بھی لوٹ لیں تیرے غریبوں اور محتاجوں کے ساتھ ساتھ۔ یہ زمین پر نخوت سے چلنے والے، یہ دوسروں کو ٹھوکریں مارنے والے، زمین پر ظلم کی کھیتی کرنے والے یہ تو تیرے نہیں ۔

یہ بارود کو سینوں میں اتاردینے والے۔ یہ لاشوں کے سوداگر۔ ساری زمین کو ''اپنا'' کرنے کے خواہش مند یہ تو تیرے نہیں ہیں۔ جنھوں نے ظلم کرتے وقت زمین پر نہ ماؤں کی پکار سنی، نہ بچوں کی چیخیں۔ یہ تو تیرے نہیں ہیں۔ اے اللہ! تیرے لوگ کہاں گئے، آسمانوں سے ظلم اتر رہا ہے جو تیرا نہیں ہے، جو یہ ظلم اتار رہے ہیں وہ بھی تیرے نہیں ہیں، بادشاہ وقت، جہاں بھی ہیں انھوں نے ظلم و جور کے بازار گرم کر رکھے ہیں، ہم طاقت ہیں، دنیا ہمارے کہنے پر چلے گی، زمین پر ہمارا نظام چلے گا۔

دو عالمی جنگیں جہاں لڑی گئیں وہ بھی زمین ہے، جہاں کبھی سبزہ اب نہیں اگے گا، ایٹم بم کی وجہ سے وہ بھی زمین ہے، انسان نے زمین کو غلام بنانا چاہا ہے، مگر زمین آزاد ہے، کیونکہ وہ کسی کی نہیں، اقوام متحدہ کیا ہے؟ ساری دنیا کی زمینوں سے فوائد حاصل کرنے کے لیے استحصال پسند اقوام کا اجتماع انھیں معلوم ہے دنیا بھر کی زمینوں میں کہاں کیا ہے؟ لہٰذا وہاں انارکی، بحران بو دیے تاکہ اس زمین کی مالک قوم کی مدد کے بہانے ان کے وسائل خدا کی عطا کردہ دولت کو اس زمین سے نکال لیا جائے اور چند اقوام اس کاروبار میں شریک ہوجائیں، خدا نے سب کو آزاد پیدا کیا ہے، اور یہ دنیا بھر کے ملکوں میں سوائے چند کے کہتے ہیں کہ ''آپ اپنی زمین پر یہ کرسکتے ہیں اور یہ نہیں کرسکتے۔

ورنہ آپ پر پابندی لگا دی جائے گی، ساری دنیا اندھوں کی طرح ان چند اقوام کے ''اقوام متحدہ کے تحت'' بالواسطہ غلام بن چکے ہیں افریقہ کے ساتھ کیاکیا، اب ایشیا کی باری ہے، یمن، عراق، افغانستان میں کیا ہے؟ وہاں کی معدنیات وہاں کی دولت جو اس زمین سے نکال کر یہ ان لوگوں کو غلام رکھنا چاہتے ہیں جو ان زمینوں کے مالک ہیں۔ اور ہمارے یہاں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ تم اپنی زمین الگ کرلو، مقصد یہی ہے کہ بھیڑیے کے ریوڑ کی طرح ناک میں ہیں، دائرہ بناکر بیٹھے ہیں، جو کمزور ہوا اور گرا اس کی تکا بوٹی کرلیں گے اور کچھ بہروپیے جو تیرا نام لے کر ظلم کرتے ہیں، ایک انسان کا قتل انھیں تسکین نہیں دیتا، وہ کشتوں کے پشتے لگاتے ہیں۔

معصوموں کو تیرے نام پر جھوٹی جنت کی بشارت دینے والے، یہ مردہ فروش، یہ تو تیرے نہیں ہیں!اے اللہ تیری دنیا، تیری زمین سے تیرے بندے کہاں چلے گئے، سیکڑوں ایکڑ پر اپنا گھر بنانے والو اے انسانو! آخری گھر دوہی گزکا ہوتا ہے، اگر میسر آجائے، ورنہ جن کے آسمانوں میں پرزے اڑتے ہیں ان کے صندوق خالی ہی دفن کیے جاتے ہیں۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ ایک حکم پر سیکڑوں انسانوں کو چھلنی کرنے اور کروانے والوں کو بھی زمین میں جانا پڑے گا۔ کرو جمع دنیا کی دولت! دینا حساب، اور یہاں پلاؤ اڑائیں گے احباب فاتحہ ہوگا۔دور نہیں ہے، کچھ دور نہیں ہے، قدم آج زمین کے اوپر، کل زمین کے نیچے، کوئی نہیں بچا، کوئی بھی نہیں۔ نہ سلطان، نہ اولاد سلطان، ہر ظالم کو آخر میں زمین کا رزق بننا پڑا۔

خاک خاک میں جب ملتی ہے تو خاک کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے کیا کیا، پر اس وقت آخری تاریخ، آخری وقت گزر چکا ہوتا ہے، نظام خداوندی میں واپسی مرضی خداوندی سے مشروط ہے۔ اور نہ جانے وہ کون قسمت والے ہوں گے ان کے علاوہ۔ جن کی واپسی کی ہمیں نوید ہے۔ یقین ہے ایسے لوگ ہوں گے، ضرور ہوں گے جو رضائے الٰہی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوں گے، انھوں نے اس پر ہی سر جھکا رکھے ہوں گے وہ ضرور اس معاشرے کا حصہ ہوں گے، کیا پتہ وہ منقلب ہونے والے لوگ ہوں، انتہاؤں سے خدا نے ابتدا کرکے گناہ گاروں کو مصلحین میں تبدیل کیا، وہ ہوں گے، جب زمین عدل سے بھر جائے گی۔

انصاف کا دور دورہ ہوگا، اور وہ جب ہی ہوگا، جب لوگ، خدا کے بندے بن جائیں گے، ''اصنام پرستی'' کا خاتمہ ہوجائے گا، دل کے کعبے میں صرف ایک خدا ہوگا۔ اے خدا! ہمارے دعا مانگنے والے ہاتھوں کو سلامتی دے، ہمارے قلب کو طاہر کردے، انسانوں کو ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا کردے، تنگدستوں اور غریبوں کو ظالم کے ظلم سے نجات دے، کمزوروں کو حوصلہ دے، حق مانگنے اور حاصل کرنے کا عزم دے، تو ارحم الراحمین ہے، رحم تیری ذات سے وابستہ ہے، اب صرف رحم کی ضرورت ہے۔ ہمارے جوانوں کو فاتح بنا دے، اے خدا! تو بندوں سے مایوس نہیں تو ہم بھلا تجھ سے کیسے ناامید ہوسکتے ہیں؟ ہمارے ارادوں کے دوسری طرف روشنی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں