خصوصی افراد ریلوے میں رعایتی ٹکٹ کے سوا تمام بنیادی سہولیات سے محروم

خصوصی افراد کے لیے ٹرینوں میں چڑھنے کے بندوبست، مخصوص سیٹوں، واش رومز، ہیلپ ڈیسک سمیت کوئی سہولت دستیاب نہیں


عامر خان August 15, 2024
(فوٹو: انٹرنیٹ)

خصوصی افراد کو پاکستان ریلوے کی جانب سے کرایے میں رعایت کے سوا کسی قسم کی کوئی بنیادی سہولت دستیاب نہیں کی گئی۔


خصوصی افراد کے لیے پاکستان ریلوے کی ٹرینوں میں سفر کرنا انتہائی مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے ۔ خصوصی افراد کے لیے مسافر ٹرینوں کی بوگیوں میں داخل ہونے یا اخراج کے لیے کوئی ریمپ یا سیڑھی موجود نہیں ہوتی ۔ اسی طرح کسی بھی مسافر ٹرین میں خصوصی افراد کے لیے کوئی سیٹیں یا بوگی مختص نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لیے کوئی اسپیشل واش رومز موجود ہیں ۔


بیشتر ریلوے اسٹیشنز پر خصوصی افراد کے لیے کوئی ہیلپ ڈیسک یا وہیل چیئر کی سہولت بھی موجود نہیں ہے ۔ ان تمام تکالیف کے باوجود صرف کرایے میں رعایت کی سہولت موجود ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد دیگر ٹرانسپورٹیشن کی سہولت استعمال کرنے کے بجائے ریلوے کی مسافر ٹرینوں کو سفر کے لیے ترجیح دیتے ہیں ۔


ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ خصوصی افراد جو ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں ، ان کے لیے قوانین کے مطابق سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔


ایک خصوصی ( معذور ) خاتون ببلی نسیم جن کی عمر 58 سال ہے اور وہ خداداد کالونی کی رہائشی ہیں ، انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن میں ویکسین نہ پینے کی وجہ سے پولیو کا شکار ہیں اور اسی وجہ سے معذوری کا شکار ہیں ۔ معذوری کے سبب ان کی شادی نہیں ہوسکی ۔


انہوں نے بتایا کہ اپنے روز مرہ زندگی کے معمولات چلانے کے لیے وہ وہیل چیئر کا استعمال کرتی ہیں ۔ گزشتہ دنوں ان کی بھانجی کی راولپنڈی میں شادی تھی ، جس میں شرکت کے لیے ان کی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد نے تیز گام میں اے سی اسٹینڈرڈ میں ٹکٹ بک کرائے ۔ وہ اپنی گاڑی کے ہمراہ کینٹ اسٹیشن پہنچیں تاہم جب وہ پلیٹ فارم پر آئیں تو انہوں نے ریلوے اسٹیشن کے حکام سے معلوم کیا کہ وہ کس طرح ٹرین میں سوار ہوں گی ۔ انہوں نے بتایا کہ خصوصی افراد کو معلومات فراہم کرنے کے لیے کوئی ہیلپ ڈیسک موجود نہیں تھی اور بوگی میں سوار ہونے کے لیے کوئی ریمپ موجود نہیں تھا اور نہ ہی کوئی خصوصی سیڑھیاں تھیں ۔


خاتون نے بتایا کہ یہ دیکھ میں پریشان ہو گئی کہ میں کس طرح بوگی میں سوار ہوں گی ۔ پھر میرے بھائی نے کزن کی مدد سے مجھے گود میں اٹھایا اور بوگی میں سوار کیا اور جب میں بوگی میں داخل ہو گئی تو میں نے دیکھا کہ وہاں وہیل چیئر چلانے کے لیے جگہ نہیں تھی ۔ اسی لیے میں بھائی اور کزن کے سہارے سے اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھی ۔ انہوں نے کہا کہ دوران سفر مجھے بہت مشکل پیش آئی ، کیوں کہ خصوصی افراد کے لیے کوئی واش روم بھی موجود نہیں تھا اور نہ ہی ٹرین میں خصوصی افراد کے لیے کوئی سہولیات موجود تھیں ۔


انہوں نے کہاکہ یہ ریلوے حکام کی نااہلی ہے کہ خصوصی افراد کے لیے پاکستان ریلوے کی ٹرینوں میں کوئی سہولت مختص نہیں ہے ۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کیا خصوصی افراد معاشرے کا حصہ نہیں ہیں ۔ انہیں کیوں سفری سہولیات میسر نہیں ہیں ۔


خصوصی فرد حافظ قاری آصف نے بتایا کہ وہ ایک مقامی مدرسے میں حفظ کی کلاسیں لیتے ہیں ۔ ان کا آبائی تعلق ملتان سے ہے ۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ بہا الدین زکریا ایکسپریس سے ملتان روانہ ہوئے ۔ وہ سفید چھڑی کا استعمال کرتے ہیں ۔ اپنی اہلیہ کی مدد سے کینٹ اسٹیشن پہنچے ۔ بوگی میں سوار ہونے کے لیے کوئی خصوصی سیڑھی موجود نہیں تھی اور نہ ہی ریمپ تھا ۔ اہلیہ اور ایک مسافر کی مدد سے بوگی میں سوار ہوئے اور مطلوبہ سیٹ تک پہنچے ۔


انہوں نے کہا کہ خصوصی افراد کی زندگی بھی کیا زندگی ہے کہ نہ اسٹیشن پر اور نہ ہی ٹرین میں خصوصی افراد کے لیے کوئی ہدایت نامہ یا گائیڈ موجود ہے ۔ خصوصی افراد کے لیے کوئی سیٹیں مختص نہیں ہیں۔ صرف حکومت کی جانب سے کرایے میں رعایت کی سہولت تو ہے لیکن ٹرینوں میں خصوصی افراد کے لیے سفری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خصوصی افراد کے لیے آمدورفت کے تما م ذرائع میں سہولیات فراہم کی جائیں ۔


خصوصی افراد کی مدد کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے رہنما رعنا آصف نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے خصوصی افراد کو شناختی کارڈ کا اجرا تو کیا جا رہا ہے اور سرکاری ملازمتوں میں ان کا کوٹہ بھی ہے لیکن خصوصی افراد کو معاشرے میں کوئی سہولت نہیں ہے ۔ ان کو سفری سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ خصوصاً پاکستان ریلوے کے تحت چلنے والی ٹرینوں میں خصوصی افراد کے لیے سفر کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے ۔ کوئی خصوصی فرد یا خاتون اکیلے سفر نہیں کرسکتا کیونکہ اسٹیشنز پر خصوصی افراد کے لیے کوئی مددگار کاونٹر موجود نہیں ہے اور نہ ہی مسافر ٹرینوں میں ان کے لیے کوئی خاص سہولیات مختص ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔


جامعہ کراچی کے شعبہ سوشل ورک کی میری ٹوریس پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ خصوصی افراد معاشرے کا حصہ ہیں ۔ ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں ، جو ایک عام شہری کو ہوتے ہیں ۔


انہوں نے بتایا کہ خصوصی افراد چاہے وہ معذور ہوں یا نابینا، انہیں عام زندگی میں نقل و حرکت کرنے میں بہت پریشانی ہوتی ہے ۔ انہیں بسوں اور ٹرینوں میں کوئی سفری سہولت حاصل نہیں ہے ۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی سے پشاور تک کسی ایک ٹرین میں خصوصی افراد کے لیے کوئی ایک بوگی مختص کر دیں اور اسے اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ اس میں خصوصی افراد کے لیے تمام سہولیات میسر ہوں ۔ اس طرح ان کی آمدورفت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے ۔


ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور رضی نے بتایا کہ یہ بات سچ ہے کہ خصوصی افراد کو پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بڑے اسٹیشنز پر تو وہیل چیئر موجود ہیں لیکن عموماً چھوٹے اسٹیشنز پر یہ سہولت نہیں ہے ۔ بڑے اسٹیشنز پر بھی خصوصی افراد کو معلومات کی فراہمی کے لیے کوئی ہیلپ ڈیسک یا ہیلپ لائن موجود نہیں ہے ۔ یہ سہولیات ہونی چاہییں۔


انہوں نے کہا کہ عموماً ایک اندازے کے مطابق پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں روزانہ 100 سے 150 کے درمیان خصوصی افراد بطور مسافر مختلف کلاسز میں سفر کرتے ہیں۔ یہ تعداد زیادہ یا کم ہو سکتی ہے ۔ خصوصی افراد کے لیے ریلوے اسٹیشنز اور مسافر ٹرینوں میں گائیڈ لائن کی فراہمی کے لیے ہدایت نامہ ہونا چاہیے۔ ان کے لیے ٹرینوں میں کسی ایک بوگی میں خصوصی سیٹیں اور واش رومز کی سہولت ہونی چاہیے۔


ریلوے حکام نے بتایا کہ پاکستان ریلوے کی جانب سے خصوصی افراد کو سفری سہولت فراہم کرنے کے لیے ٹکٹوں میں قوانین کے مطابق رعایت دیتی ہے اور ریلوے کا عملہ ٹرینوں اور ریلوے اسٹیشنز پر خصوصی افراد کی مدد کے لیے ہر وقت موجود ہوتا ہے ۔ خصوصی افراد کے لیے الگ سے بوگی کا تعین کرنا ریلوے کی اعلیٰ اتھارٹی کا کام ہے ۔


انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں اپ اینڈ ڈاؤن ٹریکس پر 18 بڑی ٹرینوں سمیت 97 ٹرینیں شیڈول کے مطابق چلتی ہیں ، جن میں بڑی تعداد میں خصوصی افراد بھی سفر کرتے ہیں اور ان کے مسائل کے حوالے سے کوئی شکایت ملتی ہے تو فوری اس کا ازالہ کیا جاتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔