بنگلہ دیش کی نئی صبح
اس تحریک میں چار سو سے زائد لوگوں نے جن میں طلبا بھی شامل ہیں، اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
ملک اور نظام کوئی بھی ہو، معیشت مستحکم ہو اورتمام ادارے اور حکمران ایک پیج پر ہوں اور حاکمان وقت اپنے کروفرکے ساتھ اپنی من مانیاں کرنے میں آگے بڑھتے چلے جائیں۔ طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگے، اپنے اقتدارکو طول دینے کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز حربے آزادی سے استعمال کرنے لگیں، حکومتی اقدامات، فیصلوں، منصوبوں اور پالیسیوں کے طفیل عوام کے آئینی، بنیادی اور قانونی حقوق پامال ہونے لگیں، ظلم، زیادتی، ناانصافی، حق تلفی اورگھٹن کا ماحول پروان چڑھنے لگے، حق اور سچ کی بلند آہنگ آوازوں کو طاقت کے بل بوتے پر دبانے کی کوشش کی جائے، عوام اپنے حق کے لیے قربانیاں دیتے رہیں مگر حکمران اپنی ہی دھن میں مست رہیں، زمینی حقیقت سے صرف نظرکرتے ہوئے حکمران تنگ نظری اور منتقمانہ طرز عمل اختیارکرنا شروع کردیں اور راکھ میں دبی چنگاریوں کو نفرت اور جبر کی ہوائیں دینے لگیں تو پھر ان چنگاریوں سے بھڑکتے اور بلند ہوتے شعلوں میں غرور و تکبر میں ڈوبے آمر حکمرانوں کے تخت و تاج اور محلات جل کر بھسم ہو جاتے ہیں۔
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جابر و ظالم حکمرانوں کو ایک نہ ایک دن ایسے زوال اور شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ان کا تاحیات حکمرانی کرنے کا خواب اس بری طرح سے چکنا چور ہوتا ہے کہ کرچیوں سے سارا بدن لہو لہان ہو جاتا ہے۔ زیادہ دکھ اور افسوس اس وقت شدت اختیار کر لیتا ہے کہ جب مشکل وقت پر اپنے بااعتماد اور قریبی سمجھے جانے والے لوگ بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا ہی سب کچھ بنگلہ دیش کی سابق وزیر شیخ حسینہ واجد کے ساتھ بھی ہوا۔
جنھیں چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد اقتدارکی مدت پوری ہونے سے قبل ہی عوام کے غیظ وغضب کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر حسینہ واجد کو نہ صرف یہ کہ استعفیٰ دے کر اقتدار سے محروم ہونا پڑا، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہنگامی طور پر اپنا ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کا درد ناک انجام ان کے سامنے تھا، حالات جو رخ اختیار کر چکے تھے اس وقت فوری طور پر انھوں نے بھارت کی سمت راہ فرار اختیارکرنے ہی میں عافیت جانی۔
بنگلہ دیش کے سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے خلاف حالیہ تحریک کے پیچھے کسی سیاسی لیڈر اور جماعت کا کوئی کردار نہیں بلکہ اس کا خمیر روزگار کے حوالے سے طلبا کے اندر کوٹہ سسٹم کے نتیجے میں پلنے والی محرومیوں و نارسائیوں سے اٹھا ہے جس نے میں کون؟ تم کون؟ رضاکار، رضاکار، جیسے جذباتی نعرے نے ایسا جوش و ولولہ بھر دیا، جو ایک عشرے سے زائد عرصے تک حسینہ حکومت کے جبر و ستم سہنے والے عوام کی کامیابی پر منتج ہوا۔
اس تحریک میں چار سو سے زائد لوگوں نے جن میں طلبا بھی شامل ہیں، اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔عوام اور طلبا اپنے حقوق کے لیے ڈٹ گئے،انھوں نے کسی بھی قیمت پر پیچھے ہٹنے سے انکار دیا، ظلم کے خلاف سینے پرگولیاں کھائیں،لاشوں پر لاشیں گرتی رہیں لیکن وہ اپنے حق کے لیے حسینہ حکومت سے کسی سمجھوتے پر آمادہ نہ ہوئے۔ جو اقتدار میں ہوتے ہیں وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو باغی قرار دیتے اور اسے ہر سزا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں ، یہی وہ سوچ تھی کہ شیخ حسینہ واجد احتجاج کرنے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو '' دہشت گرد '' کہہ کر پکارتی رہیں اور انھیں کچلنے کے ریاستی جبرکا بھرپور استعمال کیا، لیکن عوام کی طاقت کے آگے انھیں بالآخر سر جھکانا پڑا۔
کہا جاتا تھا کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے ادوار حکومت میں بنگلہ دیش کی معیشت کو استحکام بخشا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور ٹکے کی قیمت بھی بڑھائی جس کے باعث بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ پاکستان سے بھی بعض صنعتکاروں نے بنگلہ دیش میں انڈسٹریاں لگائیں۔ بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور آئی ٹی سمیت بہت سے شعبوں میں ترقی کی اور دوسرے ممالک کے لیے مثال بن گیا۔ معاشی میدان میں بہتری کے باوجود انھوں نے سیاسی حوالے سے جو نفرت و انتقام کے بیج بوئے اس کی فصل انھیں کاٹنا پڑی۔ اپنے سیاسی مخالفوں کو قید و بند کی سزائیں دیں اور جماعت اسلامی کے بعض لیڈروں کو پھانسی پر چڑھایا۔ عوام کے حقوق کو غصب کیا اور خاص طور سے کوٹہ سسٹم میں جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنی ریاستی طاقت کے نتیجے میں ایسی ڈوبی کہ عوام بالخصوص طلبا کے اندر پلنے والی محرومیوں، مایوسیوں اور نارسائیوں و ناانصافیوں کا ادراک نہ کرسکیں۔
حالیہ انتخابات میں انھوں نے کھل کر دھاندلی کروائی تاکہ وہ اپنے اقتدار کے تسلسل کو برقرار رکھ سکیں۔ عوام بالخصوص طلبا نے آخری جنگ لڑنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور اپنے لہو سے بنگلہ دیش کی ایک نئی تاریخ لکھ دی جس کے باعث حسینہ واجد اب کبھی اقتدار میں نہیں آسکیں گی، لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا جس طرح ان کے عزیز آرمی چیف نے انھیں محفوظ راستہ دے کر فرار کرایا، کیا آنے والی حکومت شیخ حسینہ واجد کو وطن واپس لا کر کٹہرے میں کھڑا کرے گی؟یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ شیخ حسینہ واجد کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگر اظہر من الشمس ہے کہ بنگلہ دیشی عوام نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ایک نئی صبح کی بنیاد رکھ دی ہے اور اس کے ثمرات سے فیض یاب ہونے میں وہ پوری طرح حق بجانب ہیں۔