ایران اسرائیل سایوں کی جنگ

اسرائیل اور ایران کے درمیان سایوں کی لڑائی سرد جنگ کی یاد دلاتی ہے


Wasat Ullah Khan August 03, 2024

ایران کو آج سے نہیں پچھلی ڈیڑھ دہائی سے جیمز بانڈ اسٹائیل چیلنجوں کا سامنا ہے۔اور یہ چیلنج مغرب سے بغاوت کی قیمت ہیں۔کوئی دفاعی نظام فول پروف نہیں ہوتا۔ایران کا بھی نہیں ہے۔


جنوری دو ہزار اٹھارہ میں موساد ایجنٹوں نے تہران کی ایک عمارت سے جوہری پروگرام سے متعلق کلاسیفائیڈ حساس دستاویزات چوری کر لیں۔اپریل میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام سے منسلک لگ بھگ ایک لاکھ دستاویزات اسرائیل کی تحویل میں ہیں۔ان کے مطالعے سے ایران کا یہ جھوٹ پکڑا گیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔


مئی دو ہزار بائیس میں بارود سے بھرا ایک کواڈ کاپٹر تہران کے جنوب مشرق میں پارچین فوجی بیس میں جا گرا۔ایک انجینئر جاں بحق ہوا اور اس عمارت کو بھی نقصان پہنچا جہاں ایران ڈرونز تیار کرتا ہے۔ جنوری دو ہزار تئیس میں متعدد خود کش ڈرونز نے اصفہان میں ایک فوجی مرکز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔اقوامِ متحدہ میں ایرانی مندوب عامر سعید اراوانی نے اس واردات کا ذمے دار اسرائیل کو قرار دیا۔


اس سال اپریل میں دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر فضائی حملے میں دو ایرانی جنرلوں سمیت سات اہل کار جاں بحق ہوئے۔ چند روز بعد ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے لگ بھگ تین سو ڈرونز اور میزائیل اسرائیل کی جانب روانہ کیے۔اکثر کو راستے میں امریکی ، برطانوی اور اردنی فورسز نے مار گرایا البتہ دو میزائیل جنوبی اسرائیل میں صحراِ نجف میں قائم اسرائیلی فوجی اڈے پر گرے اور رن وے کو جزوی نقصان پہنچا۔


اس کے چند دن بعد ایرانی دفاعی نظام نے اصفہان میں تین ڈرونز کو مار گرایا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ایک اسرائیلی میزائل اصفہان میں قائم ایک فوجی تنصیب پرگرا۔


جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک سائنس دانوں اور ماہرین کے خلاف کارروائی کا معاملہ ہے تو اسرائیل دو ہزار دس سے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔مثلاً تہران کی شہید بہشتی یونیورسٹی کی جوہری انجینئرنگ فیکلٹی سے منسلک ماہر ماجد شہریاری کار کے نیچے نصب میگنیٹ بم پھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔ان کی اہلیہ زخمی ہو گئیں۔اس وقت کے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اس واردات کا ذمے دار اسرائیل اور امریکا کو ٹھہرایا۔


کیمیکل انجینئر مصطفی احمدی روشن ایران کے نتانز جوہری مرکز میں یورینیم کی افزودگی کے نگراں تھے۔جنوری دو ہزار بارہ میں تہران میں ان کی چلتی کار کے دروازے پر ایک موٹرسائیکل سوار نے میگنیٹ بم نصب کیا۔مصطفیٰ اس بم کے دھماکے سے جانبر نہ ہو سکے۔


محسن فخری زادے کو ایران کے جوہری پروگرام کا بانی سمجھا جاتا تھا۔دو ہزار سات میں اقوامِ متحدہ اور دو ہزار آٹھ میں امریکا نے ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔نومبر دو ہزار بیس میں تہران کے باہر سفر کے دوران انھیں گولی مار دی گئی۔


مئی دو ہزار بائیس میں پاسدارانِ انقلاب کے ایک اہم کمانڈر کرنل حسن سئید خدائی کو تہران میں ان کے گھر کے باہر پانچ گولیاں ماری گئیں اور وہ جاں بحق ہو گئِے۔


ایران اسرائیل کے سائبر حملوں کی بھی مسلسل زد میں ہے۔


جون دو ہزار دس میں بوشہر نیوکلئیر پلانٹ کے کمپیوٹر سسٹم میں سٹکسنیٹ وائرس پایا گیا جو رفتہ رفتہ ستمبر دو ہزار دس تک چودہ جوہری مراکز میں نصب تیس ہزار کمپیوٹرز کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔اس واردات کے نتیجے میں انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی کے مطابق نتانز مرکز میں جوہری افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے نو ہزار سینٹری فیوجز میں سے ایک ہزار ناکارہ ہو گئے۔ایران نے چھان بین کے بعد کہا کہ اس تخریب کاری کے ڈانڈے اسرائیل اور امریکا سے مل رہے ہیں۔


نومبر دو ہزار گیارہ میں ایرانی جوہری پروگرام کے کمپیوٹر نیٹ ورک میں '' دوقو '' وائرس پایا گیا۔یہ وائرس بھی ساختہ اسرائیل ثابت ہوا۔اپریل دو ہزار بارہ میں وائپر نامی وائرس نے ایرانی وزارتِ تیل اور نیشنل ایرانین آئل کمپنی کی ہارڈ ڈرائیو صاف کردی۔


مئی دو ہزار بارہ میں ایران نے اپنے سرکاری کمپیوٹر نیٹ ورک میں فلیم نامی وائرس کا پتہ لگایا۔اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ وائرس دراصل ڈیٹا چرانے کے کام آتا ہے۔اسرائیلی نائب وزیرِ اعظم موشے یالون نے ایران کے خلاف سائبر جنگ چھیڑنے کا تو کھل کے اعتراف نہیں کیا البتہ یہ عندیہ دیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو مفلوج کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا۔


اکتوبر دو ہزار اٹھارہ میں ایرانی حکام نے خبر دی کہ سٹکسنیٹ وائرس کی ایک جدید شکل کا حملہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔اکتوبر دو ہزار اکیس میں اس نیٹ ورک پر سائبر اٹیک ہوا جس کے ذریعے لاکھوں ایرانی شہری رعائیتی قیمت پر پٹرول حاصل کرتے ہیں۔عارضی طور پر یہ نظام مفلوج ہونے سے پٹرول سبسڈی کارڈ کا تصدیقی نظام رک گیا اور ایرانی شہریوں کو مارکیٹ ریٹ پر کئی دنوں تک اپنی ضرورت کا پٹرول خریدنا پڑا۔یہ ریٹ رعائیتی قیمت سے دوگنا ہے۔


مئی دو ہزار اکیس میں ایران کی جنوبی بندرگاہ شہید رجائی پورٹ کا ڈیجیٹل سسٹم بیٹھ گیا چنانچہ مال بردار جہازوں کی بندرگاہ میں آمدورفت کے معمول میں شدید خلل پڑا۔کچھ امریکی میڈیا ذرایع نے اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ظاہر کیا۔


آج کے زمانے میں شاید ہی کوئی ملک ہو جسے فضا اور خلا سے خطرہ لاحق نہ ہو۔ مگر اسرائیل اور ایران کے درمیان سایوں کی لڑائی سرد جنگ کی یاد دلاتی ہے جب مغرب اور سوویت بلاک ایک دوسرے کو ہر طرح سے سیاسی ، سفارتی ، اقتصادی و اسٹرٹیجک نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے تھے۔جیمز بانڈ فلمی سیریز اس کا ایک بین ثبوت ہے۔


پاکستان اور بھارت اور چین اور امریکا کے درمیان بھی سایوں کی لڑائی مسلسل ہے۔یہ ایک لامحدود لڑائی ہے۔جس میں نت نئے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔ان کا توڑ کیا جاتا ہے اور پھر اس توڑ کا توڑ ہو جاتا ہے۔یوں توڑم تاڑی چلتی رہتی ہے۔


ایران کا سیکیورٹی نظام اس لیے بھی کمزور ہے کہ انیس سو اناسی میں جب امریکی اتحادی شاہی حکومت ختم ہوئی تب سے ایران کو مسلسل جامع پابندیوں کا سامنا ہے۔نہ وہ اپنا دفاعی نظام اپ گریڈ کر پایا ہے اور نہ ہی اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی ٹھیک طرح سے حاصل کر پایا ہے۔ایران نے جوہری پروگرام ، اسلحہ سازی اور بری بحری و فضائی سرحدوں کی موثر نگرانی کا جیسا کیسا نظام بھی حاصل کیا ہے وہ زیادہ تر بیک ڈور کوششوں کے سبب ہے۔جب کہ اس کا سامنا اسرائیل جیسے دشمن سے ہے۔


اسرائیلی برتری کا توڑ ایران نے ہم خیال تنظیموں اور ممالک کے علاقائی اتحادی نظام سے کرنے کی کوشش تو کی ہے۔ مگر اسرائیل نہ صرف امریکی وسائیل کے گودام سے جو چاہے بلا اجازت حاصل کر کے استعمال کر سکتا ہے بلکہ اسرائیل بذاتِ خود بھی اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی ساز ممالک کی فہرست میں خاصا اوپر ہے۔ چنانچہ ہر دو طرف اپنے اپنے طریقے سے کارِ مسلسل جاری ہے اور چلتا رہے گا۔


(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں