کیریئر کے انتخاب میں صنفی امتیاز

یہ امر بچیوں کی خود اعتمادی کا دشمن اور سماجی تفریق کی بنیاد ہے


خوشبو غوری July 30, 2024
فوٹو : فائل

گزشتہ دنوں جامعہ کراچی میں ڈین سوشل سائنسزکی کاوششوں سے منعقد کی گئی دو روزہ قومی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، جہاں شعبہ سماجیات سے ڈاکٹر منزہ مدنی کی جانب سے نہایت ہی اہم موضوع پر تحقیق پیش کی گئی جس کا موضوع تعلیم کے میدان میں صنفی امتیاز پر مبنی تھا۔

اس تحقیق میں طالبات کے کیریئر کے انتخاب میں صنفی تعصب کے اثرات کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں ان کے رجحانات اور ان کی خود اعتمادی پر اس کے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا۔

تحقیق میں یونیورسٹی کی طالبات سے کیے گئے سوالات میں ان عوامل کی جانچ کی گئی تھی کہ ان کے کیریئر کے حوالے سے فیصلوں پر کون سے محرکات اثرانداز ہوتے ہیں اور کسی بھی پیشے کے انتخاب میں کون سے عوامل خود اعتمادی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ بچیوں کو کیریئر کے انتخاب میں سب سے زیادہ جو محرکات یا عوامل متاثر کرتے ہیں وہ کسی بھی پروفیشن میں صنفی امتیاز ہے۔

تحقیق کے آخر میں پیش کی جانے والی سفارشات میں سے اہم سفارش یہ تھی کہ تعلیمی اداروں کو بچیوں کی کیریئر کونسلنگ کے حوالے سے نہ صرف سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد کرنا چاہیے جس میں کریئر کے انتخاب کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے کہ کوئی بھی پیشہ، صنف سے منسلک نہیں اورکسی بھی پیشے کے انتخاب کی بنیاد صنف نہیں، بلکہ اس میں پیشہ ورانہ مہارت اور دل چسپی ہے۔

سال 2023ء میں جاری کی گئی اقوامِ متحدہ کے ادارے 'یونیسکو' کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ایک سو تیس ملین سے زائد بچیوں کو اسکول تک رسائی ہی حاصل نہیں ہے، جس میں سے ایک کروڑ بیس لاکھ بچیاں پاکستانی ہیں۔

یونیسکو نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی کل تعداد 54 لاکھ ہے اور وہ بچے جن کی اسکول تک رسائی ممکن ہوتی ہے، معاشی اور معاشرتی سائل کے باعث ان کی بہت کم تعداد دسویں جماعت تک پہنچچ پاتی ہے۔ یہ جنوبی ایشیاکے ممالک میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 15 سال میں جو اہداف مقررکیے گئے تھے وہ بھی حاصل نہیں ہوئے۔

اب جس ملک میں فرسودہ دُہرا ور تہرا طبقاتی نظام تعلیم اور معیار تعلیم خستہ حال ہو، وہاں بھلا کیسے 'تعلیم سب کے لیے' عام ہو گی اور تعلیمی میدان میں سب کو یک ساں مواقع میسر ہوں گے اور جب تعلیمی اداروں میں یک ساں مواقع میسر نہ ہوں تو پیشہ ورانہ میدان میں لڑکیوں کو کیسے بہتر مواقع حاصل ہو سکیں گے۔

قیامِ پاکستان سے اب تک تقریباً اب تک کسی بھی حکومت نے تعلیم میں کوئی خاطر خواہ دل چسپی لی اور نہ ہی کسی قسم کی اصلاحات متعارف کرائی گئیں، ماسوائے اساتذہ کی سیاسی بنیادوں پر بھرتی یا فنڈزکی خردبرد کے!

ہمارے معاشرے میں پہلے تو بچیوں کی تعلیم کا رجحان عام نہیں، جب کہ بہت سے والدین امن و امان کی خراب صورت حال، معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کے باعث اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم سے روک دیتے ہیں کہ تعلیم عزت و جان سے اہم نہیں۔

پھر دوسری درجہ بندی ان والدین اور خاندان کی ہے، جو بچیوں کی مخصوص تعلیم یا زیادہ پڑھنے لکھنے کے حق میں نہیں کہ اگر لڑکی زیادہ پڑھ لکھ گئی اور زیادہ شعور اور آگہی مل گئی، تو فرسودہ اور دقیانوسی خاندانی روایات سے باغی ہی نہ ہو جائے۔

اس کے علاوہ کچھ والدین یا تو مالی استطاعت نہ رکھنے یا پھر دیگر سماجی، معاشی یا خاندانی وجوہات کے باعث بچیوں کو پیشہ ورانہ تعلیم سے دور رکھتے ہیں۔

ہمیں اپنی بچیوں کے کریئر کے چناؤ اور تعلیم کی راہ میں روکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے تمام معاشرے جہاں دیگر حقوق میں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے، وہاں لڑکیوں کو تعلیم کے حق اور کیرئیر منتخب کرنے میں بھی شدید صنفی تفریق کا سامنا ہوتا ہے، نتیجتاً ہمارے معاشرے کی ترقی کی رفتار مایوس کن ہے۔

کیریئر کے چناؤ میں صنفی امتیاز اور صنفی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے معاشی طور پر خواتین کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور ایسا ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک لڑکیاں تعلیم یافتہ اور ہنر مند نہ ہوں۔ ان اپنے حقوق کے حوالے سے آگاہی اور شعور نہ ہو۔

ساتھ ہی کیرئیر کے چناؤ میں خاندان خصوصاً ماں باپ کا بچیوں کا ساتھ دینا نہایت ضروری ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں رشتے دار کیا کہیں گے؟ معاشرہ انگلی اٹھائے گا! یہ تو لڑکوں کی فیلڈ ہے۔۔۔ تم کیسے کرو گی۔۔۔؟ یہ پیشہ لڑکیوں کے لیے مناسب نہیں۔۔۔ اس طرح کے رجحانات اور رویوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم کے معاملے میں بھی ایک الگ صنف کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ پہلے تو یہ کہ لڑکی تعلیم حاصل کرے یا نہ کرے اور اگر تعلیم حاصل کرنی ہے، تو کس طرح کی تعلیم حاصل کرے اور وہ تعلیم حاصل کر لے تو اس تعلیم کا کیا کرے؟

ہمارے معاشرے میں اب بھی بہت سے پڑھے لکھے خاندان لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے نہایت دقیانوسی خیالات رکھتے ہیں۔ عورت کو تعلیم کا حق دینے میں بھی ہمارے معاشرے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔

ایک طبقہ کے مطابق لڑکیوں کو تعلیم کی خاص ضرورت نہیں، کیوں کہ اس تعلیم کی کوئی خاص اہمیت نہیں اور چوں کہ لڑکیوں کو گھرداری ہی کرنی ہے، لہٰذا تعلیم پر وقت اور پیسہ ضائع کیوں کیا جائے؟

بس معاشرے میں ان کو دقیانوسی نہ کہا جائے، لہٰذا یہ طبقہ لڑکیوں کی معمولی یا ابتدائی تعلیم کے حق میں رہتا ہے، جس میں عام میٹرک یا 'ایف اے' تک کی تعلیم شامل ہے۔ ایسے خاندان کی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوتیں۔ ان کے مطابق لڑکی کے پڑھ لکھ کر 'کرنا ہی کیا ہے؟'

معاشرے کا دوسرا طبقہ ذرا کھلے دل دماغ کا مالک ہے۔ بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے مکمل حق میں نظر آتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ ڈگریوں کے حصول سے بیٹیوں کے لیے ہر طرح کی تعلیمی سہولتوں کی فراہمی ان کا مقصد ہوتی ہے، لیکن پس منظر میں لڑکی کی یہ اعلیٰ تعلیم اضافی سرگرمی یا بہتر رشتے کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ ہمیں اس قسم کے رویوں کی شدید اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔

جس ملک میں بچیوں کو بنیادی تعلیم تک ہی رسائی حاصل نہ ہو، وہاں کیرئیر کے انتخاب اور پیشہ ورانہ حقوق کے حوالے سے آگاہی بہت دور کی بات ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں طبقاتی اور صنفی تقسیم ہے۔

یہ صنفی تقسیم ہم کو تعلیمی میدان اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ابتدائی تعلیم کے دور میں مضامین کے چناؤ میں بھی نظر آتی ہے۔ جب ہمیں تعلیمی میدان میں راہ نمائی کرنے والے ہمارے گھر والے بچیوں کے لیے ایسے مضامین کے فائدہ زیادہ بتاتے ہیں، جو اسکول کالجوں میں پڑھانے کے لیے آسانی دست یاب ہوں، جب کہ لڑکوں کو انجینئر ڈاکٹر سمیت ایسے مضامین چننے کی ترغیب دی جاتی ہے، جو مستقبل میں ان کے کیرئیر میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوئترس نے سائنس کے میدان میں خواتین اور لڑکیوں کو درپیش رکاوٹوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تمام لوگوں کے بہتر مستقبل کی خاطر اس شعبے میں صنفی مساوات قائم کرنا ضروری ہے۔

سائنس کے شعبے میں صنفی تفریق یا صنفی تعصب کے باعث دنیا خواتین اور لڑکیوں کی بہت بڑی صلاحیتوں سے محروم ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے پائیدار ترقی کے پانچواں ہدف صنفی مساوات ہے۔ لہٰذا پاکستان میں حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر بھی دوسرے تمام شعبوں کے علاوہ تعلیم اور پیشے کے چناؤ میں بھی صنفی مساوات کے ہدف کو یقینی بنانا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔