فرہاد کی واپسی ایک تیکھی اور شگفتہ کہانی
ایک تیکھی اور شگفتہ کہانی
خالد، حامد، شاہد، ساجد چاروں دوست تھے ۔۔۔۔ جس طرح ناموں کا قافیہ ملتا تھا اسی طرح ان کی اکثر باتیں بھی مشترک تھیں ۔۔۔ ایک ہی محلے میں رہتے، ایک ہی کالج اور کلاس میں پڑھتے تھے ۔۔۔۔ ایک روز خالد کے ہاتھ پراسرار علوم پر مبنی ایک کتاب لگ گئی۔
اس میں انسانی روح کو عالمِ ارواح سے بلوانے کا طریقہ لکھا تھا۔ ۔۔۔۔ ایک دن ساجد کے تمام گھر والے کسی تقریب میں جانے والے تھے تو وہ کوئی بہانہ کرکے رک گیا ۔۔۔۔ پھر چاروں دوست اس کے گھر جمع ہوئے اور حال ہی میں ایک حادثے میں مرجانے والے اپنے دوست کی روح طلب کرنے کے لیے کتاب میں بتائے طریقے پر عمل شروع کردیا جس میں کام یابی ہوئی ۔۔۔ روح کی آمد پر پہلے تو وہ بہت خوف زدہ ہوئے مگر جلد ہی خوف پر قابو پالیا ۔۔۔ اس کام یابی پر چاروں دوست بہت خوش تھے۔ کچھ دنوں بعد چاروں دوست کالج کی کینٹین میں بیٹھے تھے، خالد نے چائے کی چُسکی لے کر کہا:
''ہمیں اپنے اس علم کو دنیا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔''
''مگر کیسے؟۔۔۔۔'' حامد نے سوال اٹھایا ۔۔۔ پھر چاروں دوستوں نے بہت سی تجاویز پیش کیں۔
ساجد نے کہا: ''ہمیں فاتح عالم سکندر اعظم کی روح کو بلانا چاہیے تاکہ وہ موجودہ دور کے سب سے بڑے شیطان امریکا کو شکست دے۔''
''چنگیز اور ہلاکو خان کی روحوں کو بھی تاکہ یہ سب مل کر امریکا اور اس کے حواریوں کو مزا چکھائیں۔'' شاہد نے پر جوش انداز میں ساجد کی تجویز کو آگے بڑھایا۔
''مگر ایک مسئلہ ہے!۔۔۔'' حامد نے ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔
''وہ کیا؟۔۔۔۔'' تینوں نے بہ یک وقت پوچھا۔
''سکندر اعظم اور چنگیز خان و ہلاکو نے جو فتوحات حاصل کیں وہ اکیلے تو نہیں حاصل کیں ۔۔۔ ان کے ساتھ ہزاروں لاکھوں کے لشکر تھے ۔۔۔ ان سب کی روحوں کو بھی بلانا ہوگا جو تقریباً ناممکن ہے ۔۔'' حامد نے جواب دیا۔
''ہاں!۔۔۔ بات تو معقول ہے تمہاری۔۔۔'' خالد نے کہا
پھر اس سے پہلے کہ بات کچھ اور آگے بڑھتی، کینٹین کے کیشئر کی تیز آواز نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی:
''میاں! ۔۔۔ جب ہمیں ہر چیز مہنگی ملے گی تو بیچیں گے بھی مہنگی ہی ۔۔۔ ہر چیز پر آفت آئی ہوئی ہے ۔۔۔ دودھ ہی کو لو، ہر ہفتے دس دن میں دس بیس روپے بڑھا دیے جاتے ہیں ۔۔۔ حکومت اور انتظامیہ اپنی ڈفلیاں بجاتی رہتی ہیں کہ اتنے میں فروخت ہوگا، اُتنے میں فروخت ہوگا مگر ان کی سنتا ہی کوئی نہیں ۔۔۔ من مانی قیمت وصول کی جاتی ہے ۔۔۔ غریب کا بچہ تو آج دودھ تک کو ترس گیا ہے۔''
''یار کیوں نہ ہم اپنے علم سے لوگوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے کی کوشش کریں ۔۔۔ مثلاً، یہ مہنگے دودھ ہی کا مسئلہ!۔۔۔۔'' ساجد نے کہا اور تینوں کو تائید طلب نظروں سے دیکھا۔
''ہاں ۔۔۔ یہ ہو سکتا ہے!۔۔۔'' شاہد نے تائید کی: ''اور میرے خیال میں ہمیں آغاز اس دودھ کے مسئلے سے کرنا چاہئے۔''
''مگر یہ مسئلہ کون حل کرے گا ۔۔۔ ہمیں بھینسوں کی روحیں بلوانا ہوں گی یا گوالوں کی!؟۔۔۔'' خالد بولا۔
''فرہاد ۔۔۔ شیریں کا عاشقِ صادق فرہاد جس نے اپنے عشق کی سچائی ثابت کرنے کے لیے پہاڑ سے دودھ کی نہر کھود نکالی تھی۔'' شاہد نے جواب دیا: ''ذرا سوچو ۔۔۔ منگھوپیر یا حب کی پہاڑیوں سے دودھ کی ایک نہر جاری ہوجائے تو کیسا رہے؟۔۔۔''
''تجویز تو شان دار ہے!۔۔۔'' خالد نے اسے تعریفی نظر سے دیکھا: ''لوگوں کو دود خالص وافر اور سستا ملے گا ۔۔۔ بیوپاریوں کے دماغ بھی ٹھکانے آجائیں گے۔''
اگلے ہی روز چاروں دوست پڑھائی کے بہانے خالد کے گھر جمع ہوئے ۔۔۔ گھر کی چھت پر بنے واحد کمرے کی کھڑکی دروازے بند کرکے، ان پر دبیز پردے ڈال دیے گئے اور روشنی بجھا دی گئی ۔۔۔ روح کو بلوانے کا عمل چاروں دوست چار حصوں میں باری باری پڑھا کرتے تھے، اس کے بعد یک زبان ہو کر، سرگوشی کے انداز میں جس کی روح کو طلب کرنا ہوتا، اس کا نام لے کر کہتے:
''اے فلاں کی روح، حاضر ہو ۔۔۔۔ اے فلاں کی روح حاضر ہو ۔۔۔'' اور اس وقت تک کہتے رہتے جب تک روح کے آنے کے آثار نمایاں نہ ہوجاتے۔ چاروں دوست عمل پڑھ چکنے کے بعد بہ یک زبان کہہ رہے تھے:
''اے روحِ فرہاد ۔۔۔۔۔ اے شیریں کے عاشقِ صادق، فرہاد کی روح حاضر ہو ۔۔۔ پہاڑوں کھود کر جوئے شیر نکالنے والے فرہاد کی روح حاضر ہو!۔۔۔''
کچھ ہی دیر میں کمرے میں دھواں پھیلنے لگا جس نے دیکھتے دیکھتے انسانی ہیولے کی شکل اختیار کر لی ۔۔۔ اور اب ۔۔۔ ایک شخص ان کے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔ بوسیدہ لباس، سر اور داڑھی کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے ۔۔۔۔ آنکھوں میں وحشت ۔۔۔ اچانک وہ چلایا ''شیریں ۔۔۔ شیریں ۔۔۔ میری حیات ۔۔۔ میری روح ۔۔۔ شیریں تم کہاں ہو: ۔۔۔۔ کہاں ہو تم! ۔۔۔'' یہ فرہاد کی روح تھی۔
چاروں دوست گھبرا گئے ۔۔۔ ''خاموش، خاموش!۔۔۔'' حامد نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے تیز سرگوشی کی: ''کیا کرتے ہو ۔۔۔ باہر تمہارے اور شیریں کے پیار کے دشمن موجود ہیں ۔۔۔ تمہاری آواز سن لی انہوں نے تو مشکل ہوجائے گی ۔۔۔ ہم نے تمہیں شیریں سے بلوانے کے لیے ہی تو بلوایا ہے ۔۔۔ چیخ چلا کر کام خراب مت کرو۔۔۔''
روحِ فرہاد نے چونک کر انہیں دیکھا اور دھیمی آواز میں بولی:
آچ ۔۔۔ چھا ۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔ مَم ۔۔۔۔ میں نہیں چیخوں گا اب ۔۔۔ مگر میری شیریں ہے کہاں ۔۔۔۔ اور تم لوگ کون ہو؟۔۔۔''
''ہم تمہارے دوست ہیں ۔۔۔ تمہیں شیریں سے ملوانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے جیسا ہم کہیں تمہیں ویسا ہی کرنا پڑے گا ۔۔۔'' خالد نے کہا۔
''ٹٹ ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔ میں تمہاری ہر بات مانوں گا ۔۔۔ اپنی شیریں کے لیے پہلے بھی قربانیاںدی ہیں، اب بھی دوں گا۔۔۔''
''تو چلو ہمارے ساتھ۔۔۔'' خالد نے کہا: ''ہم تمہیں پہاڑ پر لے چلتے ہیں، جہاں سے تمہیں دودھ کی نہر نکالنی ہوگی ۔۔۔ پھر شیریں تمہاری۔۔۔''
٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭
حامد نے آج کے لیے اپنے ابو سے کار مانگ لی تھی جس کی ڈگی میں ایک کدال موجود تھی ۔۔۔ چاروں دوست فرہاد کی روح کو لے کر نکلے ۔۔۔ اور ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ اس پر جیسے دورہ پڑ گیا:
''شیریں ۔۔۔۔ میری شیریں ۔۔۔ وہ رہا شیریں کا قصر ۔۔۔ خدارا مجھے اس کے پاس جانے دو ۔۔۔ نہیں تو ایک جھلک ہی دکھا دو کہ دلِ بے قرار کو قرار آئے۔۔۔''
چاروں دوست بوکھلا گئے ۔۔۔ انہوں نے دیکھا کہ سامنے ایک دکان پر ''قصر شیریں'' کا خوب صورت بورڈ آویزاں تھا۔ حامد نے کہا:
''دیکھو دوست! ۔۔۔ تم یوں چیخ چلّا کر اپنا کام خراب کرلو گے ۔۔۔۔ سامنے شیریں کا محل ہے ۔۔۔ وہاں کسی نے سن لیا تو مصیبت کھڑی ہوجائے گی ۔۔۔ بہتر ہے پہلے اپنا کام انجام دے لو ۔۔۔ ہم یقین دلاتے ہیں شیریں ہمیشہ کے لیے تمہاری ہوجائے گی۔۔۔''
''آہ! ۔۔۔ کاش تمہاری بات درست ہو ۔۔۔ میں کام خراب کرنا نہیں چاہتا مگر اس دل کا کیا کروں جو قابو میں نہیں رہتا ۔۔۔ خیر، اب ہمیں مزید کتنی دور جانا ہے۔۔۔''
''بس کچھ یہ دیر میں وہاں پہنچ جائیں گے۔۔۔'' شاہد نے جواب دیا ۔۔۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد وہ وہاں پہنچ گئے ۔۔۔ گاڑی منگھوپیر کے پہاڑی سلسلے کے قریب روک دی گئی ۔۔۔ حامد نے ڈگی سے کدال نکال لی ۔۔۔ باقی دوست فرہاد کی روح کے ساتھ گاڑی سے باہر آگئے ۔۔۔ حامد نے کدال فرہاد کی روح کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
''لو ۔۔۔۔ اس سامنے والی پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور کھدائی شروع کر دو ۔۔۔ اِدھر کام ختم ہو گا ۔۔۔ اُدھر شیریں تمہاری ہوجائے گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔''
فرہاد کی روح پہاڑی پر جا چڑھی اور ''شیریں میری شیریں'' کا نعرہ بلند کرکے ضرب لگائی، چاروں دوست کچھ دور کھڑے اسے کام کرتے دیکھتے رہے ۔۔۔ پھر مطمئن ہو کر لوٹ گئے۔
٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭
پہاڑی کے پیچھے مقامی افراد کے بھینسوں کے باڑے تھے۔ یہ لوگ بڑے پیمانے پر دودھ کا کاروبار کرتے تھے۔ ان میں سے ایک شخص کی نظر پہاڑی پر کھدائی کرتے فرہاد پر پڑی تو حیران رہ گیا ۔۔۔ کچھ دیر منہ پھاڑے دیکھا کیا پھر چیختا چلاتا ایک طرف دوڑتا چلا گیا ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد بہت سے لوگ پہاڑ کے نیچے کھڑے حیرت سے فرہاد کو دیکھ رہے تھے جو ہر طرف سے بے نیاز شیریں شیریں کا نعرہ بلند کرتا تیشے سے چٹانوں پر ضربیں لگا رہا تھا۔
''اڑے کاسو!۔۔۔ یہ سوپی (صوفی) لوک کون اے ۔۔۔ ادِر کیا کرتا پڑا اے ۔۔۔'' ایک شخص نے اپنے برابر کھڑے دوسرے شخص کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
''اپن کو تو کوئی چَریا مالوم پڑتا اے ۔۔۔ اس کا بال مال کپڑا مپڑا نئیں دیکتا اے ۔۔۔ مگر یہ آیا کدر سے پہلے تو کبی نئیں دکھائی پڑا اے ۔۔۔'' کاسو کے نام سے مخاطب کیے گئے شخص نے جواب دیا۔
''چلو ڑے ۔۔۔ اوپر چل کے دیکتا اے ۔۔۔ یہ چریا کیا کرتا پڑا اے۔۔۔'' ایک اور شخص بولا: پھر کئی لوگ پہاڑی پر جا پہنچے مگر روحِ فرہاد نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔۔۔ وہ بدستور چٹان پر ضربیں لگا رہی تھی۔
''اڑے سوپی صاب ۔۔۔اے سوپی صاب ۔۔۔ تم لوک کون اے ۔۔۔ یہ کیا کرتا پڑا اے ۔۔۔۔'' ایک آدمی نے آگے بڑھ کے پوچھا۔
''عاشقِ شیریں ۔۔۔ فرہاد ۔۔۔ وصالِ محبوب کی خاطر تیشہ اٹھایا ہے ۔۔۔ جوئے شیر نکالنا چاہتا ہوں ان چٹانوں سے کہ اپنی محبت ۔۔۔ اپنی شیریں کو پاسکوں۔۔۔'' روحِ فرہاد نے بدستور تیشہ چلاتے ہوئے جواب دیا۔ مقامی لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔۔۔۔ روحِ فرہاد کی کوئی بات ان کے پلّے نہ پڑی تھی۔
''اڑے توڑا آسان اردو بولو ۔۔۔ اَم لوک مولبی پاضل نئیں اے ۔۔۔ تم لوک کا بات امارا کوپڑی میں نئیں پڑتا اے۔۔۔'' ایک نے کہا۔
''میں شیریں کا عاشق فرہاد ہوں ۔۔۔۔۔ یہاں سے دودھ کی نہر نکالنا چاہتا ہوں کہ شیریں تک میرے پہنچنے کی یہی شرط لگائی گئی ہے۔۔۔'' روحِ فرہاد نے جواب دیا۔
''دودھ کا نہر ۔۔۔۔ ادِر پہاڑ سے!۔۔۔'' ایک ادھیڑ عمر شخص نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا: ''اڑے تم تو واکعی میں چریا اے ۔۔۔ ادِر زمین سے پانی نئیں نکلتا اے تم پہاڑ سے دودھ نکالنے کا بات کرتا اے۔۔۔۔ وا ڑے وا۔۔۔''
''عشق سچا ہو اور لگن پکی تو کوئی بات ناممکن نہیں ہوتی ۔۔۔۔ میں پہلے بھی ایران کے ''بے ستون'' پہاڑ سے دودھ کی نہر نکال چکا ہوں مگر اُس وقت کے بادشاہ خسرو پرویز نے وعدہ وفا نہ کیا اور مجھے شیریں سے نہیں ملایا ۔۔۔ جدا کر دیا ۔۔۔ مگر ان نوجوانوں پر میرا یقین ہے کہ وعدہ خلافی نہیں کریں گے ۔۔۔ مجھے میری شیریں سے ملوادیں گے۔۔۔۔''
''اڑے دَادَل سُنا تم!۔۔۔'' اس ادھیڑ عمر شخص نے برابر کھڑے شخص کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔ ''اڑے یہ سوپی صاحب نے سچی مچی دودھ کا نہر نکال دیا تو ام لوک کا تو ٹیپا ہوجائیں گا ۔۔۔ پھر ام لوک سے کون دودھ خریدیں گا ۔۔۔ آں ۔۔۔۔ یہ تو بڑا خطرناک بات اے ۔۔۔ چلو ادّا کو بتاوے۔۔۔'' اس نے اپنی بات ختم کرکے وہاں موجود لوگوں کو نیچے چلنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ سب پہاڑی سے اترنے لگے۔
٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭
ایک بڑے سے نیم پختہ ہال میں دریوں کا فرش بچھا تھا ۔۔۔ جس کے ایک حصے پر چاندیاں تھیں اور گاؤ تکیے رکھے تھے ۔۔۔ چڑھی ہوئی داڑھی مونچھوں اور بڑی سی پگڑی والا لمبا چوڑا شخص ہال میں داخل ہوا، اس کے پیچھے اور بہت سے لوگ بھی تھے ۔۔۔ جب سب لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو ایک شخص نے بات شروع کی اور حاضرین کو فرہاد کے پہاڑ کھودنے اور دودھ کی نہر نکالنے کے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے صورت حال سے نمٹنے کے لیے تجاویز طلب کیں۔ بہت سی تجویزیں سامنے آئیں اور پھر ایک بات پر اتفاق ہوگیا کہ فرہاد چوںکہ کسی شیریں سے ملنے کے لیے نہر کھود رہا ہے اس لیے کسی طرح اگر اسے شیریں سے ملوا دیا جائے تو وہ ضرور اپنے ارادے سے باز آجائے گا اور دودھ کی نہر نکالنے سے دودھ کا کاروبار کرنے والے ان لوگوں کو ممکنہ خطرے سے نجات مل جائے گی۔
٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔۔ ٭
چڑھی ہوئی داڑھی مونچھوں والے شخص کی قیادت میں، جو یقیناً ان لوگوں کا سردار تھا، کچھ لوگ دوبارہ پہاڑی پر پہنچے ۔۔۔۔ روحِ فرہاد اسی طرح کھدائی میں مصروف تھی اور اچھی خاصی کھدائی ہوچکی تھی۔
''سلاما لیکم سوپی صاب ۔۔۔۔'' سردار نے قریب پہنچ کر بھاری آواز میں اسے مخاطب کیا ۔۔۔ ''ابی ام لوک آپ سے کچھ بات کرنا مانگتا اے ۔۔۔ توڑا کام روکو!۔۔۔ بات سنو تو میربانی اوئیں گا آپ کا۔۔۔!''
''تم لوگوں کو جو کہنا ہے ۔۔۔ کہو ۔۔۔ میں ہمہ تن گوش ہوں ۔۔۔ مگر کام روکنے کا نہ کہو ۔۔۔ یہ ممکن نہیں تاآنکہ جوئے شیر جاری ہوجائے!۔۔۔۔'' فرہاد نے بدستور تیشہ چلاتے ہوئے کہا۔
''اچّا اچّا ۔۔۔ تم کام جاری رکو ۔۔۔۔ مگر ام لوک، تم سے یہ بولنے کا واسطہ آیا اے کہ اَم لوک تم کو اس کام کا بغیر ۔۔۔ تمارا شیریں باجی سے ملادیوے تو!۔۔۔'' سردار نے کہا اور بات پوری نہ ہوئی تھی کہ فریاد دہاڑا:
''کیا بکتے ہو ۔۔۔ شیریں میری باجی نہیں ۔۔۔ محبوبہ ہے ۔۔۔ مَم ۔۔۔ مگر یہ کیا کہا تم نے!؟ ۔۔۔ تم مجھے شیریں سے ملوا سکتے ہو! ۔۔۔۔۔ مَم ۔۔۔ مگر کیسے؟ ۔۔۔ نن نہیں ۔۔۔ تم مجھے دھوکا دینا چاہتے ہو ۔۔۔'' فرہاد نے ایک لمحے کو کام روکا تھا مگر فوراً ہی دوبارہ تیشہ چلانے لگا ۔۔۔ ''چلے جاؤ یہاں سے، مجھے پریشان نہ کرو ۔۔۔ جاؤ ۔۔۔ چلے جاؤ!۔۔۔''
''اَم لوک، آپ کو دوکا موکا نئیں دیتا اے ۔۔۔ امارا یکین کرو ۔۔۔۔ اَم آپ کو ضرور شیریں سے ملوائیں گا ۔۔۔ بس آپ اَم کو اُس کا پتا بتاؤ، پِر دیکو!۔۔۔''
سردار کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی جس نے فرہاد کو چونکا دیا۔ اس ے تیشہ روک دیا اور کہا:
''مجھے تمہاری بات سے سچائی کی بو آرہی ہے ۔۔۔ نہ جانے کیوں یقین سا ہو رہا ہے کہ تم مجھے دھوکا نہیں دو گے۔۔۔''
''ہاں آں!۔۔۔'' سردار نے اپنے بڑا سا سر ہلاتے ہوئے کہا: ''اَم لوک جوٹ مُوٹ نیئں بولتا اے ۔۔۔ ام جان دیتا اے، بات سے نیئں پِرتا اے ۔۔۔ آزما کے دیکو۔۔۔''
''ٹھیک ہے ۔۔۔ میں تم پر اعتبار کرتا ہوں ۔۔۔ فرہاد نے تیشہ ایک طرف اچھالتے ہوئے کہا: ''میں نے کام روک دیا ۔۔۔ چلو، مجھے میری شیریں کے پاس لے چلو!۔۔۔''
''آں ۔۔۔ چلو ۔۔۔ اَم لوک کو بتاؤ ۔۔۔۔ کِدر اے اس کا گھر ۔۔۔۔ ابی، دو مِلٹ میں پہنچائیں گا تم کو اُدر۔۔۔''
''گھر نہیں ۔۔۔۔ قصر ہے قصر ۔۔۔ جس میں وہ رہتی ہے۔۔۔'' فرہاد کے لہجے میں ہلکا سا تفاخر تھا: ''قصرِ شیریں نام ہے اُس محل کا ۔۔۔۔ مم۔۔۔۔ مجھے علاقے کا نام معلوم نہیں ۔۔۔ البتہ راستہ ذہن میں ہے ۔۔۔۔ میرا خیال ہے میں تمہیں وہاں تک لے جاسکتا ہوں ۔۔۔ اور پھر میرا عشق بھی تو ہے جو میری راہ نمائی کرے گا۔۔۔''
وہ سب نیچے اترے ۔۔۔۔ سردار نے فرہاد کو اپنے ساتھ جیپ میں بٹھایا ۔۔۔ دو تین گاڑیوں میں اور لوگ بھی سوار ہوئے ۔۔۔۔ اور قافلہ چل پڑا ؛؛؛ فرہاد ان کی راہ نمائی کرتا رہا ۔۔۔ شام ہوگئی تھی ۔۔۔ وہ ایک خوب صورت، روشنیوں سے جگمگاتے علاقے میں پہنچے ۔۔۔ فرہاد کی نظریں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیں ۔۔۔ اچانک وہ چیخ اٹھا:
''وہ ۔۔۔ وہ رہا قصرِ شیریں ۔۔۔ میری شیریں کا دولت کدہ ۔۔۔ یہی ہے وہ محل جس میں میری جان، میری حیات رہتی ہے ۔۔۔ مجھے وہاں لے چلو!۔۔۔۔''
''کِدر! ۔۔۔'' سردار نے چونک کر اس طرف دیکھا جدھر فرہاد اشارے کر رہا تھا ۔۔۔ پھر اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور کہا: ''اڑے تم تو واکعی میں چَریا اے ۔۔۔ ام لوک کو ہرو بھرو پریشان کیا ۔۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔۔ اڑے ۔۔۔ وہ شیریں میریں کا محل نیئں اے ۔۔۔ مِٹائی کا دکان اے مٹائی کا دکان ۔۔۔ کیا سمجا!۔۔۔''
''کک ۔۔۔۔ کیا ۔۔۔ مَم مٹھائی کی دَد ۔۔۔ دکان!؟ روحِ فرہاد نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔۔۔ ساتھ ہی ایک دل دوز آہ بھری۔ ''ہائے پھر دھوکا:'' اور غائب ہو گئی۔
''اڑے یہ چَریا کِدر گم ہو گیا؟ ۔۔۔۔'' سردار نے بوکھلا کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔۔۔۔ پھر وہ سب حیران حیران اپنے گاؤں لوٹ گئے۔''