انسان کی مذہب سے وابستگی ضروری کیوں ہے
مذہب انسان کی اس داخلی کیفیت کو تقویت دیتا ہے، یہ داخلی کیفیت آدمی کو اندر سے بااصول بناتی ہے
کہا جاتا ہے کہ امریکا جب یورپ کے قبضے سے آزاد ہوا، اس وقت ایک امریکی شہری اپنے گھر سے باہر نکلا وہ اپنی آزادی کا جشن منانا چاہتا تھا وہ ایک سڑک پر اپنے دونوں ہاتھ ہلاتا ہوا بے فکری کے ساتھ چل رہا تھا، اسی اثنا میں اس کا ایک ہاتھ ساتھ چلنے والے شخص کی ناک سے ٹکرا گیا، اس شخص کو غصہ آگیا اس نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ '' تم نے کیوں اپنے ہاتھ سے میری ناک پر مارا۔'' امریکی شہری نے جواب دیا۔''آج امریکا آزاد ہے میں آزاد ہوں میں جو چاہوں کروں'' اس شخص نے کہا '' میرے بھائی تمہاری آزادی، وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔'' یہ قصہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے درمیان تعلق کے اصول کو درست طور پر بیان کرتا ہے۔
اگر اسی اصول کو مذہبی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بقول ایک مسلم دانشور '' انسان کی آزادی کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں خدا تعالیٰ کی حد شروع ہوتی ہے۔'' انسان جب مذہب سے وابستہ ہو جائے تو اسے اسی اصول پرکاربند رہنا ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ انسان کی مذہب سے وابستگی کیوں ضروری ہے۔ ہر انسان جو اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے جب وہ شعورکی منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے ذہن میں اپنی زندگی سے متعلق مختلف سوالات جنم لیتے ہیں۔ مثلاً میں کون ہوں، یہ کائنات کیا ہے،اس کائنات کو بنانے والا کون ہے،اس کائنات کو بنانے کا مقصد کیا ہے، وہ دنیا میں کیوں آیا ہے، اس کی زندگی کا مقصد حیات کیا ہے، موت سے پہلے اس دنیا میں کیا تھا، موت کے بعد کیا ہوگا، کامیاب کون ہے اور ناکام کون ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کو حقیقت کی تلاش کا نام دیا جاتا ہے۔ انسان نے ان سوالات کا جواب سب سے پہلے فلسفہ کے ذریعے تلاش کیا مگر ہزاروں سال تک بڑے بڑے فلاسفر اس کا واضح جواب نہ دے سکے، یہ سوالات اختلافی بحث و مباحثے کا علم بن کر رہ گئے۔
پھر سائنس نے ترقی کی، سائنس کے ذریعے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ سائنس کو بھی اس میں ناکامی ہوئی نتیجے میں سائنس دانوں نے تلاش اور جستجو کے دائرے کو مادی چیزوں کی تخلیق تک خود کو محدود کر لیا۔
مذہب ان تمام سوالات کا جواب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبیوں کے ذریعے آسمانی وحی اورکتابوں کی صورت میں نسل انسانی کی ہدایات کے لیے نازل ہوئے، یوں مذہب انسان کو انسانی تخلیق کا راز بتاتا ہے اور انسان کو زندگی کا صحیح فلسفہ حیات دیتا ہے اور انسان کو فکری انتشار سے محفوظ کرکے اس کی زندگی کو معنی عطا کرتا ہے۔ خداتعالیٰ نے ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر صحیح اور غلط کی ایک کسوٹی رکھی ہوئی ہے ہر آدمی فطری شعورکے تحت جان سکتا ہے کہ کون سا عمل درست ہے اور کون سا عمل غلط ہے۔ ہر آدمی اپنی فطری آواز جسے ضمیرکا نام دیا جاتا ہے اس کے ذریعے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
مذہب انسان کی اس داخلی کیفیت کو تقویت دیتا ہے، یہ داخلی کیفیت آدمی کو اندر سے بااصول بناتی ہے، اس میں اعلیٰ صفات جنم لیتی ہیں، اس طرح انسان ایک اچھا شہری بن جاتا ہے، اس کے نتیجے میں ایک صحت مند اور مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
فرض کریں ایک شخص دنیا کے کسی حصے میں حادثے کا شکار ہو جاتا ہے وہ ویران سڑک پر زخمی حالت میں پڑا ہے، اگر کوئی شخص وہاں سے گزرا اور اس نے زخمی شخص کی مدد نہیں کی تو دنیا کا کوئی قانون اس کو مجرم اور سزاوار قرار نہیں دے گا لیکن کسی بھی مذہب کا پیروکارکا گزر وہاں سے ہوگا تو اگر اس شخص نے اس کی مدد نہیں کی تو وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کی رو سے گنہگار اور مجرم تصورکیا جائے گا، اس لیے وہ اپنے ضمیر کی آواز پر اس شخص کی لازمی مدد کرے گا۔
مذہبی انسان یہ بات جانتا ہے کہ انسان کو بنانے والے نے اس کائنات کو ایک خاص مقصد اور منصوبے کے تحت بنایا ہے وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں ایک آزمائشی مدت سے گزار کر اس کے عمل کے مطابق اس کو جزا اور سزا دی جائے۔ اچھے عمل کی بدولت جنت عطا کی جائے اور برے اعمال کی صورت میں اسے جہنم میں دھکیل دیا جائے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے دنیا کے حالات اس طرح بنائے کہ یہاں کا ہرجُز انسان کے لیے ایک ٹیسٹ پیپرکی حیثیت رکھتا ہے اور انسان کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اس میں جو اعمال ہوں گے اس کے مطابق اگلی زندگی کا فیصلہ ہوگا۔
موجودہ دور میں مادیت ہی سب کچھ ہے، نظریے کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں انسان کا مذہب سے تعلق کمزور ہو رہا ہے۔ مذہب سے تعلق کمزور ہونے کے نتیجے میں منفی قدریں فروغ پا رہی ہیں۔ موجودہ دور میں انسان حرص، حسد اور لالچ کا پجاری بن گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ظلم، استحصال اور بے سکونی کے دلدل میں انسان اترتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہو جاتا ہے کہ عوام الناس کو دین کے فلسفہ حیات سے روشناس کرا کے اس کے مذہب سے تعلق کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ایک مثالی معاشرہ تشکیل پا سکے۔
بدقسمتی سے جب میں سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارے سوشل میڈیا کے نام نہاد مذہبی رہنما اور دانشور حضرات اسلامی تاریخ کے قدیم واقعات، مسلکی بحث، جزوی اور سطحی مسائل پر بحث و مباحثہ اور مناظرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان مسائل کا انسانی زندگی سے نہ کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں بارگاہ الٰہی میں انسان سے کوئی سوال کیا جائے گا۔ ان کے اس عمل کی بدولت معاشرہ کی اصلاح کے بجائے فکری انتشارکو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ ان بقراطوں کو مسلمانوں اور انسانیت کو درپیش حقیقی مسائل کا نہ کوئی ادراک ہے اور نہ ہی اس کا کوئی شعور، وہ ان بے مقصد سرگرمیوں پر اپنی توانائیاں ضایع کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں حقیقی علما کرام پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میدان عمل میں آئیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت اور میدان کو نظرانداز نہ کریں اور اس کے ذریعے عوام کی رہنمائی کریں اسی میں ہماری فلاح کا راز ہے۔