بجلی کے مسائل کا مستقل حل ناگزیر

بجلی مہنگی تو ہورہی ہے لیکن لوڈشیڈنگ کا بھی خاتمہ نہیں ہوپارہا ہے


مہنگی بجلی اور بجلی کی کمی کے مسائل کو مستقل طور پر حل کرنا ضروری ہے۔ (فوٹو: فائل)

وطن عزیز پاکستان میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں انتہائی اضافہ اور ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، جس کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہوچکا ہے مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی اور یہ بحران مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔


ملک کی زیادہ تر بجلی کی پیداوار درآمدی تیل اور گیس پر منحصر ہے، جو عالمی منڈیوں میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح تھرمل بجلی مقامی کوئلے کے ذخائر کے بجائے درآمدی کوئلے پر انحصار کرتی ہے، جو مہنگی ہوتی ہے۔ سولر، ونڈ، اور ہائیڈرو پاور میں ناکافی سرمایہ کاری کی وجہ سے قابل تجدید توانائی کے وسائل کا مکمل استعمال نہیں ہورہا۔ قابل تجدید توانائی کے فروغ کےلیے پالیسیوں، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا پرانا اور ناکارہ نظام، بجلی کے ترسیلی اور تقسیم کار نظام کی مرمت اور دیکھ بھال کےلیے فنڈز کی کمی، تکنیکی ماہرین کی کمی کی وجہ سے مرمت اور دیکھ بھال میں تاخیر، بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے کا مسئلہ بجلی کے موجودہ بحران کی اہم وجوہات ہیں۔


حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی کے غیر مؤثر استعمال کی وجہ سے مستحق افراد کو صحیح فائدہ نہیں پہنچتا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے ہائیڈرو پاور جنریشن میں مشکلات اور نئے ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر بھی اس بحران میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔


پاکستان میں مہنگی بجلی اور بجلی کی کمی کے مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے کےلیے مختلف پہلوؤں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس کا سب سے بہترین حل سولر پاور پلانٹس ہے۔ پاکستان میں سالانہ 2500 سے 3000 گھنٹے دھوپ دستیاب ہے، جو سولر پاور جنریشن کےلیے انتہائی موزوں ہے۔ بڑے پیمانے پر سولر پاور پلانٹس کا قیام اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔ گھروں، دفاتر اور صنعتی عمارتوں کی چھتوں پر سولر پینلز نصب کرکے توانائی کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے سبسڈیز اور آسان اقساط پر قرض فراہم کیے جائیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے سولر پینلز پر ٹیکس لگانے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔


ونڈ پاور بھی بجلی پیدا کرنے کےلیے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ہوا کی رفتار 7.5 میٹر فی سیکنڈ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہاں بڑے ونڈ فارم تعمیر کرکے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ونڈ ٹربائنز اور دیگر ضروری آلات کی مقامی صنعت کے قیام سے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کےلیے بڑے ڈیموں کی تعمیر، جیسے بھاشا ڈیم، سے نہ صرف بجلی پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ پانی کی ذخیرہ کاری کے مسئلے کا بھی حل نکالا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں جب بارشیں نہیں ہوتیں تو پانی کی شدید کمی ہوجاتی ہے لیکن جب بارشیں شروع ہوجاتی ہیں تو سیلاب کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کا بہترین حل بھی ڈیموں کی تعمیر میں مضمر ہے، جب بارشیں زیادہ ہوں تو اس پانی کو ڈیموں میں ذخیرہ کرلیا جائے پھر جب بارشوں کی کمی کی وجہ سے پانی کی قلت ہوجائے تو ڈیموں کا پانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔


چھوٹے پیمانے کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں بجلی کی فراہمی کےلیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میں دو طرح کے پروجیکٹس ہوسکتے ہیں، ایک منی ہائیڈرو پروجیکٹ جو 100 سے 10 میگاواٹ تک کی بجلی پیدا کرتا ہے۔ یہ پروجیکٹس عام طور پر چھوٹے دریاؤں یا نہروں پر بنائے جاتے ہیں اور مقامی آبادی کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ دوسری طرح کے پروجیکٹس مائیکرو ہائیڈرو پروجیکٹس ہیں جو 5 کلو واٹ سے 100 کلو واٹ تک کی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ پروجیکٹس عموماً گاؤں، دور دراز بستیوں یا پہاڑی علاقوں میں نصب کیے جاتے ہیں اور ایک چھوٹے علاقے کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ ان کے کئی فوائد ہیں، ایک تو یہ کاربن کا اخراج نہایت کم کرتے ہیں جس سے ماحول کی آلودگی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، اسی طرح پانی کے قدرتی بہاؤ کو متاثر کیے بغیر بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ کم لاگت پروجیکٹس ہوتے ہیں اور مقامی آبادی کےلیے روزگار کا بھی ذرہعہ بنتے ہیں۔


حکومت کی جانب سے انرجی ایفیشینسی اسٹینڈرڈز متعارف کروائے جائیں اور عوام کو کم توانائی خرچ کرنے والے آلات خریدنے پر راغب کیا جائے۔ نیز توانائی بچانے والے آلات پر سبسڈی فراہم کی جائے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ ہوتا ہے کہ عوام کو سولر پاور کی طرف راغب کرکے ان کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں یا ان پر ٹیکس لگانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ طریقے مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ میڈیا، تعلیمی اداروں، اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے توانائی کی بچت کے طریقوں کے بارے میں آگاہی مہم چلائی جائے۔ عوام کو اتنے زیادہ بل موصول ہورہے ہیں کہ وہ ہر طرح کے بچت کے طریقوں کو اختیار کرنے کےلیے تیار ہیں، لیکن حکومت اس کےلیے سنجیدہ تو ہو۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں