حادثے گزر جاتے ہیں لیکن۔۔۔
سات نمبر ناظم آباد کے پل سے نیچے اتر کر جب میں انو بھائی پارک کی طرف آتی ہوں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے
سات نمبر ناظم آباد کے پل سے نیچے اتر کر جب میں انو بھائی پارک کی طرف آتی ہوں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سڑک کو سگنل فری کرکے ہمارے لیے آسانی کا سامان فراہم کردیا گیا ہے۔ اب یہاں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر نہیں آتی ہیں۔ سڑک کے ایک جانب عباسی اسپتال اور دوسری جانب A.O کلینک اور ایک بڑا خریداری کا اسٹور ہے۔ سگنل فری ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں تیزی ہوتی ہے لیکن ٹریفک جھٹکے کے ساتھ اچانک رک جاتا ہے اور پوزیشن سگنل والی ہی ہوجاتی ہے۔ کچھ یہی صورتحال پل کی دوسری جانب ہوتی ہے۔
کٹ ختم ہونے کی وجہ سے حادثات کے خطرات ضرور کم ہوئے ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے۔ مسئلہ پیدل مسافروں کا ہے۔ عباسی اسپتال، A.O کلینک، جناح یونیورسٹی اور قریب ہی دیگر تعلیمی ادارے بینک میٹرک بورڈ، اسٹورز حنیف اسپتال، جی ہاں پل کے دونوں جانب مسافروں کا رش۔ صاحب اس قدر مصروف جگہ پر سڑک کی کراسنگ بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے پیدل مسافروں کے لیے سڑک پار کرنے کے لیے یا دوسری جانب جانے کے لیے پل کی دونوں جانب سڑک پار کرنے کے پل ہونے چاہئیں، تاکہ انھیں اپنی جان خطرے میں ڈال کر سڑک کراسنگ کے تکلیف دہ عمل سے نہ گزرنا پڑے۔
گاڑیوں کے درمیان سے جب مسافر پیدل سڑک کراس کرتے ہیں یا گزرتے ہیں تو گاڑیوں کے آگے پیچھے اچانک رکنے سے اور رفتار کو کنٹرول کرنے کے درمیان تصادم کا خطرہ ہوتا ہے اور گاڑیاں و اسکوٹر آپس میں ٹکرا سکتے ہیں۔ تنہا مسافر یا زیادہ وقفے وقفے سے سڑک کراس کرتے ہیں تو پورا ٹریفک رکنے لگتا ہے اور رش کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ اچانک مسافر کے سڑک پر آجانے سے کسی تیز رفتار گاڑی سے ٹکرانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ گاڑیوں اور مسافروں دونوں ہی کے لیے یہ صورت حال سنگین ہے۔ حادثے ہمیشہ خطرناک ہوتے ہیں اور انسانی اعضا بہت قیمتی ہیں۔
زندگی بھر کا مفلوج پن یا معذوریت پوری زیست کو پریشان کن بنا دیتی ہے، اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔ مہنگائی کے اس دور میں جب کہ غریب کو مفت علاج کی سہولت بھی میسر نہ ہو تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ ہم سب کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے، سڑک کو عبور کرنے سے پہلے مکمل احتیاط ضروری ہے اور روانی میں مشکل اس وقت بھی ہوتی ہے جب چنگ چی، چھ سیٹ والے رکشے، بارہ سیٹ والے رکشے یا پھر عام رکشے سڑک کے موڑ پر بے ترتیب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کوئی رکشہ اچانک درمیان میں رک کر مسافروں کو اتارنے لگے اور کرائے کی وصولی میں تاخیر ہو تو بھی پیچھے گاڑیوں کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔
بس اسٹاپ اور زیبرا کراسنگ کا تصور تو ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بس اپنے اسٹاپ کے بجائے جب جہاں چاہے رک جاتی ہے اور ٹریفک کی آمدورفت متاثر ہوتی ہے۔ آمدورفت گاڑیوں کی ہو یا مسافروں کی، دونوں غیر محفوظ ہیں۔ مسافروں کے لیے فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں۔ لیکن فٹ پاتھ پر دکانیں پھیلتی چلی گئی ہیں اور دکانوں کا سامان فٹ پاتھ تک آگیا ہے۔ فٹ پاتھ سے نیچے سڑک پر ٹھیلے آگئے، گاڑیاں آگئیں، پارک کردی گئیں۔ اب سڑک ناپ لیجیے کہ کتنی رہ گئی۔ سڑک پر مسافر اور گاڑیاں دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، کیا کوئی حادثہ ایسی صورت میں متوقع نہیں؟ کیوں نہیں، حادثہ بڑا ہو یا معمولی ہماری زندگیوں میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ چھوٹی سی غلطی عمر بھر کا روگ۔
بچپن میں ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ کیلے کا چھلکا سڑک پر مت پھینکو، پاؤں کسی کا پھسل نہ جائے اور ٹانگ نہ ٹوٹ جائے ہم نے ہمیشہ احتیاط کی لیکن ہمارے نوجوان احتیاط نہیں کرتے، سڑک پر بائیک لیٹ کر چلائیں گے، ایک پہیے پر چلائیں گے، تیز رفتاری سے گاڑیوں کے درمیان Zig Zag (زگ زیگ) لہراتے ہوئے گزاریں گے، سگنل کی سرخ بتی کے باوجود سگنل توڑ کر نکل جائیں گے، ہیلمٹ کا استعمال نہیں کریں گے۔ یہ تمام بے احتیاطی کیا کسی جان لیوا حادثے کا پیش خیمہ نہیں، دوسروں کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی۔
سڑک ہو یا سمندر کی لہریں دونوں خطرناک ہوسکتی ہیں۔ لہروں کا کھیل بھی خطرناک ہوتا ہے۔ بڑے کہتے ہیں کہ آگ اور پانی سے دوستی اچھی نہیں ہوتی ہے۔ پٹرول کے لیے چنگاری کافی ہے۔ بڑے بڑے تیراک بھی اکثر لہروں میں ڈوب جاتے ہیں لیکن ہمارے نوجوان جوانی کے جوش میں سمندر کی طوفانی لہروں کی سفاکیوں کا اندازہ نہیں لگا پاتے۔ آندھی اور بارش کے موسموں میں اکثر بجلی کے تار اور جمع شدہ پانی کھلے مین ہول، زندگیوں کو نگل لیتے ہیں۔ کیا تمام حادثات اتفاقی ہوتے ہیں یا پھر ہماری احتیاط انھیں روک سکتی ہے یا کم کرسکتی ہے۔
مخالف سمت سے آنے والی گاڑیاں اور ٹکراؤ۔ سب جلدی میں ہیں، مصروف ہیں، کسی کے پاس رکنے کا وقت نہیں، کیا تھوڑی سی تاخیر بہتر نہیں بجائے اس کے کہ ہم ہمیشہ کے لیے دوسروں کے محتاج ہوجائیں۔ اﷲ نے ہمیں جو جسمانی اعضا دیے ہیں ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ایک ایک عضو قیمتی ہے اور اصل اعضا کا نعم البدل مصنوعی اعضا کبھی بھی نہیں ہوسکتے۔ نعم البدل تو کوئی بھی کسی کا نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی پیسہ انسانی جان کا اور نہ ہی کوئی رشتہ کسی اور رشتے کا۔ حادثے رشتوں کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ رشتہ ہو یا دل دونوں کا ٹوٹنا دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔
دل تو شیشہ ہے، چٹخ جائے یا کرچی کرچی ہوجائے۔ بہرحال زندگی کا دارومدار اسی دل کی حرکات پر ہے۔ شعرا نے دل اور شیشے کو مماثل قرار دیا ہے۔ اوہ شیشہ، میری گاڑی کے شیشے پر زور دار بال آکر لگی ہے۔ چھٹیاں اور بیچ سڑک پر کھیلتے ہوئے بچے۔ ماں باپ بے فکر، گاڑیوں کی آمدو رفت جاری۔ اگر گیند زور سے کسی کے سر پر لگ جائے یا پھر کسی اور جگہ۔ اگر گیند کے پیچھے بھاگتے بچے گاڑی کی اچانک آمدورفتار کو نظرانداز کرکے گیند کے پیچھے دوڑیں اور بریک بروقت نہ لگ سکے پھر کیا ہوگا؟ حادثہ۔
حادثے بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں خوشگوار و ناخوشگوار دونوں ہی اہم ہیں اور ہمیشہ یادوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ دونوں ہی کا تذکرہ ہم اپنی زندگیوں میں کرتے ہیں۔ حادثے گزر جاتے ہیں لیکن اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو ان حادثوں کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ کاش ہماری زندگیوں میں کوئی بدصورت حادثہ نہ آئے، ناخوشگوار پیش نہ آئے ۔ لیکن اس کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ بڑی پریشانی سے بچنے کے لیے چھوٹی سی کوشش بہتر ہے۔ اس میں ہم سب کی بہتری ہے ورنہ۔۔۔۔!