آڈیٹرجنرل نے اسٹیٹ بینک میں 5 ارب کی کرپشن کی تصدیق کردی

بینکوں نے ترسیلات زر کی ٹرانسیکشنزکو غلط ڈکلیئر کرکے 2012 میں 5ارب 30کروڑ کمائے اوراسٹیٹ بینک بھی ان کو قبول کرتارہا


Express Report June 29, 2014
اسٹیٹ بینک نے فراڈسے کمائی پربینکوں کوکوئی جرمانہ کیا اور نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی عمل میں آئی۔فوٹو: فائل

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کہاہے کہ آڈیٹرجنرل نے اسٹیٹ بینک میں 5ارب کی کرپشن کی تصدیق کردی۔ چیئرمین نیب ملوث افسروں، میگااسکینڈل دبانے پر نیب کے ایف سی آئی ڈبلیو کے خلاف کارروائی کریں۔

پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بینکوں نے ترسیلات زر کی ٹرانسیکشنزکو غلط ڈکلیئر کرکے 2012 میں 5ارب 30کروڑ کمائے اوراسٹیٹ بینک بھی ان غلط کلیمزکو قبول کرتارہا۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ فراڈسے کمائی پربینکوں کوکوئی جرمانہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی عمل میں آئی۔ کچھ بڑے بینک بھی اس غیرقانونی کاروبارمیں ملوث رہے۔ اسٹیٹ بینک کی آڈٹ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ 2011-12 میں انتظامیہ نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقم پر ٹیلی گرافک ٹرانسفر چارجز کے نام پر مختلف بینکوں کو 5ارب 35کروڑ روپے واپس کیے۔ بینکوں نے دھوکادہی سے ایک دن میں ایک شخص کی بھیجی ہوئی رقم کو 100 ڈالرز میں تقسیم کردیا۔تاکہ ہر ٹرانسیکشن پر 25 سعودی ریال کا فائدہ اٹھا سکے۔

18 اپریل 2013 کو معاملہ اسٹیٹ بینک کے نوٹس میں لایا گیا جس پر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ رقم تقسیم کرنے والوں کو سزا دی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل نے 2012 میں یہ میگا کرپشن کیس نیب کو رپورٹ کیا۔ مختلف اوقات میں اس حوالے سے نیب کو 4 خطوط ارسال کیے اوراسٹیٹ بینک سے ریکارڈ مانگا۔ نیب سے خط وکتابت میںاسٹیٹ بینک نے موقف اختیار کیا کہ 7مئی 2012 کے جواب کے بعد ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا مگر یہ موقف حقائق کے منافی ہے۔

30 جولائی 2012کے خط کی کاپی نیب اوراسٹیٹ بینک دونوں کو ارسال کی گئی تھی۔ 41 روز گزر جانے کے باوجوداسٹیٹ بینک کی جانب سے ریکارڈ فراہم نہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور اسٹیٹ بینک نہیں چاہتا کہ نیب معاملے کی تحقیقات کرے۔ ڈی جی نیب(ایف سی آئی ڈبلیو) کوثر اقبال ملک نے بھی معاملہ آگے نہیں بڑھایا۔ 2013-14 کی آڈیٹرجنرل کی رپورٹ نے واضح کردیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے خلاف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کوشکایت درست تھی۔ صرف 2012 میں 5.3 ارب کی کرپشن ہوئی جبکہ گزشتہ 12سال میںقومی خزانے کو 63 ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔ چیئرمین نیب سے درخواست ہے کہ میگا کرپشن اسکینڈل دبانے پر ایف سی آئی ڈبلیو کے خلاف کارروائی کی جائے جبکہ کرپشن میں ملوث اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں کے افسروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں