کیا مسلم لیگ نون نے اپنا بیانیہ چھوڑ دیا

میاں صاحب آج بھی اپنے بیانیے ووٹ کو عزت دو پر قائم و دائم ہیں


Dr Mansoor Norani June 24, 2024
[email protected]

'' ووٹ کو عزت دو'' کا بیانیہ میاں نوازشریف نے کب اپنایا۔ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے ان حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا وجہ تھی کہ میاں صاحب اس بیانیے کو اپنانے پر مجبور ہوئے۔ 2013کے انتخابات کے فوراً بعد جس طرح اُن کی حکومت کے خلاف ایک بہت ہی بڑی منظم سازش کی گئی اور چار حلقے کھولنے کے مطالبے کے ساتھ ملک میں انتشار اور غیر یقینی کا جو طوفان برپا کیا گیا کہ وہ ایک لمحہ بھی چین سے حکومت نہیں کر پائے۔

اُن دنوں ایک طرف بم دھماکوں اور غیر ملکی دہشت گردی کا راج تھا تو دوسری طرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور کراچی میں طویل عرصے سے جاری بد امنی کا سامنا تھا۔ ایسے میں ایک لانگ مارچ اور ڈی چوک پر پارلیمنٹ کی عمارت کے عین سامنے 126 دنوں کا دھرنا ترتیب دیا گیا۔ مقصد حکومت کو گرانا اور کسی دوسرے فریق کو اقتدار سونپنا تھا۔ علامہ طاہر القادری اس مہم کا حصہ بلکہ ہراول دستہ بن گئے۔

اُن کی جذباتی تقریروں نے اس احتجاج کو بہت تقویت بخشی اور خان کا کام آسان ہوگیا۔ خان صاحب اکیلے اس قابل نہیں تھے کہ یہ اتنے طویل دنوں تک عوام کو وہاں ڈیرہ ڈالے رکھنے پر مجبور کرتے۔ یہ سب علامہ طاہر القادری کے مریدوں کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا۔

ایک منتخب حکومت کو زبردستی گرانے کا اور بدلے میں خان کی حکومت قائم کروانے کا ایک گھناؤنا کھیل کھیلا گیا جو بہرحال اس وقت تو کامیاب نہ ہوسکا لیکن کوشش جاری رہیں اور بالآخر 2017 میں پاناما اسکینڈل کو بہانہ بنا کر عدلیہ کی مدد سے یہ کام سر انجام دے دیا گیا۔ اس سارے کھیل میں میاں صاحب کا نقصان تو ہوا ہی لیکن ملک کی معیشت کے لیے بہت ہی ضرر رساں ثابت ہوا اور جو آج تک سنبھلنے نہ پائی۔

منتخب حکومتوں کے خلاف ایسی سازشیں اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ کسی ایک حکومت کو بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ جب جب یہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتا دکھائی دینے لگتا سیاسی اتھل پتھل کے ذریعے وطن عزیز کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر کے معاشی بحران میں مبتلا کردیا جاتا۔ انتخابی سسٹم کو یرغمال کر کے اپنی مرضی کے نتائج مرتب کیے جاتے اور اس طرح عوام کے حق خود ارادیت کو پیروں تلے روند دیا جاتا۔ میاں صاحب نے اسی کو دیکھتے ہوئے '' ووٹ کو عزت دو '' کا نعرہ بھی لگایا اور اسے ایک پرزور بیانیہ کی شکل بھی دی۔

وہ سات سالوں تک اس پر مضبوطی اور سختی سے ڈٹے بھی رہے لیکن فروری 2024 کے الیکشن کے بعد سے وہ اس بیانیہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب اب اپنے اس بیانیے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ میاں صاحب نے آج بھی اپنا یہ بیانیہ نہیں چھوڑا ہے۔ انھوں نے صرف مزاحمتی سیاست چھوڑی ہے، وہ خاموش ہو کر عملی جدوجہد سے کچھ پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

اسی لیے انھوں نے اپنے لیے چوتھی بار وزارت عظمیٰ کا عہدہ بھی قبول نہیں کیا اور شہباز شریف کو اس عہدے کے لیے نامزد کر دیا۔ اُن کا دل ایسے بہت سے زخموں سے بھرا ہوا ہے جسے یاد کر کے وہ اکثر لوگوں کے سامنے دہراتے بھی رہتے ہیں۔ اُن کے بارے میں ہمارے اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ میاں نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بنی۔ وہ اس خصلت کو نوازشریف کی خرابی گردانتے تھے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ مفاہمتی سیاست اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتی کہ وزیراعظم ایک کٹھ پتلی حکمراں بن کر رہ جائے ۔ یہی شکوہ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی رہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ صرف میاں صاحب کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بنی درست نہیں ہے۔

میاں صاحب آج بھی اپنے بیانیے ووٹ کو عزت دو پر قائم و دائم ہیں۔ 2024کا انتخابی نتیجہ واضح طور پر کسی ایک فریق کے حق میں نہیں آیا۔ دھاندلی کے حوالے سے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں کسی کو بھی کوئی خاص شکایات نہیں ہے۔ یہاں کا نتیجہ حسب توقع ہی ہے۔ رہ گیاKPK اور پنجاب تو ہمیں معلوم ہے کہ PTI کو خیبر پختون خواہ میں دھاندلی ہونے کی کوئی شکایت نہیں ہے ۔ وہاں شکست ہوئی ہے تو مولانا فضل الرحمن کو ہوئی ہے اور وہ اس وقت کھل کر اپنی شکایت بھی درج نہیں کروا رہے ہیں کیونکہ و ہ اس وقت خان صاحب کی محبت کے اسیر ہونے جا رہے ہیں۔

انھیں اپنے پرانے حلیفوں سے شکایت ہے تو یہ ہے کہ وہ کیونکر ماضی کی طرح اُن کے ساتھ ملکر احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔ رہ گیا صرف پنجاب جہاں مسلم لیگ نون کو اکثریت حاصل ہوئی ہے اور جس پر بہت سوں کو اعتراض بھی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو وہاں مسلم لیگ نون کو بھی توقع سے کم ہی نشستیں ملی ہیں اور اس کے اپنے بہت سے نامور رہنما اس الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے ہیں، اگر باقاعدہ کوئی منظم دھاندلی ہوتی تو یہ رہنما شکست سے دوچار ہرگز نہیں ہوتے۔

ہمارے یہاں الیکشن میں ہر ہارنے والے کو شکایات ہوتی ہے۔ 2018 کا الیکشن بھی دھاندلی زدہ تھا۔ ہم آج اس پر اس لیے بات نہیں کرتے کہ وہ پرانا ہوچکا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اسی الیکشن نے اس ملک کا سب سے زیادہ بیڑہ غرق کیا ہے۔ ملک معاشی و اقتصادی طور پر آج جس گرداب میں پھنسا ہوا ہے یہ اسی الیکشن کا شاخسانہ ہے۔ میاں صاحب کو شکایت ہے تو اسی بات کی ہے کہ جب جب یہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے لگتا ہے کوئی شخص نقب لگا کر اسے پٹری سے اتار دیتا ہے۔ دنیا کے کسی اور جمہوری ملک میں شاید ہی ایسا ہو۔ پڑوسی ملک بھارت میں ہی دیکھ لیجیے۔ آج تک وہاں جمہوری معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کی گئی۔

حکومت بنانا اور ہٹانا مکمل طور پر عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے، وہاں نریندر مودی دس سال مسلسل حکومت کرنے کے بعد بھی تیسری دفعہ جیت چکے ہیں۔ کسی نے انتخابی نتائج بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اتنے بڑے ملک میں پرامن انتخابات ہوئے اور نتائج سب نے قبول کر لیے۔ حکومت وقت کی زیر سرپرستی الیکشن ہوئے اور دھاندلی کا کوئی الزام بھی نہیں لگا۔ ہم کب اس مقام پر پہنچیں گے کہ ہمارے یہاں بھی ایسے ہی غیر جانبدارانہ الیکشن ہوں اور منتخب ہونے والی حکومت اپنی آئینی مدت سکون و اطمینان سے پوری کرے۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ حقیقی معنوں میں اسی وقت پورا ہوگا جب ہم بھی یہ مقام حاصل کرلیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں