پاکستان میں مختلف تعلیمی نظام رائج ہیں: ایک، سرکاری نظامِ تعلیم، دوم، کیمبرج اسکولنگ سسٹم، سوم، مدارس کا نظام۔ ان تینوں تعلیمی نظاموں کو دیکھا جائے، تو تینوں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ ان تینوں تعلیمی نظاموں میں امتحانات کا طریقہ بھی یکسر مختلف ہے۔ ساتھ ہی ان کے مضامین بھی الگ الگ ہیں۔ لیکن ایک مضمون جس کی کمی اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں سب سے زیادہ ہوتی ہے، وہ ہے 'عربی زبان' کا نصاب میں شامل نہ ہونا۔
ماضی میں ایک عرصے تک مڈل کلاس تک عربی زبان لازمی پڑھائی جاتی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں نے عربی زبان میں دل چسپی لینا کم کردی، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اسکولوں میں اس مضمون کو ہی ختم کردیا گیا۔ وہ اساتذہ جو صرف عربی زبان ہی پڑھاتے تھے، انھیں یا تو فارغ کردیا گیا یا پھر صرف مضمون 'اسلامیات' پڑھانے تک محدود رکھا۔ اس کا وقتی طور پر اسکولوں کو یہ فائدہ ہوا کہ ان کو دوسرے مضامین پر وقت زیادہ لگانے کا موقع ملا، لیکن اس سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ طلبا عربی زبان سے دور ہوتے چلے گئے۔ یعنی دین اور قرآنِ مجید سے بالکل ناآشنا ہوتے چلے گئے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ عربی زبان پر مزید کام کیا جاتا، اس کو سکھانے کے مختلف 'ٹولز' بنائے جاتے، اسمارٹ ٹیچنگ کے ذریعے زبان دانی کے اصول سکھائے جاتے، ماہرِ لسانیات کو بلایا جاتا۔ ساتھ ہی ورک شاپس بھی کرائی جاتیں تاکہ عربی زبان کو فروغ دیا جاتا۔ لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا اور اسکولوں سے عربی زبان کا نام و نشان بھی مٹادیا گیا۔ اس کا نتیجہ نکلا کہ جو لوگ قرآن فہمی سے جو تھوڑا بہت قریب تھے، وہ مزید دور ہوتے چلے گئے۔ اسکولوں میں اگرچہ عربی زبان تھوڑی بہت ہی پڑھائی جاتی تھی، جس سے یہ فائدہ اتنا ضرور ملتا تھا کہ ایک طالب علم تھوڑا بہت ترجمہ کرنے کے لائق ہوجاتا تھا۔
عربی زبان کے فروغ کےلیے کی گئی کوششیں
اگر ہم ابتدا سے بات کریں تو معاملہ ایسا نہیں تھا کہ عربی زبان کےلیے کوششیں نہ کی گئی ہوں، تاہم! آہستہ آہستہ ایسا محسوس ہوا کہ ان کوششوں کو زنگ لگنا شروع ہوگیا ہو۔ اگر ماضی کی بات کی جائے تو اسلامی نظریاتی کونسل نے مختلف اداروں کی طرف سے عربی بطورِ لازمی زبان کی تعلیم اور ترویج کےلیے تجاویز قبول کیں۔ اسی طرح فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک عربی زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت سے آرڈر دیا۔ عربی زبان کے فروغ کے لیے حکومتِ پنجاب کافی آگے رہی، جہاں ایک سفارش یہ بھی کی گئی تھی کہ ''جماعت اول سے ہی عربی زبان کی تعلیم دی جائے''
مدارس میں عربی زبان کا ہونا
اسی طرح اگر مدارس کو دیکھا جائے تو وہاں عربی زبان لازمی مضمون کی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ مدارس میں جتنے میں بھی مضامین پڑھائے جاتے ہیں، وہ سب کے سب عربی زبان میں ہوتے ہیں، اس لیے طالب علم کو عربی زبان لازمی سیکھنی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی مدرسے کا ماحول بھی اثر ڈالتا ہے، جس سے طلبا عربی زبان باآسانی سیکھ جاتے ہیں۔ لیکن اسکولوں میں ایسا ماحول کہیں نظر نہیں آتا۔
جامعات میں عربی زبان کا نہ ہونا
جامعات کو دیکھا جائے تو ڈگری جماعتوں میں 'اسلامیات' تو لازمی پڑھائی جاتی ہے، لیکن 'عربی زبان' کہیں بھی شامل نہیں۔ البتہ! عربی زبان 'اختیاری مضمون' کے تحت ضرور شامل ہے۔ یعنی جامعات میں طلبا سب کچھ سیکھتے ہیں، لیکن اگر نہیں سیکھتے تو عربی زبان نہیں سیکھتے۔
قومی نصاب میں عربی بطورِ اختیاری مضمون
قومی نصاب کو اگر دیکھا جائے تو موجودہ قومی نصاب میں عربی زبان 'اختیاری' مضمون کے تحت شامل کی گئی ہے۔ یعنی یہ اسلامیات مضمون کی طرح لازمی نہیں بلکہ جو طالب علم عربی زبان سیکھنا چاہتا ہے، وہ مضمون کو لے سکتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں عربی زبان کو، غیر شعوری طور پر ہی سہی، عملی طور پر اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں اور کرتے جارہے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں سوچ رہے کہ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں، اس دین کی کتاب عربی زبان میں ہے، ہمیں وہ ہی سمجھ نہیں آتی صرف اس لیے کہ ہم نے ابھی تک اسے اپنے نصاب میں شامل ہی نہیں کیا۔ ہماری درس گاہوں میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس باآسانی ہوسکتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکے۔ اگر دین کو سمجھنا ہے تو قرآنِ مجید کو سمجھنا ہوگا، اور سمجھنے کےلیے لازمی ہے کہ اس زبان کو سمجھنا ہوگا جس میں وہ نازل ہوئی۔ ہم ایک حد تک تو ترجمے سے کچھ استفادہ تو کرسکتے ہیں، لیکن اصل اسپرٹ اسی وقت آئے گی جب موضوع کو اس کی اصل زبان میں سمجھا جائے گا۔ ہم کب تک ترجمے پر انحصار کرتے رہیں گے؟ قرآن مجید نے عربی زبان کو 'صاف اور واضح' زبان کہا ہے، ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ ترجمہ: ''اے نبی، ہم نے اس کتاب کو تمھاری زبان میں سہل بنادیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرسکیں''۔ اسی طرح ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ترجمہ ''اور اسی طرح ہم نے اسے عربی قرآن نازل کیا ہے اور ہم نے اس میں طرح طرح سے ڈرانے کی باتیں سنائیں تاکہ وہ ڈریں یا ان میں سمجھ پیدا کردے۔''
حکومت عربی زبان کے فروغ کےلیے درج ذیل اقدام اٹھائے تو عربی زبان سے متعلق مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
- پہلی سے بارہویں تک عربی زبان کو نصاب میں 'لازمی مضمون' کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔
- مضمون اسلامیات کی طرح عربی زبان کو بھی لازمی مضمون قرار دیا جائے، تاکہ طلبا دینِ اسلام اور قرآنِ مجید کے قریب ہوسکیں۔
- عربی زبان سکھانے کےلیے جدید ٹولز اپنائے جائیں، تاکہ طلبا دل چسپی کے ساتھ زبان سیکھ سکیں، جیسے کہ انگریزی اور دوسری زبان سکھائی جاتی ہے۔
- اساتذہ جو کہ مدارس سے فارغ التحصیل ہیں اور ساتھ میں عربی زبان کے ماہر بھی ہیں، انھیں نئے ٹولز جیسے کہ 'اے آئی' ، 'سوفٹ ویئرز' اور 'ملٹی میڈیا' وغیرہ کے ساتھ ٹریننگ دی جائے، تاکہ طلبا کمرۂ جماعت میں مزید دل چسپی لے سکیں۔
- اساتذہ کو اتنا ہی مشاہیرہ دیا جائے جتنا کہ دوسری زبان جیسے کہ انگلش اور چینی زبان وغیرہ سکھانے والے اساتذہ کو دیا جاتا ہے۔
عربی زبان ایک زندہ و جاوید زبان ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ عربی زبان کے فروغ کےلیے اپنا کردار ادا کرے تاکہ آنے والے وقتوں میں نوجوان دین اور قرآنِ مجید کے قریب ہوسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔