کوچۂ سخن

وحشت سے بدحواس رہے اور مر گئے<br /> چاہت سے ناشناس رہے اور مر گئے


Arif Aziz June 16, 2024
فوٹو: فائل

غزل
وحشت سے بدحواس رہے اور مر گئے
چاہت سے ناشناس رہے اور مر گئے
ہم نے چکھی تھی شہرتِ ناپائیدار بھی
کچھ دن سخن شناس رہے اور مر گئے
میٹھا سخن تراشنے والے رہے نہیں
کتنے ہی خوش لباس رہے اور مر گئے
جن کو تری نگہ کی توجہ نہ مل سکی
وہ عمر بھر اداس رہے اور مر گئے
تتلی کی طرح رونقِ گلشن تھے ہم بھی دوست
پھولوں کے آس پاس رہے اور مر گئے
احمد ؔہماری بات کو سمجھا نہیں گیا
ہم محوِ التماس رہے اور مر گئے
(احمد حجازی ۔لیاقت پور ،ضلع رحیم یار خان)


غزل
آگہی سے جو سرفراز ہوئے
دین و دنیا سے بے نیاز ہوئے
کوئی غالب،کوئی فراز ہوئے
کیسے کیسے سخن طراز ہوئے
تب سے پستی نے گھیر رکھا ہے
جب سے ہم، تارکِ نماز ہوئے
ہم تکلم سے ماورا ہوئے تو
سارے اعضا بدن کے ساز ہوئے
کس طرح نیند دربدر ہوئی ہے
کس لئے رتجگے دراز ہوئے
کس نظر کا میاں کرشمہ تھا
سب گدا بھی، گدانواز ہوئے
(رمضان نجمی ۔بھکر)


غزل
چھوڑ حیرانگی کے صحرا میں
آ ملو دل لگی کے صحرا میں
لوگ سب صورت سراب ملے
لق و دق زندگی کے صحرا میں
سب کو پاگل بنا کے رکھتا ہے
عشق دیوانگی کے صحرا میں
اک دعا کا چراغ روشن ہے
اس قدر تیرگی کے صحرا میں
ہم کو اکثر ہی ریا کار ملے
ہائے اس بندگی کے صحرا میں
کاش رشتوں کی قید نہ ہوتی
اس ترے تشنگی کے صحرا میں
دل کو بے مول بیچ آئے ہیں
بس تری سادگی کے صحرا میں
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)


غزل
گزررہا ہوں عجب راہ ِ امتحان سے میں
کہ کھو گیا تھا کہیں دور کاروان سے میں
ہم ایک دکھ میں برابر کے تھے شریک اک شب
مکان مجھ سے مخاطب تھا اور مکان سے میں
کسی کے بالوں میں خوشبو بکھیرنے کے لیے
چرا کے لایا ہوں اک پھول، پھول دان سے میں
میں اک ستون ہوں دونوں جہانوں کے مابین
مگر جو ہٹ گیا اک روز درمیان سے میں؟
اب اس بڑھ کے اذیت کی کیا کروں تشریح
کہ زخم خوردہ ملا ہوں نمک کی کان سے میں
یہ ہجر وجر مجھے سرسری اذیت ہے
سو اک یقین سے گزرا ہوں اس گمان سے میں
خدا کو مجھ سے شکایت ہے اور مجھے اس سے
کہ وہ زمین سے ناخوش ہے آسمان سے میں
(ذیشان مرتضیٰ ۔ڈی آئی خان، پہاڑ پور)


غزل
آئی تھی رات، زعم میں کرنے شکار دن
سینے کے آر پار ہوئے تیز دھار دن
کر لیں گے اپنے واسطے ہم سے جو بن پڑا
اے خود پرست شخص تو اپنے سنوار دن
بدلے گئے ہیں دن مرے، اس واسطے کہ میں
کہتی نہ تھی خدا سے بدل سوگوار دن
ہر بار میں ہی ساعتِ سیمیں لٹاؤں کیوں
تو بھی تو میرے سر سے کبھی اپنے وار دن
تفصیل داغ نامے میں کچھ یوں بیان کی
'چھ دن ترے بغیر لگے چھ ہزار دن'
دورِ شباب، کھا کے بھی حاصل نہ کر سکی
ڈائن سیاہ شب کی، مرے شیر خوار دن
ہر شخص نے گزارے ہیں تو بھی گزار لے
اچھے دنوں کے واسطے ناخوشگوار دن
(رمیکا منال۔گوجرانوالہ)


غزل
ہوا کا ہاتھ ہے سازش میں بام و در کا نہیں
چراغِ دشتِ جنوں ہوں کسی کے گھر کا نہیں
کچھ ایسے دربدری نے لبھا لیا دل کو
کبھی اِدھر کا نہیں اور کبھی اُدھر کا نہیں
شکستگی میں بھی اڑنے کا فن نہیں چھوڑا
یہ امتحان جگر کا ہے بال و پر کا نہیں
ملے ہیں تجھ سے تو ترکِ سفر کیا ہم نے
ہمیں سفر کا بتایا تھا ہمسفر کا نہیں
بھری جوانی میں ہونا سفید بالوں کا
یہ چند لمحوں کا قصہ ہے عمر بھر کا نہیں
گھٹن میں جائے کہاں اور دیں صدا کس کو
سمندروں کا یہ دکھ ہے کسی گہر کا نہیں
ہماری چھت پہ جو اونچا سیاہ پرچم ہے
بغاوتوں کا علم ہے نشان ڈر کا نہیں
(محبوب زائری۔ اسکردو،، بلتستان)


غزل
دل عشق میں جلا تو کھرا ہو گیا مرا
حد سے گزر کے درد دوا ہو گیا مرا
بولی نگاہِ یار، محبت نہ کیجیو
وہ مشورہ دیا کہ بھلا ہو گیا مرا
جلتا رہا ہے رات ترے انتظار میں
دل گل نہ ہو سکا تو دیا ہو گیا مرا
کیاپوچھتے ہوحال مرامیں اداس ہوں
بچپن کا ایک یار جدا ہو گیا مرا
کل شب کسی نے ہجرکی رودادچھیڑدی
جو بھر چکا تھا زخم ہرا ہو گیا مرا
(فاخرؔ کلانچوی۔بہاولپور قصبہ کلانچ والا)


غزل
کس ارادے سے نکل آئے ہیں
غم جو چہرے سے نکل آئے ہیں
تب چراغوں کو جلایا اُس نے
جب اندھیرے سے نکل آئے ہیں
زندگی تیری کفالت کے لیے
ہم بڑھاپے سے نکل آئے ہیں
اب تحفظ بھی کہاں پائیں گے
ہم جو پنجرے سے نکل آئے ہیں
تا کہ دیواریں بھی باتیں کر لیں
ہم بھی کمرے سے نکل آئے ہیں
کیا بتائیں گے وہ شجرہ شافیؔ
جو قبیلے سے نکل آئے ہیں
(بلال شافی۔ جڑانوالہ، فیصل آباد)


غزل
تری اس کبریائی کی بھی کوئی شان کو دیکھے
یہ دن آئے ہیں شوریدہ کہ تو ایمان کو دیکھے
ہمارے اب بھی جنّت میں اسی قصّے کے چرچے ہیں
کوئی آدم و حوّا کے اسی نقصان کو دیکھے
نہیں ہے فائدہ کچھ بحثِ رونق پر بھی مسجد کے
یہ دل یہ گھر خدا کا دل میں گر رحمان کو دیکھے
سوالی ہم بھی ہیں لیکن انا کی بات ہے، چپ ہیں
ہمیں ان میں نہ سمجھیں جو یہاں سلطان کو دیکھے
نہیں ہے قفل دروازے پہ دل کے یوں عبث میرے
کوئی جھانکے نہ دل میں دل کسی انجان کو دیکھے
عیاں ہو راز جس پر تیری جھوٹی پارسائی کا
وہ پھر دیکھے تجھے وہ کیوں بھلا شیطان کو دیکھے
ہوئی ہے دل پہ دستک دل مگر حیران ہے حفصہؔ
کہ دل اب خود کو دیکھے یا نئے مہمان کو دیکھے
( حفصہ فریال بلوچ۔ کوئٹہ)


غزل
ترے ہونے پہ سوالات نہیں کر سکتا
مالک ِارض و سماوات! نہیں کر سکتا
ہر کسی شخص پہ انگلی میں اٹھاتا ہی نہیں
ہر کسی بات پہ میں بات نہیں کر سکتا
یار میں اپنا تقاضائے ہنر جانتا ہوں
اپنے الفاظ کو خیرات نہیں کر سکتا
مجھ سے بیزار زمانہ مرے دن آئے ہیں
اب میرے دن کو کوئی رات نہیں کر سکتا
روضہ پیر کی جالی کو پکڑنے والو
ان سے کہنا میں مناجات نہیں کر سکتا
(عاشق ہری ۔شہر گانچھے ،گلگت بلتستان)


غزل
میں تیرے عشق میں چمکوں گا اجالوں کی طرح
میری الجھن ہے ریاضی کے سوالوں کی طرح
میں نے سوچا تھا کہ وہ ناز اٹھائے گی میرے
وہ مجھے سر پہ چڑھا رکھے گی بالوں کی طرح
تیری قربت میں ہے اک سال بھی لمحے جتنا
تیرے فراق میں لمحات بھی سالوں کی طرح
تیرے ہونٹوں پہ میرا نام حسیں لگتا ہے
تیری زبان بھی ریشم تیرے گالوں کی طرح
مجھ سے کیوں پوچھتے ہو شیرؔ کی حالت یارو
کسی نصاب میں ہے شعر مثالوں کی طرح
(ارسلان شیر۔ نوشہرہ)


غزل
زیست کے غم بھلائے جاتے ہیں
جام بھر بھر پلائے جاتے ہیں
ڈھونڈتے کیوں ہو ان کو باہر سے
وہ تو دل میں سمائے جاتے ہیں
علم و عرفان اور شریعت کے
دو سمندر ملائے جاتے ہیں
دوریاں کیوں گنوں میں ظاہر کی
دل سے دل یاں ملائے جاتے ہیں
مکتب عشق بھی عجیب عبدل
درس دل کے پڑھائے جاتے ہیں
(عبدالحمید عبدل۔خوشاب)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں