بحیرہ احمر میں سمندری تجارت میں حائل رکاوٹیں پاکستانی معیشت کیلیے خطرہ

پاکستان کی 90 فیصد عالمی تجارت سمندری راستے سے ہوتی


Kashif Hussain June 12, 2024
کیپ آف گڈ ہوپ کا متبادل راستہ اختیار کرنے پر3500 ناٹیکل مائل کی اضافی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ فوٹو: ویب

بحیرہ احمر میں سمندری تجارت میں حائل رکاوٹیں پاکستان کی معیشت کے لیے خطرہ بن گئیں، بحیرہ احمر سے رسد میں درپیش تعطل طویل ہونے پر پاکستان میں مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کو روک لگ سکتی ہے۔

اکنامک سروے رپورٹ میں پاکستان کی عالمی تجارت کے لیے ایک بڑی رکاوٹ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 90 فیصد عالمی تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے۔ بحیرہ احمر پاکستان کی امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین سے تجارت کا اہم ترین راستہ ہے۔

عالمی تجارت کے لیے پاکستان کا بڑا انحصار بحیرہ احمر پر ہوتا ہے جہاں سے پاکستان کی 60فیصد ایکسپورٹ اور 30فیصد درآمدات ہوکر گزرتی ہیں جن کی مالیت بالترتیب 16.3ارب ڈالر اور 23.2ارب ڈالر ہیں۔ بحیرہ احمر ایشیا اور یورپ کے درمیان سمندری تجارت کا سب سے مختصر راستہ ہے، جسے چھوڑ کر کیپ آف گڈ ہوپ (ساؤتھ افریقہ)سے گزارنے کی صورت میں 3500ناٹیکل مائل اضافی مسافت طے کرنا پڑتی ہے، جس کو طے کرنے پر 10سے 12 روز لگتے ہیں۔

وزارت خزانہ کے مطابق اس اہم تجارتی راستے میں تعطل کے پاکستان کی معیشت پر کثیر جہتی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، جن میں بنیادی اشیا کی درآمد میں تاخیر، خام مال اور تیار مصنوعات کی سپلائی میں تاخیر جس سے مقامی سپلائی چین بگڑ رہی ہے۔ درآمدی خام مال کی ترسیل میں تاخیر سے پیداواری عمل سست روی کا شکار ہے جس سے لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی نمو متاثر ہورہی ہے۔

پاکستان کی ایکسپورٹ میں 60 فیصد کا حصہ رکھنے والا ٹیکسٹائل کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ خام مال اور مشینری کی بروقت دستیابی ٹیکسٹائل اور اپیرل پروڈیوسرز کے لیے ناگزیر ہے اور شپنگ شیڈول میں کسی قسم کی تبدیلی کے نتیجے میں پیداواری تاخیر اور لاگت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

اکنامک سروے کے مطابق جنوری کے وسط تک فریٹ چارجز 140 فیصد اضافے سے 750ڈالر سے بڑھ کر 1800ڈالر پر آگئی جس سے نہ صرف پاکستان کے ایکسپورٹرز متاثر ہوئے بلکہ عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کے لیے مسابقت بھی دشوار ہوگئی۔ اکنامک سروے کے مطابق بحیرہ احمر میں بڑھتے ہوئے تناؤ سے پاکستان کے چاول کی برآمدات متاثر ہورہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں