ملک و قوم کا مستقبل اور سالمیت اولین ترجیح

وزارت داخلہ کی جانب سے سندھ حکومت کو ارسال کردہ خط میں صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کی گئی تھیں


[email protected]

RAWALPINDI: یہ امر یقیناً قابل غور ہے کہ حملہ کراچی ایئرپورٹ اور سانحہ کولڈ اسٹوریج سے صرف تین دن قبل ہی یعنی 5 جون کو روزنامہ ایکسپریس نے اپنے فرنٹ پیج پر وزارت داخلہ کے حوالے سے انتہائی اہم اور قابل توجہ خبر شایع کی تھی جس میں وزارت داخلہ کی جانب سے سندھ حکومت کو مطلع و متنبہ کیا گیا تھا کہ کالعدم دہشت گرد تنظیمیں صوبہ سندھ میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

وزارت داخلہ کی جانب سے سندھ حکومت کو ارسال کردہ خط میں صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ اہم مذہبی مقامات، سرکاری عمارات و دفاتر، حساس تنصیبات اور عوامی مقامات کی سیکیورٹی سخت کی جائے اور ایمرجنسی پلان مرتب کیا جائے، لہٰذا اس ہدایت کے بعد محکمہ داخلہ سندھ نے آئی جی سندھ اور دیگر متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت بھی جاری کردی تھی کہ کراچی سمیت صوبہ بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جائیں۔ لیکن اس ہدایت کے صرف تیسرے روز ہی کراچی ایئرپورٹ ایک منظم دہشت گردی کا با آسانی نشانہ بنالیا گیا۔

دہشت گرد 8 جون کی رات تقریباً11بج کر 15 منٹ پر پی آئی اے انجینئرنگ کے فوکر گیٹ سے ایئرپورٹ کی حدود میں بھاری اسلحہ و بارود، خودکش جیکٹس، دیگر ساز و سامان اور کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ داخل ہوگئے۔ داخل ہوتے ہی انھوں نے ایئرپورٹ عملے پر شدید فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اے ایس ایف اور پی آئی اے کے اہلکار شہید ہوگئے، دہشت گردوں نے کارگو ٹرمینل کی چھت سے بھی سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی اور دستی بموں کا آزادانہ استعمال کیا، جس کے فوراً بعد رینجرز کے جوانوں نے ایئرپورٹ پہنچ کر کارروائی شروع کی اسی اثنا میں پاک فوج کے چاق و چوبند دستے بھی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔

سیکیورٹی فورسز نے ایئرپورٹ کو گھیرے میں لے کر داخلی و خارجی راستوں کو مکمل طور پر سیل کردیا، حملے کے وقت ایئرپورٹ پر تین فلائٹس میں بورڈنگ کا عمل جاری تھا اور مینٹیننس ایریا جہاں سے دہشت گرد ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہوئے وہاں کئی طیارے بھی کھڑے تھے تاہم دہشت گرد مسلسل جناح ٹرمینل کی جانب ہی بڑھتے چلے گئے۔ یہ فاصلہ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر ہے حملہ آور جلد از جلد اپنے ہدف تک پہنچنا چاہتے تھے لیکن ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز نے اپنی مستعدی، مربوط حکمت عملی اور سریع الحرکت جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔

دو بدو مقابلہ ہوا اور دشمن کی مذموم سازش ناکام بناکر ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملادیے۔ فورسز اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، متعدد زخمی ہوئے، وزیراعظم اور آرمی چیف نے پورے آپریشن کی خود نگرانی کی اور جلد ہی حالات پر قابو پالیا گیا۔ سرچ آپریشن کے بعد ایئرپورٹ مکمل طور پر کلیئر کردیا، خدانخواستہ اگر دہشت گرد ایئرپورٹ کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو حالات خوفناک رخ اختیار کرلیتے لیکن ہماری سیکیورٹی فورسز اے ایس ایف، رینجرز اور آرمی کے چاق و چوبند دستوں نے جان پر کھیل کر وطن عزیز کے قیمتی اثاثے بچالیے، تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جب سندھ حکومت کو کسی بھی ممکنہ حملے سے حفاظتی اقدام کے لیے پیشگی طور پر مطلع کردیا گیا تھا تو پھر آخر کوئی خاطر خواہ بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟ ماضی کے واقعات سے سیکھنے کا عمل ہم کب شروع کریںگے؟ حفظ ماتقدم کے تحت فول پروف حفاظتی و دفاعی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ دہشت گرد کراچی میں اتنے بھاری اسلحے اور گولہ بارود کے ساتھ کیسے آگئے اور با آسانی ائرپورٹ کی حدود بھی پھلانگ لیں؟ حملہ آوروں نے منصوبہ کہاں بنایا؟ یہ کس علاقے سے اور کس ذریعے سے یہاں تک پہنچے؟ اصل ماسٹر مائنڈ کون ہے؟

کون سے دشمن ممالک کی امداد و حمایت انھیں حاصل ہے؟ یہ دہشت گرد کراچی آپریشن سے اب تک کیسے محفوظ رہے؟ کیا یہ حملے کراچی آپریشن کی بد ترین ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ملک بھر کے امن پسند عوام کے لیے باعث تشویش ہیں اور غیر ملکی میڈیا اور دیگر ممالک اسے پاکستان کے سیکیورٹی نظام کی سخت ناکامی سے تعبیر کررہے ہیں، ضرورت ہے کہ پیشگی طور پر ان حملوں کی مکمل روک تھام کی موثر منصوبہ بندی کی جائے، محض روایتی انداز میں مذمتی بیانات کا اجرا اور حملوں کے بعد انھیں ناکام بنانے کے لیے بھاگ دوڑ کافی نہیں، ملک بھر میں اہم تنصیبات، سرکاری و نیم سرکاری عمارات، ریلوے اسٹیشنز، ایئرپورٹ، بندرگاہیں، بس ٹرمینلز، عبادت گاہیں اور پبلک مقامات پر فول پروف اقدامات کو یقینی بنانا حکومت وقت کی اولین ذمے داری ہے۔

ضروری ہے سانحہ کراچی ایئرپورٹ کی ہر پہلو سے گہرائی تک ٹھوس تحقیقات کرائی جائے اور اصل دشمن کو بے نقاب کیا جائے، معلوم کیا جائے کہ حملہ آوروں کے پاس بھارتی ساختہ اسلحہ کیسے آیا یہ بھی معلوم کیا جائے کہ خون منجمد کرنے والے فیکٹر ایٹ انجکشن جو کہ مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں اور مقبوضہ کشمیر میں فرنٹ لائن پر بھارتی فوجیوں کے استعمال میں ہیں ان حملہ آور طالبان تک کیسے پہنچے؟ کیا طالبان اور بھارت کا آپس میں کوئی تعلق ہے؟

1980 سے 1989 تک بھارت کی ''را'' افغانستان کی ''خاد'' اور روس کی ''کے جی بی'' نے پاکستان میں 1617 بم دھماکے کرائے جن میں 890 افراد شہید اور 3201 زخمی ہوئے اور ان تینوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی فورسز نے مشترکہ آپریشنز میں پاکستانی حدود کی 2730 فضائی اور 2599 زمینی خلاف ورزیاں کیں جن میں 1355 پاکستانی شہید اور 1007 زخمی ہوئے لہٰذا موجودہ حالات کے تناظر میں ان تینوں ممالک کے ماضی میں دشمنی پر مبنی شرمناک اور قابل مذمت و قابل توجہ کردار کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جسے کسی صورت نظر انداز کرنا ممکن نہیں، ضرورت ہے کہ غیر قانونی کچی آبادیوں کا خاتمہ کیاجائے اور غیر قانونی تارکین وطن پر گرفت مضبوط کی جائے، ملک بھر میں 500 سے زا ئد شدت پسندوں کے ٹھکانوں کی اطلاعات ہیں جن کے خاتمے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔

یہ ملک لاوارث نہیں، پاکستان کے اصل ترجمان اور ولی وارث حکمران نہیں عوام ہیں، جن کا مرنا جینا اس ملک کے ساتھ ہے، جن کا سب کچھ پاکستان ہی ہے، جن کے اثاثے اور بینک بیلنس بیرون ملک نہیں، جو بدترین اور کڑے سے کڑے حالات میں بھی بھاگ کر بیرون ملک نہیں جاتے، ان کے مستقبل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ٹھوس بنیادوں پر ایسی دور رس اثرات مرتب کرنے والی موثر ترین حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کی بدولت دائمی امن و امان کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور وطن عزیز کی سالمیت اور عوام کے حقوق و مفادات کے تحفظ سے متعلق تمام خدشات ناپید ہوجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں