ایک سوال کی تلاش میں
اُن کی آنکھوں کی پیاس، روح کی تڑپ تب تک کم نہیں ہو گی جب تک وہ جان نہیں لیتے کہ ’’ہم پاکستانی قوم کب بنیں گے؟
محمود شام اُردو ادب و صحافت کا ایک معتبر نام ہے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور علمی کاوشوں نے اُردو ادب و صحافت کو ایک نئی شناخت دی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری، نثری اور تنقیدی مضامین کے ذریعے ادب و صحافت کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے۔
ان کی نثری تحریریں ان کے علمی مقام کا ثبوت ہیں، انہوں نے مختلف ادبی، دینی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی، معاشرتی موضوعات پر سینکڑوں کی تعداد میں کالم لکھے ہیں جو ادب و صحافت کے علمی ورثے میں اضافے کا باعث ہیں۔ ان کی نثر میں ایک روانی ،سادگی اور جملوں کی پختگی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
انہوں نے ادب و صحافت کے علاوہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مختلف پہلوئوں پر بھی تحقیق کی ہے ان کی یہ تحقیقی کاوشیں ہمارے لیے کسی نعمت اور تحفے سے کم نہیں۔
محمود شام بہت سی تصانیف کے مصنف ہیں، ان کی تازہ تصنیف ''روبرو'' جو پاکستان کے سیاسی رہنمائوں سے پچاس سال کے دوران کیے گئے انٹرویوز پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے سرورق پر پاکستانی چند سیاسی چہروں کی تصویروں پر نظر پڑھتے ہی اس جملے پر ٹھہر جاتی ہے۔
''سوال اب بھی جواب کی تلاش میں ہیں'' اس جملے کو پڑھتے ہی ذہن کی کھڑکیاں اور سوچ کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں کہ ایسا کون سا سوال ہے جس کے جواب کی تلاش اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے۔ آج سے اکتالیس برس پہلے جب انہوں نے میٹرک گورنمنٹ کالج جھنگ میں انٹر میں داخلہ لیا تو اُس وقت بھی وہ اس سوال کی کھوج میں رہے''ہم پاکستانی قوم کب بنیں گے۔''اس سوال کا جواب انہیں ایک صبح جنرل ایوب خان کے مارشل لا کی صورت میں مل گیا ، جس پر وہ سوچ میں پڑ گئے ''کیا ہم واقعی پاکستانی قوم بن جائیں۔''
اس سوال کی تلاش میں وہ جھنگ کے تپتے، دیکتے، ریت کے ٹیلوں پہ سفر کرتے ہوئے شہر لاہور جا پہنچے۔ جہاں وہ اس سوال کی دھن میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے فلسفے کے طالب علم رہے، اس مقدس تعلیمی درس گاہ پر مفکر پاکستان علامہ اقبال بھی طالب علم رہ چکے تھے۔ یہ جان کر انہیں بے حد مسرت ہوئی کہ شاید اس سوال کا جواب یہاں سے مل سکے۔ اس وقت جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔
اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ''ایوب خان نے مارشل لاء کو خود سول دور میں منتقل کرنے کے لیے 1962 ء کا دستور نافذ کر دیا، خود اترنے کی بجائے اپنی وردی اتار دی 1962 ء کے دستور سے بھی بہت سوں نے اُمیدیں باندھیں کہ شاید اس سے اس سوال کا جواب مل سکے، لیکن اس دستور نے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے مزید سوالات پیدا کر دئیے۔ یہ دستور تو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح تھا۔ کسی بازار سے آئو' نکلو' گھنٹہ گھر سامنے ہے۔ اس دستور میں کسی آرٹیکل میں جا نکلو۔ صدر ایوب سامنے آ جاتے تھے۔ ایک روز کافی ہائوس کے سامنے گھاس پر بیٹھے ہم نے حبیب جالب کی آواز سنی۔''
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اس سوال کا جواب کی تلاش میں محمود شام اُن دنوں ایک ہفت روزہ سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں انہوں نے مختلف ادیبوں، فلسفے کے اساتذہ، ماہرین تعلیم سے ہی سوال پوچھنے کی جسارت کی۔ کہ ''ہم پاکستانی قوم کیسے بن سکتے ہیں''، موجودہ معاشرے میں ادیبوں، ماہرین تعلیم، فلسفیوں کا کیا منصب ہے کہ کیا وہ اسے ادا کر رہے ہیں،اس میں بھی کوشش اسی ایک سوال کے جواب کی گئی ہے۔ اسی دوران درمیان میں ایک ایسی شام آئی کہ تمام روشنیاں مٹ گئی اور بارود کے دھوئیں سے ہرشہر میں تاریکی چھا گئی۔ کیوں اس شام بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور یہ بات 1965 ء کی ہے جب دشمن نے ایک ایسی قوم کو للکارا جس کے سینوں اور زبانوں پر کلمہ طیب کی صدائیں بلند تھیں۔ تب ریڈیو پاکستان پر بہت سے نغمات بلند ہوئے جو پاکستان کے سپاہیوں کے حوصلے اور جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔
محمود شام بتاتے ہیں کہ''پھر تاشقند میں ایک میز پر دستخط ہوئے، آوازیں بلند ہوئیں اور پھر ہم بٹ گئے۔پاکستانی پھر ایک قوم نہیں رہے تھے۔''محمود شام اس وقت ایک روزنامہ کے میگزین سے وابستہ تھے۔ تب انہوں نے سوال کا جواب قومی قائدین سے پوچھنے کا ارادہ کیا۔ ''ہم پاکستانی قوم کیسے بن سکتے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ نمبر1 کیا ہے۔ یہ کیسے حل ہو سکتا ہے۔ ہم کیسے اقتصادی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک دوسرے کے قریب کیسے آ سکتے ہیں''۔ ایک سوال کے جواب پانے کی جستجو میں جیسے جیسے مسائل بڑھتے گئے سوالات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
''روبرو'' اس کتاب میں پہلا انٹرویو مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی کا کیا گیا ہے۔ مولانا نیشنل پارٹی سے وابستگی رکھتے تھے۔ دوسرا انٹرویو پاکستان کے انقلابی رہنما ذوالفقار علی بھٹو جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ پاکستانی رہنمائوں میں جتنی عزت اور مقبولیت بھٹو نے حاصل کی شائد ہی کسی اور لیڈر کے حصے میں آئی ہو۔ ''پاکستان کے لیے کونسا نظامِ حکومت آپ کے نزدیک بہتر ہے؟''
محمود شام کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بھٹو صاحب کہنے لگے''ہماری بد قسمتی ہے کہ قائداعظمؒ اور قائدِ ملتؒ کے انتقال کے بعد ہمارا سیاسی نظام باہمی جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں تک محدود رہا۔ جو دستور بنایا گیا وہ محلات میں بیٹھ کر بنا، عوام کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ جب تک عوام کا ہاتھ نہ ہو، کوئی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پہلے دس برس ہمارے ہاں پارلیمانی نظامی بھی رائج رہا تو اس میں کیا آسمان زمین پر آ گرا تھا، اس میں بھی عوام کو اتنے مسائل اور تکلیفیں تھیں کہ ان کا انجام مارشل لاء کا نفاذ ہوا۔ پھر ہمارے ہاں صدارتی نظام کا تجربہ ہوا اور دس سال کے بعد ناکام ہو گیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں نظاموں میں عوام کا ہاتھ نہیں۔''
آج بھی کئی برس گزرنے کے بعد بھی عوام پہلے سے زیادہ مسائل اور تکلیفوں کا شکا ر ہیں۔ کوئی مظلوم عوام کی صدائیں سننا والا نہیں، سب اپنے مفادات کی خاطر عوام کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ کی طرح اپنے جھوٹے اور کھوکھلے وعدوں کی بھیڑ چڑھا دیتے ہیں۔ بے لگام گھوڑے کی طرح ہماری سیاست ہیں ، اہل لوگ نیچے اور نااہل لوگ اُوپر آ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ خان عطاء الرحمان، فضل القادری ، خان عبدالقیوم، شیخ مجیب الرحمن، مولانا مفتی محمود، نورالامین، خان عبدالولی، اصغر خان، بے نظیر بھٹو، مولانا کوثر نیازی سمیت دیگر سیاسی رہنائوں کے انٹروز شامل ہیں۔
اپنی 55 سالہ پیاس کے حوالے سے محمود شام لکھتے ہیں کہ''کنوئیں سوکھ گئے ہیں، دریا بوڑھے ہو گئے ہیں، سمندر دریائوں کو آغوش میں لینے کے لیے بے تاب ہیں، اب میری پیاس 55 سال کی ہو گئی ہے آپ کی خبر نہیں کتنی ہو گی اور جو نئی نسلیں اپنی اپنی پیاس لیے پیدا ہو رہی ہیں۔ وہ اپنی جگہ۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، آپ ہم پیدائش سے لے کر اب تک سنتے آ رہے ہیں شکر ہے کہ ہماری مائیں تو ماں جیسی ہیں۔ خوف آتا ہے، کشمیر کی مائوں پر جو گزر رہی ہے، غزہ کی مائوں سے بچے چھینے جا رہے ہیں، پوری دنیا میں امن ہے لیکن فلسطین کے مسلمانوں پر مسلسل آگ برسائی جا رہی ہے، اسرائیل امریکا اور برطانیہ کی شہ پر خون کے دریا بہا رہا ہے امیر مسلمان ملک اپنی دولت کو بچا رہے ہیں، غیرت اور حمیت بیچ رہے ہیں۔ ''
ان تمام باتوں کے باوجود آج بھی ہمارے سیاسی رہنمائوں کی باتیں وہیں ہیں اور مسئلوں کا حل اُس وقت بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ محمود شام کی اس کتاب ''روبرو'' میں پچھلے تیس سال کی سیاسی غفلتوں کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔ ان انٹرویوز کو پڑھتے ہوئے اس دور کے سیاسی حالات کی تصویر بھی سامنے آتی ہے اور سیاسی جماعتوں کے نشیب و فراز بھی اجاگر ہوتے ہیں۔
محمود شام کی 55 سال کی پیاس مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ اُن کی آنکھوں کی پیاس، روح کی تڑپ تب تک کم نہیں ہو گی جب تک وہ جان نہیں لیتے کہ ''ہم پاکستانی قوم کب بنیں گے؟ ان کا یہ سوال اب بھی جواب کی تلاش میں ہیں اور ان کے بعد کی نسلیں بھی اس سوال کا جواب جاننے کی ضرور کوشش کریں گی۔ اس کتاب کو اشاعتی ادارے قلم فائونڈیشن نے شائع کیا ہے، تا کہ آپ پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کی باتیں جان سکے اور ان کا اصلی چہرہ حالات کے آئینے میں دیکھ سکیں۔