ممبئی فلم نگری اور مودی
جون کی عدالتی تعطیلات موقع فراہم کرتی ہیں کہ کچھ تانک جھانک ممبئی کے اسٹوڈیوز میں بننے
لاہور:
کیا نریندر مودی کی انتخابی کامیابی میں بالی وڈ میں بننے والی فلموں کا بھی کوئی ہاتھ ہے؟ جس انداز سے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں وہ ایک ریکارڈ ہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں مذہب، مسلک، زبان، نسل اور رنگت کی بنیاد پر شہریوں کو ایک دوسرے سے شکایات ہوتی ہیں۔ جس منصوبہ بندی اور تسلسل سے بھارتی فلم انڈسٹری مسلم دشمنی اور پاکستان سے عداوت پر کام کرتی ہے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
جون کی عدالتی تعطیلات موقع فراہم کرتی ہیں کہ کچھ تانک جھانک ممبئی کے اسٹوڈیوز میں بننے والی فنکاری پر بھی کرلی جائے۔ آج ہم تین فلموں کا خصوصاً ذکر کریں گے کہ جس طرح نہ خنجر پہ کوئی داغ بھارتی ہدایت کار لگنے دیتے ہیں اور نہ فلم سازوں کے دامن پر کوئی چھینٹ نظر آتی ہے۔ وہ ہندوستانی نیشنلزم کی آڑ میں مسلمانوں کے جذبات کو قتل کرکے کرامات دکھا رہے ہیں۔ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی عملی تفسیر نظر آتی ہیں بعض بھارتی فلموں میں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ انڈین فلموں میں اگر کسی کو چور، غنڈہ، موالی دکھانا ہوتا تو اسے مسلم نام اور اسلامی حلیہ دیتے۔ 65 کی جنگ تک بھارتی فلمیں پاکستان آیا کرتی تھیں۔ ماموں اور چچا بتاتے کہ اکثر فلمیں عمومی موضوعات پر ہوتیں۔ عشق، محبت و رومانس کے گرد گھومتیں۔ ٹرائی اینگل لو یعنی تین طرفہ کشمکش کے گرد کہانی گھومتی۔ ایک لڑکا اور دو لڑکیوں یا دو لڑکیوں اور ایک لڑکے کے دائرے میں آگے بڑھتی فلمی اسٹوری۔ ستر کے عشرے میں اینگری ینگ مین والی فلمیں بھارت میں بنیں۔ اس دہائی میں پاکستان میں رومانی فلموں کا دور تھا۔ جب وی سی آر کے ذریعے پاکستان میں بھارتی فلمیں دیکھی جانے لگیں تو انڈین فلم سازوں نے انھیں پروپیگنڈے کا ذریعہ بنالیا۔
یہی صورت حال دو صدیوں کے سنگم پر ٹی وی ڈراموں نے اختیار کی۔ ''کہانی گھر گھر کی'' اور ''ساس بھی کبھی بہو تھی'' جیسے ڈراموں نے شادی میں پھیروں، بتوں کی پوجا اور ہندوانہ رسوم و رواج کو جان بوجھ کر پاکستانی مسلم گھرانوں میں پھیلایا۔ یہی وہ دور تھا جب سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ''ہم نے ثقافت کی آڑ میں پاکستانی ذہنوں پر قبضہ کرلیا ہے۔'' بھارتی فلم ساز برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف۔ جب پڑوسی سے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی تو اپنے ہم وطنوں کے خلاف زہر اگلتے۔ جب سرحدوں پر تناؤ ہوتا تو پاکستان دشمنی پر مبنی فلمیں بنیں۔ اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ پاکستان کے خلاف درجنوں فلموں کی بھرمار کا عشرہ تھا۔
بھارتی فلم سازوں کا ریکارڈ ہے کہ انھوں نے لو اسٹوری میں کبھی مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کو نہیں دکھایا۔ ہمیشہ الٹ دکھا کر ہندو نوجوانوں کے جذبات کی تسکین کی ہے۔ ''عشق زادے'' میں بھی مسلمان ہیروئن کو ہندو ہیرو کی محبت میں مبتلا دکھایا گیا ہے۔ دونوں کا تعلق سیاسی خاندانوں سے ہوتا ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں درجن بھر چھوٹے بڑے مسلمان فلمی ہیروز کو انتہاپسند ہندو تنظیمیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتیں۔ مسلمان ہیروز کے مقابل حقیقت میں اپنے مذہب کی ہیروئن کو دیکھ کر متعصب لوگوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ سلمان خان اور ایشوریا کی شادی کی بیل بال ٹھاکرے کی تنظیم نے منڈھے نہیں چڑھنے دی۔
یہی انداز ''ویر زارا'' میں تھا۔ شاہ رخ کو ہندو اور پریٹی زنٹا کو مسلمان کے روپ میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح جب راج کپور نے فلم ''حنا'' بنائی تھی تو پاکستان سے زیبا بختیار کو لیا۔ ہندو ہیرو اور مسلمان ہیروئن پر سیکڑوں فلمیں ہوں گی لیکن ایک بھی فلم اس کے الٹ شاید ہی بنائی گئی ہو۔ "The Wednesday" نامی فلم میں چار مسلمانوں کو دہشتگرد دکھایا گیا ہے۔ ایک بڑی عمر کا شخص ان کی رہائی کے لیے اداروں کو فون کرتا ہے۔ یہ کردار نصیرالدین شاہ نے ادا کیا ہے۔
وہ ایک زیر تعمیر عمارت کی چھت پر بیٹھ کر تمام تر جدید آلات کی مدد سے ان مسلمانوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ کھانے پینے کے سامان کے علاوہ بیشمار فون سمیں رکھنے والا۔یہ بوڑھا پولیس کو بتا دیتا ہے کہ اسے پکڑنا آسان نہیں۔ وہ اس دوران الیکٹرانک میڈیا کی ایک خاتون رپورٹر کو بھی آگاہ کرتا رہتا ہے۔ آخر میں جب ان چاروں کو رہا کرکے ایک مقام پر لایا جاتا ہے تو وہ شخص موبائل فون سے دھماکا کر کے ان کو مار دیتا ہے۔ ''چار مسلمان دہشتگردوں'' سے ہمدردی ظاہر کرنیوالا ان کا دشمن نکلتا ہے۔
یہ دیکھ کر بوڑھے کو پکڑنے والے پولیس والے اس سے خوش ہوجاتے ہیں، ہمیشہ کی طرح ایک آدھ اچھے مسلمان کو دکھا کر اس مذہب کی بڑی تعداد کو دہشتگرد کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگر تاریخی حقیقت دیکھی جائے تو گاندھی کو ایک ہندو نے، اندرا کو سکھوںاور راجیو کو تامل ٹائیگرز نے قتل کیا تھا۔ بھارتی مسلمانوں نے کسی چھوٹے سے چھوٹے ہندو لیڈر کو بھی سازش کرکے نہیں مارا۔ اس کے باوجود بھی بھارتی مسلمانوں کو جان بوجھ کر انڈین فلموں میں تخریب کار اور دہشتگرد کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
نریندر مودی جب وزیر اعلیٰ گجرات تھے تب وہاں فسادات ہوئے اور دو ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ''بلیک اینڈ وائٹ'' نامی فلم ایک نوجوان کی کہانی ہے۔ جس کے ماں باپ کو ہندوؤں نے آگ میں ڈال کر مار ڈالا۔ اس نوجوان کو گجرات سے دہلی آکر 15 اگست کی تقریب میں سیکڑوں لوگوں کو بم سے مارنے کی پلاننگ کرتے دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے؟ کیا واقعی ایسا کوئی نوجوان یا گروہ بھارت میں پکڑا گیا ہے جو اس قسم کی خطرناک منصوبہ بندی کرتا تھا؟ سب کچھ نقل، جعلی افسانوی اور ڈھونگ ہی تو دکھایا گیا ہے۔
پورا گروہ جو مسلمانوں پر مشتمل ہے وہ دہلی کے لال قلعے کی تقریب کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ بڑی خوب صورتی سے قرآن کی ایک آیت کی دو تشریحات کی گئی ہیں۔ ایک ہندو پروفیسر کو عمدہ تشریح کرتے دکھایا گیا ہے۔ بھارتی صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے نام پر قائم ایک کالج میں وہ اردو کے استاد ہوتے ہیں۔ انیل کپور اور ان کی بیگم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر قرار پاتے ہیں۔ وہ چاندنی چوک میں امن کے قیام کا سبب ہوتے ہیں۔
جب بھارتی مسلمانوں نے ایسی کوئی سازش ہی نہیں کی کہ ہندوستان کے یوم آزادی کی تقریب کو بم سے اڑایا جائے تو اس پر کوئی کہانی، افسانہ یا ڈرامہ نہیں بلکہ ایک بڑے بجٹ کی بڑی فلم بناکر مسلمانوں کو تخریب کار ثابت کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ پھر سوال کیا جاتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد کیوں ہے؟ بھارتی حکومت اس سوال کا جواب دے؟ پھر فلم ساز بظاہر معصوم لیکن زہر آلود سوال کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور کہانی نویس بڑی فنکاری سے ہندوؤں کو اچھا دکھاتے ہوئے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ قومی دھارے میں آجائیں۔
یہ ہے بھارتی فلم نگری کا انداز۔ کبھی پاکستان کے خلاف زہر تو کبھی بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت۔ اس قسم کی ہندی فلموں نے ہندو اکثریت کے ذہن کو مسلمانوں کے خلاف کیا ہے؟ کیا یہ سب کچھ اتفاق سے ہوگیا ہے؟ بھارتی فلم انڈسٹری کا گڑھ ممبئی ہے اور یہی شہر شیوسینا کا بھی قلعہ ہے۔ جب پاک بھارت کرکٹ میچز انڈیا میں ہوتے تو ممبئی میں کوئی میچ بال ٹھاکرے کی دھمکیوں کے سبب نہ رکھا جاتا۔ بھارتی فلم ساز اگر ایسی فلمیں نہ بنائیں تو کیا وہ ممبئی میں رہ سکتے ہیں؟ سیف علی خان اور شبانہ اعظمی جیسے مشہور اور خوشحال لوگ جب ممبئی میں گھر نہ لے سکتے ہوں، تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صورت حال کتنی پیچیدہ ہوگی اور مطالبہ پاکستان کیونکر کیا گیا تھا۔ شبانہ جیسی سیکولر خاتون اور سیف جیسا لبرل مرد۔
کرینہ کپور سے اس کے ہندو مذہب پر قائم رہتے ہوئے شادی کرنے والا۔ شاہ رخ نے گوری سے اسی طرح شادی کی جیسے راجیو نے سونیا سے۔ دلہن کا مذہب بدلے بغیر بیاہنا۔ کنگ خان کے تینوں بچوں کے نام نہ مسلمانوں کے سے ہیں اور نہ ہندوؤں کے سے۔ اس کے باوجود بھی نام کے مسلمان ہیرو کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہے ذہن سازی اور یہ ہے سیکولر انڈیا۔ وہ صورت حال جو پچھلے پندرہ بیس برسوں سے بالی وڈ سے پیدا کی جا رہی ہے۔ یہ حال ہے بھارت میں مسلمانوں کا۔ زہر آلود پروپیگنڈے نے نریندر مودی کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ کم ازکم اگلے پانچ برس مودی کے ہیں۔ بھارتی سیاست کو سمجھنے کے لیے ہمیں دونوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ ممبئی فلم نگری اور مودی پر۔