میاں صاحب کے گلے شکوے

جس عوام نے 2017 میں ان کاساتھ نہیں دیا اورچپ بیٹھی رہی اس نے تو 1993 میں آپ کابھرپور ساتھ دیا تھا


Dr Mansoor Norani May 20, 2024
[email protected]

میاں صاحب کواقتدار سے بیدخل ہوئے تقریباً سات سال بیت چکے ہیں لیکن وہ اپنا غم اوردرد ابھی تک بھلا نہیں سکے ہیں۔انھیں جب جب اپنے لوگوں سے خطاب کا موقعہ ملتا ہے وہ اس غم کا اظہار کیے بنا رہ نہیں پاتے اور ایسا ہو بھی کیوں نہ ،وہ اس ملک کے واحد وزیراعظم رہے ہیں جنھیں ایک نہیں دو نہیں تین بار زبردستی اورجبراً قبل ازوقت اقتدار سے محروم کیاگیا ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو بھی کچھ ایسے ریاستی جبراورظلم کاشکار رہی ہیںاورانھیں بھی دوبارقبل ازوقت اقتدار سے معزول اورمحروم کرکے یہ بتایا گیا تھا کہ اطاعت نہ کرنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں ۔پی ٹی آئی کے بانی تو ابھی صرف ایک بار ہی ایسی روایت کے شکار ہوئے تھے لیکن انھوں نے جواب میں وہ کچھ کر دکھایا جو میاں صاحب اورمحترمہ بھی نہ کرسکیں۔انھیں دیکھ کرتو ہمیں یہ دونوں سابق وزرائے اعظم بہت معصوم اورشریف نظر آتے ہیں۔

میاں صاحب کو سب سے پہلے 1993 میں اس وقت کے صدرمملکت غلام اسحق خان نے آئین کی آٹھویں ترمیم کی شق نمبر 58-2Bکا بھرپور فائدہ اُٹھاکر اقتدار سے چلتا کیا تو وہ فوراً سپریم کورٹ چلے گئے کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ عوام اُنکے ساتھ ہیں،لہٰذا فیصلہ بھی اُنکے حق میں آیا اور وہ پھرسے بحال ہوگئے،لیکن صدرمملکت نے اپنی ہار نہیں مانی اورجواباً یہ کہا کہ ابھی میرے ترکش میں بہت سے تیرباقی ہیں۔ عدالت عالیہ کے تاریخی فیصلے کے باوجود وہ اپنی کوششیں جاری رکھے رہے اورہر وہ حربہ استعمال کیا جو بالآخرمیاں صاحب کے ازخود استعفیٰ پرمنتج ہوا۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب جس میں مسلم لیگ نون کی ایک بڑی اکثریتی حکومت تھی وہاں اچانک عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزیراعلیٰ کو فارغ کردیاگیا اور منظوروٹوکو وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔اسی دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کے مجوزہ لانگ مارچ کو گرین سگنل دیکر حکومت پنجاب کی جانب سے مکمل سپورٹ اورکمک فراہم کی گئی۔اس ساری سازش کے تانے بانے ایوان صدر میں بنے جاتے رہے،مگر جب یہ لانگ مار چ بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا تو منظور وٹونے صوبائی اسمبلی ہی توڑدی۔

اس غیر آئینی اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا اورفیصلہ اس اسمبلی کی بحالی کی صورت میں آیاتو ایک بار پھر منظوروٹو نے وہی حرکت کی اورپنجاب اسمبلی پھرتوڑدی۔ وہ ایک کمزوروزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی یہ سب کچھ اس لیے کرتے رہے کہ انھیں ایوان صدر کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ریاستی جبراورناانصافی کی ایسی تاریخ رقم کی گئی کہ عوام کی بھرپور حمایت کے باوجود ایک منتخب وزیراعظم 18 اگست کومجبوراً استعفیٰ دیکرگھر بیٹھ گیا۔

جس عوام سے انھیں آج شکایت ہے کہ اس نے 2017 میں ان کاساتھ نہیں دیا اورچپ بیٹھی رہی اس نے تو 1993 میں آپ کابھرپور ساتھ دیا تھا لیکن آپ خود استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ آپ عوام پر اعتبارکرکے ڈٹ جاتے اوریوںاستعفیٰ دیکرخود کو اورقوم کو مایوس نہ کرتے۔اس وقت تو یہ عدالتیں بھی آپ کے ساتھ تھیں۔اس لیے آپ کاقوم سے یہ شکوہ کسی طور درست نہیں ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پرچپ کیوں رہے۔

مارچ 1993کے بعد جو کچھ ہوا ہماری تاریخ کاایک سیاہ باب ہے ۔ باہر سے درآمد کیے گئے ایک ایسے شخص کو جس کے پاس ملکی پاسپورٹ اورشناختی کارڈ بھی نہیںتھانگراں وزیراعظم بناکرمن مانے فیصلے کروائے گئے ۔ ہم آج فارم 47 کارونا رورہے ہیں۔ اسلامی فرنٹ کے ذریعے میاں نوازشریف کے ووٹ تقسیم کیے گئے اورمحترمہ بے نظیربھٹو کو جتوایاگیا۔

فرنٹ تو قابل ذکرکامیابی حاصل نہ کرسکا لیکن میاں نوازشریف کی پارٹی ضرور ہار گئی۔یہ وہ الیکشن تھے جس پرتبصرہ کرتے ہوئے شیخ رشید جو اس وقت اینٹی اسٹبلشمنٹ بنے ہوئے تھے کہاتھا کہ یہ الیکشن انجینئرڈ تھے اور اس میں آٹھ نمبر کا خاکی ریگ مال استعمال ہوا۔بلاشبہ میاں صاحب کے ساتھ اس وقت بہت زیادتی کی گئی تھی۔ عوام اور عدلیہ کی بھرپور حمایت کے باوجود انھیں خوب رگڑا گیا۔

دوسری بار 1999 میں چونکہ اس وقت آئین کی آٹھویں ترمیم کی ننگی تلوار باقی نہیںرہی تھی براہ راست مارشل لاء کے ذریعے ایک منتخب حکومت کا تختہ گول کردیا گیا۔یہ واردات بظاہر 12اکتوبر 1999کو ہوتی ہے، لیکن اگر حقائق کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیاجائے تو پتاچلے گا کہ اس حکومت کی معزولی کامنصوبہ سری لنکا جانے سے پہلے ہی تیارکرلیا گیاتھا۔ طاقتورایک بار پھرکامیاب ہوئے اورمیاں صاحب اٹک جیل بھجوادیے گئے۔ طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں میاں نوازشریف کو عمر قید اورتاحیات نااہلی کی سزا سنائی گئی اورپھر برادر ملک کی مداخلت پرملک بدر بھی کردیاگیا۔ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

تیسری بار 2017 میں تو ایک بھرپورمنظم طریقے سے عدلیہ کوساتھ ملاکرمیاں نوازشریف کی حکومت گرائی گئی جس کا انھیں آج تک بہت دکھ اور گلا ہے اوروہ اپنا غم بھلابھی نہیںپاتے۔ جب جب موقعہ ملتا ہے وہ اپنی درد بھری کہانی قوم کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔

مذکورہ بالا تذکرے سے ایک بات تو یہ واضح ہوتی ہے کہ تین بار وزیراعظم بننے والے اس شخص کے ساتھ ہربار بہت زیادتی ہوئی ہے، اس کاقصور بھی کوئی اتنا بڑا نہیںتھا،وہ تو اس ملک میں ترقی اورخوشحالی کاپیمبر اورمعمار تصور کیاجاتاہے۔ اس نے بلاشبہ بہت سے ترقیاتی کام کیے ہیں۔ اپنے دوڈھائی سالہ دوراقتدار میںاسے جب جب موقعہ ملا وہ اپنی اس فطرت سے باز نہیں آیا۔ وہ پہلی بار آیاتو ملک میں موٹرویزبنانی شروع کی، سارے ملک کاانفرااسٹرکچر بدلناچاہا۔

دوسری بار آیاتو نیوکلیر ٹیسٹ کرکے ملک کو تسلیم شدہ ایٹمی قوت کادرجہ دلادیا۔اورجب تیسری بار آیا تو سی پیک پرتیزی سے کام شروع کروادیا۔اس کی یہی خصلتیں اس کی قبل ازوقت کی معزولی کابھی سبب بنتی رہی ،وہ اگر کچھ نہ کرتااوردوسروں کی جنگیں اپنے ملک میں لڑتا رہتاتو شاید وہ بھی دس دس سال حکومت کرتا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں