مودی جی کا مقبوضہ کشمیر میں انتخابات سے فرار

مسلم دشمن و تشدد پسند مقتدر پارٹی، بی جے پی، نے مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے


Tanveer Qaisar Shahid May 13, 2024
[email protected]

آج 13مئی2024کو مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت، سری نگر ، میں عام انتخابات کا رَن پڑ رہا ہے۔ لوک سبھا یا قومی اسمبلی کے یہ انتخابات دراصل بھارت بھر میں منعقد ہونے والے جنرل الیکشنز کا حصہ ہیں۔

عظیم الجثہ بھارت میں 7مراحل (Phases) میں انتخابات شروع ہیں۔ تین فیز گزر چکے ہیں۔اِن کا آغاز اپریل کے تیسرے ہفتے ہُوا تھا ۔ اختتام جون2024کے پہلے ہفتے ہوگا۔ اب چوتھے فیز میں مقبوضہ کشمیر کے انتخابات پر دُنیا کی نظریں ٹکی ہُوئی ہیں ۔

اِس کی کئی وجوہ ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا کا ہر ملک یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بھارتی آئین سے مقبوضہ کشمیر کی منفرد ، علیحدہ اور خصوصی حیثیت کھرچ دینے کے بعد اب مقبوضہ کشمیر کے انتخابات کس کروٹ بیٹھتے ہیں ؟ توجہ طلب دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، اور اُن کی مسلم دشمن و تشدد پسند مقتدر پارٹی، بی جے پی، نے مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔

اِس انکار کو مودی جی کا سیاسی فرار بھی کہا جارہا ہے اور بزدلی بھی ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ مودی جی کے اِس انکار پر ایک دُنیا حیران رہ گئی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی اور مودی صاحب پورے 30برس بعد مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینے سے فرار ہُوئے ہیں ۔ آیئے ہم بھی دیکھتے ہیں کہ مودی جی کے اِس پُر اسرار فیصلے کے عقب میں کیا اسٹرٹیجی بروئے کار ہے ؟

مسلم دشمن، متعصب اور معاند '' آر ایس ایس '' کے بطن سے جنم لینے والی ''بی جے پی'' کے پلیٹ فارم سے نریندر مودی وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوئے ہیں اور وزیر اعظم بھی ۔ اب وہ تیسری بار بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے ہر حربہ اور ہر ہتھکنڈہ بروئے کار لا رہے ہیں۔دہلی کے ہر دلعزیز اور مقبول ترین نوجوان وزیر اعلیٰ، اروند کجریوال، کو عین انتخابات کے دوران سنگین اور خود ساختہ الزامات کے تحت تہاڑ جیل میں بند کر دینا مودی کا سب سے نمایاں ترین اور غیر اخلاقی ہتھکنڈہ خیال کیا گیا ہے ۔

جیل میں سات ہفتے گزارنے کے بعد کجریوال کو بھارتی سپریم کورٹ کے دو ججوں نے 10مئی کو(یکم جون 2024تک) ضمانت پر رہا کر دیا تاکہ وہ اپنے لیے اور اپنی پارٹی کے لیے الیکشن کمپین میں حصہ لے سکیں۔ساتھ یہ شرط بھی لاگو کی گئی ہے کہ ضمانت کے اِن ڈھائی ہفتوں میں وہ بطورِ وزیر اعلیٰ کوئی سرکاری کام انجام نہیں دے سکیں گے۔

اپنی دوسری سب سے بڑی سیاسی حریف پارٹی ''کانگریس'' کا بھی اِسی اسلوب میں مودی جی نے ناطقہ بند کررکھا ہے تاکہ کانگریس بھی بی جے پی اور مودی جی کے مقابل نہ آ سکے۔ ایسے ماحول میں بھارت میں خاک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے؟ یوں شاید امریکی تھنک ٹینک Freedom Houseکا یہ تبصرہ درست ہی ہے کہ ''بھارت میں جاری عام انتخابات میں مودی اور اُن کی مقتدر پارٹی اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہر سرکاری حربہ استعمال کررہے ہیں۔''

اِن حالات میں بھارتی غاصب فوج کے زیر استبداد مقبوضہ کشمیر میں لوک سبھا انتخابات کی کیا معنویت اور اہمیت رہ جاتی ہے؟پھر بھی آج مقبوضہ کشمیر میں انتخابات تو ہو رہے ہیں۔ مودی جی کے ظالمانہ و استحصالی ہاتھوں سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت(آرٹیکل370) کو ختم ہُوئے اگست 2024 میں پورے پانچ سال ہو جائیں گے ۔

مودی نے اپنا دوسرا الیکشن اپنے اِسی ''کارنامے'' کے نعرے پر جیتا تھا ۔ یوں وہ دوسری بار وزیر اعظم مسلّط ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔اِس بار انھوں نے اسرار میں لپٹی نئی اسٹرٹیجی کے تحت مقبوضہ کشمیر کے انتخابات سے خود کو علیحدہ کررکھا ہے۔ حالانکہ انھوں نے انتخابات شروع ہونے سے پہلے، مارچ میں، مقبوضہ کشمیر کا بھرپور انتخابی دَورہ بھی کیا تھا ۔ شاید اِس دَورے میں انھوں نے اپنا مستقبل بھانپ لیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں ''بی جے پی '' کے مرکزی کرتا دھرتا، روندر رائنہ،نے اپنے گُرو، نریندر مودی، کے اشارے پر اِس علیحدگی بارے یوں کہا ہے :'' ہم Broader Strategy کے تحت (مقبوضہ) کشمیر میں انتخابات سےSkip کر رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک بڑا مقصد اور ہدف ہے۔ بی جے پی مگر وادیِ کشمیر میں ''محبِ وطن'' پارٹیوں کو سپورٹ کرے گی ۔''

سوال مگر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی وہ کونسی سیاسی جماعتیں ہیں جو ''بی جے پی'' کے نزدیک ''محبِ وطن'' ہیں؟ خود آزاد بھارتی اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی وہ مسلم سیاسی جماعتیں جو نئی دہلی ، انڈین اسٹیبلشمنٹ اور مودی کے اشارے پر ناچتی ہیں ، وہی ''بی جے پی'' کے نزدیک ''محبِ وطن'' پارٹیاں ہیں ۔ یہ پارٹیاں دراصل'' بی جے پی'' کی Proxies بھی کہلاتی ہیں۔ بظاہر مسلمان کشمیری ،مگر بباطن کشمیر دشمن۔ کشمیریوں کی اکثریت اِن پراکسیز کو خوب پہچانتی ہے۔

بی جے پی اور مودی جی مقبوضہ کشمیر کے انتخابات سے ( بظاہر) لاتعلق رہ کر اِنہی فریبی کشمیری پارٹیوں کی پُشت پناہی کرکے اپنے مذموم اور مہلک عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ اِن فریبیوں کو کامیاب کروانے کے لیے انڈین اسٹیبلشمنٹ مرکزی کردار ادا کررہی ہے۔

دُنیا مگر بھارت پر پھٹکاریں بھیج رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے پانچ سال بعد بھی اگر نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کے عام انتخابات میں دلیری سے قدم رکھنے کی جسارت نہیں کررہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قیامِ امن، عوامی اطمینان اور خوشی و خوشحالی کے سبھی بھارتی نعرے اور دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہی ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر ( بمعنی وادی کشمیر) میں لوک سبھا کی تین سیٹیں ہیں :سری نگر، بارہ مولا اور اننت ناگ و راجوری! آج 13مئی کو ، چوتھے فیز کے تحت، صرف سری نگر میں انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ اگلے تین مراحل میں بارہ مولا اور اننت ناگ و راجوری میں انتخابات ہوں گے۔

مقبوضہ کشمیر کی دو بڑی سیاسی جماعتیں آج ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی : نیشنل کانفرنس (NC) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)۔ اِس کے علاوہ سجاد لون کی پیپلز کانفرنس، الطاف بخاری کی اپنی پارٹی ، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک پراگریسو آزاد پارٹی (DPAP) بھی میدان میں ہیں ۔ این سی اور پی ڈی پی کی قائدین اِنہی آخر الذکر تینوں کشمیری پارٹیوں کو ''بھارتی اسٹیبشمنٹ کی پراکسیز'' قرار دیتے ہیں ۔

سری نگر میں ''نیشنل کانفرنس'' کے لیڈر آغا سید رُوح اللہ مہدی اور ''پی ڈی پی'' کے وحید پارہ کے درمیان اصل معرکہ ہے ۔اگرچہ اُن کے مقابلے میں ''اپنی پارٹی '' کے محمد اشرف میر بھی کھڑے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ، عمر عبداللہ ، بارہ مولا سے لوک سبھا کا انتخاب لڑ رہے ہیں ۔

اُن کے مقابل ''پی ڈی پی'' کے فیاض میر اور ''پیپلز کانفرنس'' کے سجاد لون ہیں۔ اننت ناگ و راجوری سے مقبوضہ کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ، محبوبہ مفتی ، اور ''نیشنل کانفرنس'' کے میاں الطاف (اور'' اپنی پارٹی'' کے ظفر اقبال منہاس) کے درمیان مقابلہ ہے ۔ ظفر اقبال منہاس کو سبھی'' بی جے پی'' کی ''پراکسی'' کہہ رہے ہیں۔

ظلم کی بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لوک سبھا کے انتخابات میں کوئی ایک بھی حقیقی کشمیری لیڈر حصہ نہیں لے رہا۔ مودی نے حریت پسند کشمیری لیڈروں کو یا تو دُور دراز کی بھارتی جیلوں کے عقوبت خانوں میں قید کررکھا ہے یا وہ لا پتہ کیے جا چکے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں