ناکام نو مئی

قرائن بتاتے ہیں، پلان وائے اور زیڈ بھی موجود ہے ہوا، لہٰذا سانحہ نومئی کے کئی پہلو اور چہرے نظر آتے ہیں


جاوید قاضی May 12, 2024
[email protected]

نو مئی کا دن پاکستان کی تاریخ میں کئی زاویوں سے دیکھا جائے گا۔نو مئی کے واقعات پر غور کیا جائے تو اس کے کئی اسباب اور کئی اہداف تھے، جنھیں حاصل کرنا ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کا مقصد تھا۔

یہ سانحہ اچانک رونما نہیں ہوا، بلکہ کئی برس سے مرحلہ وار کام جاری تھا، جس کا سیکنڈ لاسٹ مرحلہ نو مئی کی صورت میں کھیلا گیا، قرائن بتاتے ہیں، پلان وائے اور زیڈ بھی موجود ہے ہوا، لہٰذا سانحہ نومئی کے کئی پہلو اور چہرے نظر آتے ہیں۔ آزادی کے پون صدی کے سفر کے بعد ایک مخصوص، متعصب اورسسٹم کا گریٹ بینفیشری گروہ جو اپنی فطرت میں بدلحاظ، بدتمیزی، سازشی ، مکار، لالچی اورجمہوریت دشمن ہے لیکن ظاہر میں ماڈرن، مہذب، سچا اورجمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، نومئی کو پاکستان کی فوج کے خلاف بغاوت کا آغاز کرتا ہے۔

اس کارواںمیں جمہوریت دشمن عناصر، آئین شکن سوچ، مفادات کے لیے مذہبی ٹچ کے حامی، بلڈر مافیاز،اسمگلرز،افغان ٹریڈ کی آڑ میں غیرقانونی تجارت سے مستفید ہونے والے، افغان طالبان کے کھلے حامی جب کہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر انتہاپسند اور دہشت گردوں سے درپردہ روابط رکھنے والے ،سوشل میڈیا کوپروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرنے والے ، چند ریٹائرڈ فوجی اور کچھ اندرونِ خانہ ۔

یہ وہ سوچ تھی جس کی بنیادیں جنرل ایوب خان نے رکھی ، جنرل ایوب، پھر جنرل یحییٰ، پھرجنرل ضیا اور جنرل مشرف نے بھی اسی مشن کو آگے بڑھایا، فرق صرف نعروں اوردعوؤں کا تھا، پالیسی ایک ہی تھی، انھوں نے اپنے حامی طبقے کی حمایت سے کامیاب شب خون مارے اور نو مئی کاواقعہ ان سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ یہ ایک ناکام شب خون تھا۔میری اس تھیوری کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ہے ضروری نہیں کہ تمام شب خون کی ماہیت ایک جیسی ہو۔

جب بھی اس ملک میں آمریت کا قبضہ ہوا یا شب خون مارے گئے وہ سب ایک ہی نوعیت کے تھے یعنی کامیاب تھے جس میں ایک گولی نہ چلی ما سوائے 9th May 2023 کے جو اپنی نوعیت کا ایک مختلف واقعہ تھا۔آج کی اسٹبلشمنٹ ماضی کی سوچ اور پالیسی سے ہٹنا چاہتی ہے کیونکہ ماضی کی سرد جنگ والی پالیسی اور نظریات کے ساتھ آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔

ایک کامیاب انقلاب کے لیے عوام کی غیرمعمولی حمایت کی ضرورت ہوتی۔انقلابی کارکنوں اور تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے، ڈرائنگ رومز میں بیٹھ انقلابی منصوبہ تو بن سکتا ہے لیکن یہ کامیاب ہرگز نہیں ہوتا۔ نومئی والوں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ پاکستان میں آمرانہ حکومتوں نے پوری سوسائٹی کو کرپٹ کردیا ہے، بے ضمیر سوچ کو جنم دیا، درباریوں کی بٹالینز پروان چڑھی ہیں۔

ایوب خان والی اسٹیبشمنٹ نے جدیدیت کی آڑ میں سسٹم اور سماج کو کرپٹ کرنے کا آغاز جب کہ جنرل ضیا الحق مذہب نام لے کر سسٹم اور سماج کو کرپٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں مختلف انتہا پسند مذہبی گروہ بنائے گئے، آئین و قوانین میں ایسی تبدیلیاں کردیں جو انتہاپسندوں کو من مرضی کرنے کے لیے سہولت فراہم کرتی تھیں، یوں دھونس، دھاندلی اور قبضہ گیری نے نئی شکل اختیار کرلی۔

پھر ایسے ایسے مافیاز اقتدار اور سیاست کا حصہ بنے جو سیاستدانوں کو پالتے تھے، سسٹم چلانے والا اعلیٰ کیڈر ہی نہیں بلکہ کلرک اور چپراسی تک ان مافیاز کا اثرو رسوخ قائم ہوگیا ہے۔ اس طاقتور مافیاز کے مالی مفادات طالبان ، طالبان کی سسٹر آرگنائزیشنز، بلوچستان میں آپریٹ کرنے والے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئے، یوں دہشت گرد گروہ بھی پاکستان کی سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، وائٹ کالر کریمنلز انھیں اپنے مخالفین اور دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

نو مئی کے واقعات کے بعد ہماری اسٹبلشمنٹ اب افغان پالیسی سمیت ان تمام پالیسیز کو خیرباد کرنا چاہتی تھی جو ماضی کا حصہ تھیں۔یہ پالیسی جنرل قمر جاوید باجوہ کے آخری دنوں میں اختیار کی گئی مگر اقتداری جھگڑوں اس سوچ پر عملی کام نہیں ہوا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور نظام انصاف کا ایک دھڑا سسٹم کے اندر لڑائی میں مصروف ہوگیا، کاروباری طبقہ اور سیاسی قیادت بھی اسی تقسیم کا شکار ہوکر ایک دوسرے کو ختم کرنے پر تل گئی ہے۔

عدالتیں ان طاقتور گروہوں کے ساتھ کھڑی تھیں جو ایوب خان ، یحیٰ خان ، جنرل مشرف اور جنرل ضیاء الحق کی عنایت کردہ افغان پالیسی پر کار فرما تھیں۔ 2007 کی وکلاء تحریک بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی تھی ۔ لڑائی اتنی سنگین ہوگئی کہ عدلیہ کے چند طاقتور ججز آئین کے مختلف آرٹیکلز کی تشریح کے آئینی اختیار کو استعمال کرکے ایسے فیصلے صادر کردیے جن کی وجہ سے پارلیمنٹ کے کردار و دائرہ کار کو زیرو کردیا گیا۔

ایسے نظائر قائم کیے جو پارلیمانی جمہوریت کی ضد ہیں۔انھی نظائر و فیصلوں نے پاکستانی عدلیہ کا عالمی معیار زوال پذیر کردیا۔لیکن نظائر قائم کرنے والے ججز اور ان کے فیصلوں کے بینفشریز کو عروج مل گیا جب کہ نو مئی کے ان واقعات میں سیکڑوں معصوم لوگ عمران خان کی سیاست کا چارہ بن گئے ۔

نو مئی برپا کرنے سازشی ٹولے کا منصوبہ تھاکہ گولیاں چلیں، لاشیں گریں لیکن اس سازش کو اعلیٰ حکمت عملی سے ناکام بنا دیا گیا۔آہستہ آہستہ جمہوری قوتوں نے راستہ بنانا شروع کیا، سپریم کورٹ کی عدالتی کارروائیاں پاکستان میں پہلی بار براہ راست ٹی وی اسکرین پردکھائی گئیں۔ یوں سب کو پتہ چل گیا کہ کون کیا کہہ رہا، کسی کو مرچ مصالہ لگانے کا موقع ہی نہیں ملا، ادھر حکومت اور اس کی معاشی ٹیم نے افراط زر پر قابو پانے کے لیے کام شروع ۔ روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ میں استحکام نظرآنا شروع ہوا۔

عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بحال کرنے کے درست فیصلے کیے گئے۔ گندم اور آٹا مافیا کو پہلی بار لگام ڈالنے کا کام شروع ہوا، اسمگلروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش شروع ہوئی، بورڈ آف ریونیو کی اوورہالنگ کی طرف قدم بڑھایا گیا، بجلی چوروں اور ان کے سرکاری سہولت کار افسروں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی، سوشل میڈیا پر جھوٹ اور شرانگیز پھیلانے والے گروہ کے گرد بھی شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی، جس کے معیشت، سیاست اور معاشرت پر مثبت اثر پڑا۔

بے یقینی اور سیاسی انتشار ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔پی ٹی آئی کے لیڈر اور حامی جس سیاسی عدم استحکام کی بات کرتے ہیں، وہ صرف میڈیا میں یا ان کے حامیوں کے تجزیوں اور مضامین میں نظر آرہا ہے۔واقعی وہاں شدید بحران ہے۔

اب پوسٹ نو مئی ختم ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ جن لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اسیروں کے ہمدردی کے جذبات پیدا کرکے جلاؤ، گھیراؤ کو برقرار رکھا جائے گا، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور حکومت کو پریشر رکھ کر پھر سے سیاست میں کامیابیاں حاصل کی جائیں گی۔

فوجی ترجمان کی حالیہ کانفرنس میں واضع کردیا گیا کہ نو مئی کے منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ جمہوریت پسند سیاسی قوت نہیں ہے بلکہ ایک فساد ی ٹولہ ہے۔ یہ پریس کانفرنس کسی فردِ واحد کا بیان نہ تھا بلکہ پورے ادارے کا پالیسی بیان تھا ۔یہ بیان ایک Paradigm Shift ہے۔ نو مئی ایک ناکام شب خون کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ دو سوچوں کا ٹکراؤ تھا۔ایک وہ سوچ جو ایوب خان سے شروع ہوکر جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تک پہنچی ، دوسری سوچ وہ ہے جس کا آغاز کردیا گیا ہے ، یہ دونوں متضاد سوچیں اسٹبلشمنٹ سے لے کر بیوروکریسی ، کاروبار، پارلیمان اور عدالتوں تک میں میں پائی جاتی ہیں۔ کیا نئی سوچ فتح یاب ہوگی یا خدا نخواستہ انتشار ہوگا، اس کا تعین آیندہ حالات کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں