ہم آہنگی کے لیے کچھ تو وقت دیجیے

کسی کے حوالے سے اتنی جلدی کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے


سمیرا انور May 07, 2024
فوٹو : فائل

نیا ماحول، نئے لوگ، نئے رسم و رواج سے لپٹے گھرانے میں بیاہ کر کے جب کوئی لڑکی آتی ہے، تو اس کے لیے اس نئے ماحول میں رچ بس جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ماں باپ کے گھر سونے جاگنے کی روٹین اور تھی، صبح جلدی اٹھ جاتے ہوں گے یا دیر سے اٹھ کر ناشتے کا رواج ہوگا اور یہاں سسرال میں ہو سکتا ہے، صبح فجر کی اذان کے ساتھ سب اٹھ جاتے ہوں یا ہو سکتا ہے گیارہ، بارہ بجے ناشتا کرتے ہوں۔

میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کسی گھر میں نئے آنے والے فرد کو زیادہ پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر وہ خود کچھ تبدیل کرنے کی کوشش کرے، تب مسئلے پیدا ہوتے ہیں، اگر کچھ نہ تبدیل کرے، تب بھی یہی سمجھا جاتا کہ اسے گھر سنبھالنا نہیں آتا، اسے کسی کام میں دل چسپی ہی نہیں ہے۔

یہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی۔ ہر جگہ ایسا بھی نہیں ہوتا، جو بہت خود اعتماد خواتین ہوتی ہیں یا جو آتے ہی شوہر کی پسندیدہ ہو جاتی ہیں، انھیں کچھ کم پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال دونوں پارٹیوں کے درمیان افہام وتفہیم اسی صورت پیدا ہوگا، جب دونوں ایک دوسرے کو سمجھیں گے کچھ وقت دیں گے۔ یعنی سسرالی رشتے داروں کو چاہیے کہ نئی آنے والی بہو کو کچھ وقت دیں نہ کہ آتے ساتھ ہی اس پر 'افسری' جھاڑنا شروع کر دیں اور بہو کو بھی چاہیے کہ خاموشی سے سسرال کے طور طریقے سیکھے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔

یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ گھر میں قدم رکھنے والے نئے فرد کو سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہر فن مولا ہوگا۔ جلدی جلدی ہر کام کرنے کا عادی ہوگا اور ہر وقت دوسروں کے لیے دروازے پر کھڑا ہوگا۔ کبھی سوچا ہے کہ وہ بھی ہمارے جیسا انسان ہے اس کی طبیعت بھی خراب ہو سکتی ہے اس کے بھی آپ کی طرح ماں باپ ہیں جن سے ملنے کے لیے اس کا دل بھی بے تاب ہو سکتا ہے۔ یہ ہر سسرال کی کہانی نہیں ہے، کہیں بہت الٹ بھی ہوتا ہے۔ بہت چاؤ سے بہو لاتے ہیں اور وہ اگلے روز ہی سے الگ ہونے کا مطالبہ کرنے لگتی ہے، نئے نئے خرچ نکال کر سامنے رکھ دیتی ہے۔

دونوں صورت حال سے نمٹنے کے لیے گھر کے بزرگ سامنے آئیں اور ایک دوسرے کو سمجھائیں کہ گھر کے نئے فرد کو کچھ وقت دیں اس کی غلطیوں پر اسے سمجھائیں نہ کہ طنز کے تیر چلائیں۔ کچھ غلط ہو جائے تو اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں اور علاحدگی میں سمجھائیں نہ کہ سب کے سامنے بے عزت کریں۔ بہو، ساس، نند کی ان بن یا چپقلش تقریباً ہر گھر میں ہی چلتی ہے، مگر اسے مثبت رخ دیں۔ گھر کا امن قائم رکھنے کے لیے سبھی برابر کی کوشش کریں۔

بہو کو بلا وجہ تنقید کا نشانہ نہ بنائیں اور نہ ہر آنے والے کے سامنے اس کی برائیاں کریں۔ بہو کو بھی چاہیے کہ سسرال والے اسے عزت دے رہے ہیں، تو اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے، بلکہ ان کا احترام کرتے ہوئے ہر معاملے میں ان کا ساتھ دے۔ شوہر کی ذمہ داریوں میں ساتھ دے۔ گھر کے سب افراد مل کر ایک نئے فرد کو اپنے رسم و رواج کے مطابق ڈھال سکتے ہیں، بس تھوڑا سا وقت دیں اور انتظار کریں کہ بہت جلد سب روزمرہ کاموں کی سرگرمیاں سیکھ جائیں گے۔ تھوڑا صبر اور برداشت ہی تو چاہیے، جو آپ کے گھر کے ماحول کو منفی اثرات سے بچا کر مثبت رخ دے سکتی ہے۔

ایسا نہ ہو کہ نندیں آئیں اور اپنی راج دھانی چلاتے ہوئے سب کچھ الٹ پلٹ کرنے کی کوشش کریں۔ یہ گھر کے بزرگوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنے مسئلے حل کریں، نہ کہ بیٹیوں کو بولنے کی عادت ڈالیں، یہیں سے صورت حال خراب ہوتی ہے جب بڑی چھوٹی نندیں ماں باپ کے گھر حکمرانی کرنے چلی آتی ہیں، تو بات بننے کی بہ جائے بگڑتی چلی جاتی ہے، اس لیے کوشش کیجیے کہ معاملہ بیٹیوں تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے، بلکہ ساس سسر ہی مل بیٹھ کر رفع دفع کرلیں۔

یہ بات درست ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، اس لیے مان لیجیے کہ ہر جگہ بہو ہی مظلوم نہیں ہوتی، بلکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں بہو لانے کی خوشی میں ساس پھولے نہیں سماتیں، وہیں بہوؤیں آکر گھر کا سکون خراب کر دیتی ہیں۔ لاڈ محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں اور شوہر کی محبت کی رتی بھر پرواہ نہیں کرتی۔ بس تھوڑا صبر کریں، دیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔ وقت اور حالات بہت کچھ سکھا دیتے ہیں۔

غلط رویے بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں اور کسی دوسری صورت میں سبھی کے کس بل نکل جاتے ہیں اس لیے بس اپنے دل کو سمجھائیں اور ساری چیزیں اللہ پر چھوڑ دیں، اگر آپ بہو ہیں یا ساس ہیں، تو اپنے حصے کا مثبت کام کرکے باقی معاملات رب پر چھوڑ کر بدلہ لینے کا خیال ذہن سے نکال دیجیے۔ اس کے ساتھ اپنی منفی سوچوں کو مثبت رخ دینے کی کوشش کیجیے، تاکہ آپ کا ضمیر مطمئن اور پُرسکون ہو اور آپ خوش گوار زندگی گزار سکیں۔

بدلے یا انتقام کا جذبہ نہ ہونے کا مقصد اپنی زندگی کا سکون برقرار رکھنا ہے۔ زندگی بہت کم ہے اور سکھ کے لمحے اس سے بھی کم۔ اس لیے یہ سوچ کر کہ آپ کیوں کسی منفی سرگرمی میں اپنا وقت لگائیں، اپنے آپ کو اس سوچ سے الگ کرلیں۔

اکثر ہم انتقام خود کو اونچا دکھانے کے لیے دیتے ہیں اور مخالف کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ آپ اس سے زیادہ زورآور ہیں، اس لیے شکست اسی کو ہوگی، ممکن ہے کہ اس مسابقت میں آپ جیت بھی جائیں، لیکن اس کے بدلے میں آپ کا جتنا وقت ضایع ہوگا وہ کبھی نہیں مل سکے گا، جب کہ اگر آپ انتقام لینے سے گریز کا طریق اپنائیں گی تو بہت ممکن ہے کہ دوسرا فریق خود شرمندہ ہو یا ایک وقت کے بعد اسے ندامت ہو جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں