اُردو مزاح کی تاریخ اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
زندگی کو سنجیدہ ماحول نے جہاں کچھ معاملات میں جکڑ رکھا ہے، وہیں مزاح نے زندگی کو ایک نیا موڑ دیا ہے
بیسویں صدی کی ابتدا میں بہت سے مزاح نگاروں نے اُردو ادب وصحافت میں اپنے قلمی جوہر دکھائے، جن میں شوکت تھانوی، عظیم بیگ، مُلا رموزی، سجاد انصاری، چراغ حسن حسرت اور عبدالمجید سالک شامل ہیں، جبکہ قیامِ پاکستان کے چودہ برس بعد ادب وصحافت کی نگری میں برصغیرکی سر زمین پر کچھ ایسے ناموں نے جنم لیا جنہوں نے مزاح نگاری کو ایک نئی پہچان دی۔
ایسے چہروں میں محمد خالد اختر، مشتاق احمد یوسفی، ابنِ انشا، کرنل محمد خاں، سید ضمیر جعفری، یوسف ناظم، دلیپ سنگھ، سید محمد جعفری، مجید لاہوری، طفیل احمد جمالی جیسے لوگوں نے ساٹھ کی دہائی میں اُٹھنے والی ظرافت کی فضا کو خوشبو دارکیا۔ یہی خوشبو عنایت علی خاں، مشفق خواجہ، صدیق سالک، مجتبیٰ حسین، انور مسعود، مستنصر حسین تارڑ، عطا الحق قاسمی، فاطمہ بنت سراج، مظفر بخاری، سرفراز شاہد، صولت رضا، کرنل اشفاق، اعتبار ساجد سمیت دیگر شخصیات تک پھیلتی چلی گئی۔
ٹی وی ڈراموں میں کمال احمد رضوی، اطہر شاہ، یونس جاوید، منو بھائی، ذوالقرنین حیدر، یونس بٹ نے اُداس چہروں پہ تبسم کے پھول کھلانے لگے۔ اکیسویں صدی میں مزاح نگاری کا سفر آج بھی رواں دواں ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے ان تمام مزاح نگاروں کے تذکروں پر مبنی "اُردو مزاح کی تاریخ" لکھنے کا ایک منفرد کارنامہ انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ایک باکمال اور ہنر مند لکھاری ہے، انہوں نے اُردو نثر میں طنز و مزاح کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اس مقالہ کو آج "اُردو مزاح کی تاریخ" کی صورت میں کتابی شکل میں اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
بقول مشفق خواجہ کہ "ڈاکٹر اشفاق نے پی ایچ ڈی کا مقالہ نہیں لکھا بلکہ پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے والوں کیلئے مثال قائم کی ہے۔" ڈاکٹر اشفاق احمد ورک تین دہائیوں سے معیاری مزاح لکھنے میں مصروف رہے، ان کی تخلیق کردہ تصنیف"اُردو مزاح کی تاریخ" میں شامل مضامین میں کٹھے میٹھے دونوں طرح کے ذائقے ملتے ہیں،کیوں کہ مزاح من کی افسردہ کلیاں کھلانے کا تیز بہدف نسخہ ہے، زبانوں اور بدلتے ہوئے رویوں سے لگے زخموں کیلئے مرہم ہے، معاشرے کا حُسن ہے، دنیا کی ہر زبان کے ادب کی آبرو ہے، مزاح خوشگوار زندگی کا زیور ہے، مزاح زیست کی مشکلیں آسان بناتا ہے، مزاح ایک عطیہ خداوندی ہے، مزاح شخصیت کا نکھار ہے، پاکستان کے نامور کامیڈین ہم سب کے ہر دلعزیز سہیل احمد عزیزی بتاتے ہیں کہ "میرے نزدیک مزاح معاشرے میں گری پڑی جزئیات کو پلکوں سے چُن کے ہونٹوں پہ سجانے کا عمل ہے۔"
سہیل احمد ایک زندہ دل آدمی ہے۔ ان کے نزدیک دنیا میں زندہ دل ہونا، زندہ ہونے سے بھی زیادہ اہم ہے۔مائیکل اینجلو سے کسی نے پوچھا "آپ اتنے خوبصورت مجسمے کیسے بنا لیتے ہیں؟" اس سوال کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ "خوبصورت مجسمہ تو پہلے سے اندر موجود ہوتا ہے، میں صرف اضافی پتھر ہٹا دیتا ہوں۔" یعنی آپ کی خوشی آپ کے اندر چھپی ہوئی ہے، ضرورت صرف اُوپر سے خواہ مخواہ کے تفکرات، جھوٹی اناؤں اور بے جا ہوس کے پتھر کو دور کرنے کی ہے۔
زندگی سدا بہار موسم کا نام ہے، جس میں خزاں اور بہار دونوں موجود ہیں، جیسے غم کا تعلق خوشی سے اور خوشی کا غم سے۔ کیوں کہ ہر انسان فطری طور پر مسرت کا طالب ہے چونکہ زندگی میں خوشیاں کم اور غم زیادہ ہیں۔ کچھ لوگ باہر کے خوشگوار موسم میں ہنسنا پسند کرتے ہیں تو وہیں اپنے اندر کے اُداس موسم کے ہاتھوں کچھ پل کیلئے آنکھوں کو اشک بار بھی کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنا غم بھول کر دوسروں کا غم بانٹنے کو عبادت سمجھتے ہیں۔
زندگی کو سنجیدہ ماحول نے جہاں کچھ معاملات میں جکڑ رکھا ہے، وہیں مزاح نے زندگی کو ایک نیا موڑ دیا ہے جہاں انسان کٹھن کا شکار ہونے کی بجائے تازہ اور تندرست فضا میں سانس لے سکے۔ مشتاق احمد یوسفی مرحوم کا ایک خوبصورت جملہ یاد آیا "مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے" جیسے غم کو بھول کر مسکرانے کا نام زندگی ہے۔"اُردو مزاح کی تاریخ" میں طنزو مزاح کو معاشرے کی ایک اہم ضرورت تصور کیا گیا ہے۔
"مصلح اعظم ﷺ اور مزاح" موضوع کے اعتبار سے یہ مضمون منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ جس کا آغاز قرآن پاک کے فرمان سے کیا گیا ہے "کان الانسان عجولا" یہ انسان ہے ہی بڑا جلد باز۔ انسان کی یہ جلد بازیاں، پھرتیاں اور تیزیاں جنت میں بسر کرتے اس کے باوا آدمؑ کے عجلت اور بہکاوے میں آ کے ممنوعہ پھل کھانے سے شروع ہوئی تھیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ جس پر تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ "اپنی انھی جلد بازیوں کی بنا پر انسان غلطیوں پر غلطیاں کیے چلا جاتا ہے اور خطا کا پتلا کے نام سے مشہور ہے۔ بقول منیر نیازی:
جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں عمر بھر میں نے جو بویا نہیں
اس کتاب کے صفحہ نمبر 27 پر اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ"آپؐ مزاح فرماتے تھے اور ارشاد کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچا مزاح کرنیوالے پرگرفت نہیں کرتا، نسلوں سے بھٹکی ہوئی آدمیت کو راہ راست پر لانے اور برائی کے مرغوب و مغضوب راستے سے ہٹانے کیلئے ان کا اعتماد حاصل کرنا اور دلوں کو جیتنا نہایت ضروری تھا جو شگفتہ مزاجی اور ظرافت و دل لگی کے بغیر نا ممکن تھا کیوں کہ آپؐ کی شخصیت میں نبوت کا رعب داب اس قدر ہوتا تھا کہ اگر آپؐ زندہ دلی اور مزاح کا انداز اختیار نہ کرتے تو لوگ بہت زیادہ مرعوب ہو جاتے۔"
اس کتاب میں شگفتہ مزاج غالب، مزاحِ اکبر، پطرس بخاری اُردو مزاح کا امام، مزاح نگار منٹو، مشتاق احمد یوسفی کے سوسال، مایوس صحرائی سے ابنِ انشا تک، بَل کسر کا مزاح نگار، ایک بڑا تحریف نگار سید محمد جعفری، اُردو مزاح کا راجا مہدی علی خاں، اُردو مزاح کا ضمیرِ مطمئن، بھارتی مزاح کے کچھ اور نگینے، معاملہ فہم عطاء الحق قاسمی، مولانا عامر عثمانی اور اصلاحی مزاح، فکاہی صحافت کا علم بردار مجید لاہوری، ہر فن مولا انور مسعود، شگفتہ شاعری کا بھید ڈاکٹر انعام الحق جاوید، بابو نگر کا بابو حسین احمد شیرازی، موجیں مارتا یونس بٹ، حسین مجروح کا مرطبان، ڈاکٹر بدر منیر ایک واقفِ حال مزاح نگار، امجد چشتی اور تاریخِ بے ادبی، اُردو مزاح کا زنانہ ڈبہ، الیکٹرانک میڈیا اور مزاح، بچے اور مزاح اور دیگر مضامین شامل ہیں۔جن میں معروف مزاح نگاروں کے تذکرے بڑی خوبصورتی اور صاف گوئی کیساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے عبدالستار عاصم لکھتے ہیں کہ "ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے اُردو طنز و مزاح کے ساتھ تعلق کی کئی جہتیں اور سطحیں ہیں، وہ تین دہائیوں سے نہ صرف خود منفرد اور معیاری مزاح لکھ کر اس میدان کے بڑے بڑوں سے داد وصول کر چکے ہیں بلکہ ان کی تنقید، تدریس، تحقیق اور تالیف کے سارے زاویے بھی اسی شعبے کو کھنگالنے، اجالنے پر منعکس ہیں۔" زیرِ نظر کتاب "اُردو مزاح کی تاریخ" ان کے طویل مشاہدے، مطالعے اور علمی و ادبی ریاضت کا نچوڑ ہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے بقول "دوستو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مزاح اصل میں المیے کو طربیے میں بدل دینے کا ہنر ہے۔ کثافت کو لطافت کی تعبیر عطا کر دینے کا فارمولا ہے، آنسوؤں کے نمک کو ہنسی کی چمک میں تبدیل کرنے کا جادو ہے۔ تیوری میں مسکراہٹ کا تاثیر بھر دینے کا نسخہ ہے۔ مصیبتوں اور کُلفتوں کے اُوپر اُلفتوں کا رنگ چڑھا دینے کی کیمیائی ہے۔" اس خوبصورت معیاری کتاب کو لاہورکے معروف اشاعتی ادارے قلم فاؤنڈیشن نے بڑے اہتمام کیساتھ شائع کیا ہے۔ آخر میں جعفر بلوچ کا ایک شعر۔
قہقہوں سے جو غم ادا نہ ہُوا
کیا ادا ہو گا دیدۂ تر سے