تبدیلی کی کنجی … آخری حصہ

عالمی سامراج ان ملکوں کی معاشی پالیسیاں اپنے فائدے کے لیے ان ملکوں کے غدار حکمرانوں سے بنوا کر ایسے ملکوں کے عوام ...


خالد گورایا June 18, 2014

لاہور: ''برطانوی اور امریکی کیپٹلزم میں پیداوار کا نفع پیداوار کی شکل میں نہیں لیا جاتا بلکہ اس میں پیداوار پر زیادہ سے زیادہ نفع زر (کرنسی) بڑھا کر زیادہ سے زیادہ زر اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ ٹرائیکا اس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ''زر'' ذخیرہ اندوزی کر کے حاصل کرتی ہے اور جس جس نسبت سے زر کی شکل میں نفع اکٹھا کیا جاتا ہے اسی نسبت سے پیداوار میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔'' کرہ ارض پر آج 128 ممالک امریکی سامراج کے معاشی غلام اور سامراجی ادارے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے مقروض ہیں۔

عالمی سامراج ان ملکوں کی معاشی پالیسیاں اپنے فائدے کے لیے ان ملکوں کے غدار حکمرانوں سے بنوا کر ایسے ملکوں کے عوام کی خوشحالی چھین رہا ہے۔ عوام میں آئے روز معاشی بدحالی میں اضافہ ملک پر قابض ٹرائیکا (جاگیردار+ سرمایہ کار+ اعلیٰ بیوروکریٹس) کی سامراج نواز پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، یہاں پر مالی سال 2011-12کے ریونیو 25 کھرب 68 ارب 6 کروڑ روپے حکومت نے عوام سے وصول کیے۔ اس میں سے ملکی اور غیر ملکی قرض ادائیگی 10 کھرب 37 ارب 20 کروڑ 50 لاکھ روپے کی گئی، جو ریونیو کا 40.38 فیصد بنتا ہے۔

اسی ریونیو میں سے دفاع پر 19.74 فیصد اور ترقیاتی اخراجات پر 28.49 فیصد استعمال کیے گئے، نتیجہ سامنے ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ پاکستان معاشی غلام ملک بنا دیا گیا ہے۔ عوام کا سرمایہ بڑی تیزی سے سود اور نفع کی شکل میں باہر منتقل ہو رہا ہے۔ 2010-11میں امپورٹ 15 ارب 60 کروڑ 40 لاکھ ڈالر (13 کھرب 34 ارب 43 کروڑ 90 لاکھ روپے) سے خسارے میں تھی، جو ریونیو کا 59 فیصد بنتا ہے۔ پھر 2011-12ء میں 21 ارب 27 کروڑ 10 لاکھ ڈالر (18 کھرب 98 ارب 48 کروڑ 80 لاکھ روپے) سے خسارے میں گئی۔ یہ ریونیو کا 2011-12 میں 74 فیصد بنتا ہے۔ امپورٹ میں اضافہ Currency Devaluation Minus Economic Development کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

3 جون 2014ء تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی 2.879 فیصد تھی، جس نسبت سے پاکستان پر سڈمڈ CDMED یعنی غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس بڑھتا جائے گا، اسی نسبت سے پاکستان کی تمام اشیا سامراجی بلاک کے لیے سستی ہوتی جائیں گی اور عوام کے لیے بیرونی مارکیٹ اسی نسبت سے مہنگی ہوتی جائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات کے CDMED کی وجہ سے مہنگی ہوتی گئیں۔ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، نجکاری، صنعتی کلچر کی تباہی، بے روزگاری، بدامنی اسی نسبت سے بڑھتی جا رہی ہے۔

امریکی کیپٹلزم کی غیر منصوبہ بند معیشت اور پیداوار کو برائے پیداوار بڑھانے کے بجائے پیداوار پر نفع زر بڑھائے جانے سے پیداواروں میں کمی ہوتی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں امپورٹ بڑھتی گئی ہے۔ اگر امپورٹس پر سرمایہ نفع کی شکل کی میں اپنے ملک میں ہی استعمال ہو تو اس کا فائدہ عوام و ملک کو ہو گا۔ قرضوں پر اگر سود و اصل زر بند ہو جائے تو ملک اور عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہو گا۔ جوں جوں غیر ملکی مالیاتی مداخلت بڑھتی جائے گی توں توں ملکی معیشت تباہ اور ملکی دفاعی انتظامی ادارے فیل ہوتے جائیں گے۔ حکمران ووٹ عوام سے لیتے ہیں اور سامراجی حکم کی تابعداری کرتے ہیں۔ حکمرانی جب تک متضاد رہے گی، عوام کی خوشحالی کی نفی ہوتی رہے گی۔ 9 جون 2014 کو کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ حکمرانوں کی سامراجی نواز پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انڈیا بھی سامراج کا معاشی غلام ملک ہے۔ انڈین روپے کی قیمت میں 3 جون 2014تک 1.659 فیصد ڈالر کے مقابلے میں کمی ہو چکی تھی۔ انڈین بجٹ، تجارت خسارے میں ہے، کتاب International Debt Statistics 2013 جسے ورلڈ بینک نے واشنگٹن سے شایع کیا۔ اس کے صفحے 22 پر انڈیا سامراج کا 3 کھرب 34 ارب 33 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا 2011 تک مقروض ملک تھا۔ جو انڈین روپے میں 200 کھرب 59 ارب 86 کروڑ بنتے ہیں۔

ملکی قرضہ اس کے علاوہ تھا۔ اس طرح انڈین نئی حکومت کو انڈین سرمایہ کار اور سامراج اپنے نفع کے لیے استعمال کریں گے۔ جو انڈین عوام کی معاشی بدحالی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ اس طرح لا آف یونیورس کے مطابق ہر شے وحدت سے کثرت میں تبدیل ہوتی ہے۔ گلہری اپنی خوراک اسٹاک کر لیتی ہے۔ شہد کی مکھی اپنی نسل کے تحفظ کے لیے شہد اکٹھا کر لیتی ہے۔ انسانوں کے اندر سرمایہ کار اور جاگیردار زیادہ سے زیادہ زر کو اکٹھا کر کے پیداواری عمل کے بڑھنے کو روک دیتے ہیں۔ اور یہی عمل قدرتی عمل میں رکاوٹ بن کر عوام کی خوشحالی کی مسلسل نفی کرتا جا رہا ہے۔

سرمایہ کاروں، جاگیرداروں کا یہ نظریہ نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداواریں عوام کی خوشحالی کے لیے بڑھائی جائیں- ٹرائیکا غیر ملکی قرضے لیتی ہے۔ عوام کو باہر جا کر ڈالر خرچ نہیں کرنے ہوتے حکمران ہی ڈالر کا قرض لے کر باہر خرچ کرتے ہیں، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو کوئی خسارہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ اپنا نفع لے کر نقصان عوام کو منتقل کر دیتے ہیں۔ تمام معاشی سسٹم صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ نفع زر پیداواروں پر حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اس کیپٹلزم میں پیداواروں کو ٹرائیکا زر (کرنسی) میں قید کر دیتا ہے اور عوامی معاشی آزادی ازم میں پیداواروں کے بڑھنے پر زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ پیداواری عمل کو کیپٹلزم سے آزاد کیے بغیر عوامی ترقی ناممکن ہے۔ پاکستان کی ٹرائیکا کی نوسر بازیاں عوام کے سامنے ہیں۔

ہر دور میں ٹرائیکا نے عوام کو دھوکا دیا۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا نام لے کر کبھی اسلامی نظام کا نام لے کر۔ اور آج کل پھر عوام کو دھوکے بازوں نے گھیرنا شروع کر دیا ہے۔ کس انقلاب کی بات کرتے ہیں؟ ان میں سے کسی لیڈر نے آج تک سامراجی امریکا اس کے اتحادیوں مالیاتی اداروں کے معاشی جرائم کے بارے اور عوام کی معاشی آزادی پر آج تک زبان نہیں کھولی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ عوام کے اندر ہر شخص کے اندر تبدیلی کی کنجی موجود ہے۔ ہر شخص ملک میں ملکی اور غیرملکی ایجنڈوں پر کام کرنے والوں کو پہچان لے تو پھر اندر سے جاگ کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان ظالموں لٹیروں کی تمام دیواریں گرا کر اپنے ہاتھوں کی عوامی زنجیر بنا کر ان کو جہنم رسید کر دیں۔ جب تک عوام اپنی آزادی کے لیے ملکی غداروں سے جنگ نہیں کریں گے اس وقت تک معاشی آزادی کا حصول ممکن نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |