اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ

ججز خط کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا متفقہ موقف پیش کیا جائے گا، فل کورٹ اجلاس اعلامیہ


فیاض محمود April 23, 2024
فل کورٹ اجلاس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والے جج بھی شریک ہوئے—فائل: فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججز نے فل کورٹ اجلاس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت ختم کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے مستقبل میں اس قسم کی کسی بھی مداخلت پر بھرپور ادارہ جاتی ریسپانس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

فل کورٹ اجلاس میں تمام ججز نے اپنی تجاویز پیش کیں جن کو ڈرافٹ کی شکل دے کر مقررہ وقت سے پہلے سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا۔

عدالتی امور میں انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں کی مبینہ مداخلت کے معاملے پرچھ ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط کے بعد از خود نوٹس کیس کی سماعت کے آرڈر کی روشنی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس بابر ستار ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز سمیت تمام ججز فل کورٹ اجلاس میں شریک ہوئے جبکہ رجسٹرار ہائی کورٹ کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی اجازت نہ مل سکی۔

باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فل کورٹ اجلاس میں ججز کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ تمام ججز اس بات پر متفق ہوئے کہ عدالتی امور میں کسی بھی مداخلت پر ادارہ جاتی ریسپانس دیا جائے۔

ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت روکنے کے لیے مختلف اقدامات کرنے سے متعلق تجاویز بھی زیر غور آئیں۔ متفقہ تجاویز کو ڈرافٹ کی صورت میں حتمی شکل دے کر مقرر ہ تاریخ سے قبل سپریم کورٹ کو بھجوادیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق فل کورٹ اجلاس میں تجاویز پر کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا اور فل کورٹ اجلاس انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ فل کورٹ اجلاس کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ اجلاس چیف جسٹس عامر فاروق کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججز نے شرکت کی۔

اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ہائیکورٹ ججز کے خط کے حوالے سے سپریم کورٹ از خود کیس کے دوران ہائیکورٹ کا متفقہ موقف پیش کیا جائے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں