ڈاکٹر محمد حمید اﷲ

ڈاکٹر حمید اﷲ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جس کی سترہ پشتوں نے مسلسل سرزمین ہند۔۔۔


Rafiuzzaman Zuberi June 17, 2014

تذکرہ خطاطین کے مصنف محمد راشد شیخ نے ڈاکٹر حمید اﷲ کے بارے میں جو کتاب مرتب کی ہے وہ ان پر کام کرنے والوں اور آیندہ نسلوں کے لیے ایک Source Book ہے۔ انھیں اس نوعیت کی کتاب مرتب کرنے کا مشورہ ڈاکٹر نبی بخش مرحوم نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ عظیم شخصیتوں کی سوانح عمریاں تو ان کے مرنے کے بعد لکھی ہی جاتی ہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک ایسی کتاب ہے جو حمید اﷲ صاحب کے بارے میں مجموعہ معلومات ثابت ہو۔

کتاب ''ڈاکٹر محمد حمید اﷲ ... حیات، خدمات، مکتوبات'' میں راشد شیخ نے ان کے مضامین کو شامل کیا ہے جو ڈاکٹر حمید اﷲ کے عقیدت مند ہیں اور جنھوں نے ان کو قریب سے دیکھا یہ سب ہی صاحب علم لوگ ہیں اور ان کی تحریروں سے حمید اﷲ صاحب کی زندگی، ان کی شخصیت، ان کے علم اور دینی خدمات کے تمام پہلوئوں پر نظر پڑتی ہے، کچھ اصحاب کے نام ان کے خطوط بھی جو اس کتاب میں شامل ہیں، ان کی شخصیت کے بعض گوشوں کو نمایاں کرتے ہیں۔

ڈاکٹر حمید اﷲ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جس کی سترہ پشتوں نے مسلسل سرزمین ہند میں دین اسلام کی خدمت کا شرف حاصل کیا ان کے بھتیجے احمد عطاء اﷲ نے ڈاکٹر صاحب کے اجداد کی دینی خدمات کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ڈاکٹر حمید اﷲ نے ان روایات کو زندہ رکھا۔ انھیں اپنے ماضی کا علم تھا اور اس کی اہمیت کا بھی مگر ان کا مطمع نظر کچھ اور تھا۔ پروفیسر عبدالرحمن مومن لکھتے ہیں ''ڈاکٹر صاحب کے ایک رشتے دار نے ان سے دریافت کیا کہ ہماری تاریخ کیا ہے اور ہم لوگ کہاں سے آئے تھے، ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا تمھیں اس بات کی اتنی فکر کیوں ہے ہم لوگ کہاں سے آئے تھے، تمھیں تو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔''

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی فرماتے ہیں ''ڈاکٹر محمد حمید اﷲ بیک وقت قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ، سیرت، ادب، تقابل ادیان اور انٹرنیشنل لاء وغیرہ کے موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اس امتیازی شان کے علاوہ ان کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے بیک وقت انگریزی، فرنچ، جرمن، اردو، عربی، پانچ زبانوں میں اور غالباً ترکی میں بھی لکھا ہے، ان کا تیسرا امتیاز یہ ہے کہ وہ پہلے مسلمان ہیں جنھوں نے قرآن کریم کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا ہے اور ان کی چوتھی شان یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں پر سیکڑوں لوگوں نے پیرس میں اسلام قبول کیا ہے۔''

ڈاکٹر حمید اﷲ کے بے شمار علمی اور تحقیقی کارنامے ہیں، انھوں نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا، فرانسیسی زبان ہی میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت پر دو جلدوں میں ایک کتاب لکھی، ڈاکٹر صاحب کے اپنے بیان کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ ان کے مقالے ہیں جو شایع ہوئے ایک سو ساٹھ سے زیادہ ان کی کتابیں ہیں، وہ 1948ء میں حیدرآباد دکن پر ہندوستان کے قبضے کے بعد پیرس چلے آئے تھے، اس کے بعد وہ واپس نہیں گئے۔

ان کی زندگی کا بڑا حصہ، نصف صدی سے اوپر فرانس اور پیرس میں گزرا، ڈاکٹر نثار احمد اسرار کہتے ہیں کہ اگر ان کا پہلا وطن عیسائیت کا مرکز فرانس تھا تو دوسرا وطن مسلمان ملک ترکی تھا، ڈاکٹر حمید اﷲ کو ترکی سے ایک گونہ محبت تھی خصوصاً اس وجہ سے یہاں ان جیسے علم کے پیاسے کے لیے سیکڑوں کتب خانے اور آرکائیوز موجود تھے جن میں قرآن مجید و حدیث اور دوسرے علوم و فنون کے عربی، فارسی اور ترکی میں لاکھوں کی تعداد میں نادر نسخے دستیاب تھے۔ 1952ء سے 1978ء تک تقریباً تیس سال متواتر مہمان استاد کے طور پر ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کے لیے بلائے جاتے رہے۔

ڈاکٹر حمید اﷲ استنبول یونیورسٹی، اتاترک یونیورسٹی، ارض روم میں پڑھاتے تھے، انقرہ یونیورسٹی صرف اس وقت جاتے جب انھیں لیکچر کی دعوت دی جاتی، ڈاکٹر صاحب قرآن، حدیث، علم کلام اور سیرت النبیؐ پر لیکچر دیتے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ لیکچر عربی زبان میں دیتے اور کوئی با اختیار استاد ترکی میں اس کی ترجمانی کرتا لیکن سوال کرنے والوں کے جوابات وہ ہمیشہ اسی زبان میں دیتے جس میں سوال کیا جاتا۔ سوال ترکی، عربی، فرانسیسی یا انگریزی کسی زبان میں کیا جاتا۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''ڈاکٹر حمید اﷲ کو ترکی میں میں نے ہمیشہ اچھے سوٹ میں ملبوس دیکھا۔ وہ جیب میں دو عدد قلم ضرور رکھتے۔ ان کی خوب صورت داڑھی تھی۔ ٹوپی بالوں والی پہنتے تھے جیسی پاکستان کے شمالی علاقوں یا ترکستان میں استعمال کی جاتی ہے۔ وہ علمی معاملات میں دیانت اور تعلقات میں شرافت کے قائل تھے، ان کے پاس پیسہ ہمیشہ ہوتا تھا مگر دوسروں ہی کے کام میں آتا۔ وہ کفایت شعار تھے مگر کنجوس نہیں تھے۔ ترکی کے دوران قیام ڈاکٹر صاحب گوشت کھاتے تھے مگر بہت کم۔ زیادہ تر ترکاری، دال، آلو پر گزارا کرتے تھے۔''

ڈاکٹر حمید اﷲ پیرس میں سترھویں صدی کی تعمیر کردہ ایک عمارت کی بالائی منزل کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اس میں اوپر جانے کے لیے لفٹ نہیں تھی، ایک چوڑے زینے سے جانا پڑتا تھا۔ فلیٹ میں بس دو کمرے اور ایک چھوٹا سا باورچی خانہ تھا۔ وہ تنہا، سادگی کے ساتھ رہتے تھے۔ رفاقت کے لیے کتابیں تھیں جو ہر طرف پڑی نظر آتی تھیں۔ شادی انھوں نے کی نہیں تھی۔ نوکر وہ رکھتے نہیں تھے کہ وہ وقت ہی ضایع کرے گا۔ اپنا کھانا ناشتہ خود بنا لیتے تھے۔

اسرار احمد مینائی جو ڈاکٹر حمید اﷲ کے قدیم ترین شاگرد تھے لکھتے ہیں ''ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی محدود بلکہ محدود ترین ضروریات سے گزار دی اور نظر ہمیشہ اپنے نصب العین پر رکھی۔ وہ حقیقت میں غنی، عالم با عمل اور صحیح معنوں میں اپنے نام نامی کا مصداق تھے۔ عمر کے ہر دور میں پاکیزگی، اعلیٰ سیرت و کردار کا نمونہ، علم نافع کا حصول اور اس کی اشاعت بس یہی ڈاکٹر صاحب کی کامیابی اور سرخرو زندگی کا راز تھا۔''

راشد شیخ نے اپنی کتاب میں وہ خطوط بھی شامل کیے ہیں جو ڈاکٹر حمید اﷲ نے مظہر ممتاز قریشی کو ان کے خطوط کے جواب میں پیرس سے لکھے تھے۔ یہ خطوط اس سے پہلے شایع ہو چکے ہیں اور جب یہ چھپے تھے تو انھیں بہت پسند کیا گیا تھا۔ ان خطوط سے ڈاکٹر حمید اﷲ کے مزاج اور خیالات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بہت سے معاملات میں ڈاکٹر صاحب کے نقطۂ خیال کا اظہار ہوتا ہے، کچھ باتوں کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے اور ڈاکٹر صاحب کی صاف گوئی کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک خط میں وہ لکھتے ہیں ''میری فرانسیسی کتاب سیرت اور ترجمہ قرآن کے نئے ایڈیشن ابھی پروف ہی کی نوبت تک پہنچے ہیں۔

مجھے ان سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے یعنی میں نہ ناشر ہوں اور نہ فروشندہ۔ مجھے غالباً ایک ایک نسخہ ہی ملے گا کیوں کہ یہ میں نے اسلامی انجمن طلبہ کو تحفے میں دے دی ہیں'' ایک اور خط میں فرماتے ہیں ''کاش کوئی صورت ہو کہ اس چوراسی سالہ بوڑھے کو اب احباب بھول جائیں اور آرام کرنے دیں۔ میرے خیالات کی ذرا بھی اہمیت نہیں۔ خط نویسی بھی میرے لیے اب بار ہو گئی ہے'' مظہر ممتاز قریشی نے ایک خط میں جب ڈاکٹر صاحب سے میدان حشر کے بارے میں پوچھا کہ کس طرح لوگ جمع ہوں گے اور اﷲ کے حضور کس طرح جوابات دیں گے اور کتنے عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، کیا وہ بغیر غذا کے زندہ رکھے جائیں گے یا انھیں جنت کے میوے کھانے کے لیے دیے جائیں گے وغیرہ تو اس کے جواب میں ڈاکٹر حمید اﷲ نے لکھا ''میدان حشر جیسے مسئلے سے نہ مجھے دلچسپی ہے اور نہ واقفیت۔ شاید کوئی لکھے گا تو پڑھوں گا بھی نہیں۔

یہ خدا کے اسرار ہیں عالم غیب کے'' مظہر ممتاز قریشی نے ڈاکٹر صاحب کو لکھا کہ وہ ان کی سوانح عمری چھاپنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ان کے دوست جو پیرس میں رہتے ہیں وہ آ جایا کریں گے اور ڈاکٹر صاحب ان کو لکھواتے رہیں۔ ڈاکٹر حمید اﷲ نے اس کا انھیں یہ جواب دیا ''میری سوانح عمری سے مجھے دلچسپی نہیں، بلکہ چڑ ہے۔ اس کی تالیف میں میری مدد کا کوئی سوال نہیں۔''

مظہر ممتاز قریشی نے 1984ء اور 1994ء کے درمیان ڈاکٹر حمید اﷲ کو 230 خط لکھے اور ڈاکٹر صاحب نے ہر خط کا جواب دیا۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد لکھتے ہیں کہ مظہر ممتاز نے خطوط لکھ کر ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ کیوں کہ ان خطوط سے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے ایسے اہم گوشے سامنے آئے ہیں جو ڈاکٹر صاحب کی افتاد طبع کی وجہ سے کبھی ظاہر نہ ہوتے، پردہ اخفا میں رہتے۔ڈاکٹر حمید اﷲ کے خطوط میں ایک خط محمد عالم مختار حق کے نام ہے جو قابل توجہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب ان کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں ''آپ کے سوال کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ''بنیاد پرست'' کی جگہ ''بنیاد پسند'' لکھ لیجیے۔ پرستش صرف خدا کو سزاوار ہے، یہ نیا لفظ ہے۔ معلوم نہیں انگلستان سے نکلا یا فرانس وغیرہ سے ترجمہ ہو کر انگلستان و امریکا پہنچا۔ مطلب نرم الفاظ میں مسلمانوں پر چوٹ کرنا، ان کو گالی دینا ہے، ان لوگوں کے نزدیک سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جو محض بے دین، گناہ گار ہو اور سب سے برا وہ جو اسلام کے احکام کی پوری تعمیل کرتا ہو۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں