لیاری آپریشن کے 12سال مکمل

آپریشن کے دوران اہل لیاری کو پریشانی تو ہوئی اور سیکڑوں خاندان نے لیاری سے نقل مکانی کی


Shabbir Ahmed Arman April 21, 2024
[email protected]

لیاری آپریشن کو12 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ 27 اپریل 2012ء کو لیاری گینگز کیخلاف ایس ایس پی چوہدری اسلم کی سربراہی میں پولیس آپریشن کا آغازکیا گیا تھا، جو چار مئی کی شام تک، یعنی آٹھ دن جاری رہا۔

لیاری آپریشن کو آئی جی سندھ کے حکم پر اچانک روک دیا گیا تھا، اس آپریشن میں ایس ایچ او سول لائن اور پولیس اہلکاروں سمیت 52 شہری شہید ہوئے اور 107شہری زخمی ہوئے تھے، تاہم ایک بھی انتہائی مطلوب ملزم گرفتار نہیں ہوا، جبکہ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ آپریشن کے دوران 22 اہم ملزمان کو گرفتارکر کے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق آپریشن میں ایک لاکھ سے زائد گولیاں استعمال کیں، متعدد بکتر بند گاڑیاں اور پولیس موبائلیں تباہ ہوگئیں، سی آئی ڈی انسداد انتہا پسندی سیل کے ایس ایس پی چوہدری اسلم کی سربراہی میں ہونیوالے آپریشن میں شہر بھرکی پولیس نے حصہ لیا تھا۔ لیاری آپریشن ختم ہونے پر پولیس افسران و اہلکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور انہوں نے گلے مل کر ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔

آپریشن کے دوران اہل لیاری کو پریشانی تو ہوئی اور سیکڑوں خاندان نے لیاری سے نقل مکانی کی، اس وقت کی پی پی پی کی حکومت نے ایک بار پھر لیاری کو فتح کرنے کیلئے آپریشن کے دوران جاں بحق ہونے والوں کو فی کس 10لاکھ ، زخمیوں کو ایک لاکھ سے پانچ لاکھ، متاثرہ تمام گھروں، فلیٹوں اور عمارتوں کی مرمت سرکاری خرچ پر کروانے کے علاوہ 10سے20 ارب روپے لیاری پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس پر کس حد تک عمل درآمد کیا گیا یہ ایک الگ داستان ہے۔ لیاری کے حالات کراچی کے حالات سے جڑے ہوئے تھے۔

آیے، اس وقت کے کراچی کے حالات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ جب کراچی بیروت بن چکا تھا، اس کے پانچوں اضلاع مختلف گروپوں نے آپس میں تقسیم کر لیے تھے۔ لیاری کے چاروں تھانے چاکیواڑہ،کلاکوٹ، بغدادی اور کلری لیاری گینگزکے قبضے میں تھے، یہ لوگ 60 فیصد علاقے کو نو گو ایریا بنا چکے تھے۔ لیاری گینگز تھانوں میں کانسٹیبل تک اپنی مرضی کے لگواتے تھے اور یہ بھی ان کی اجازت کے بغیر علاقے میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔

صدر کے سات تھانے کھارادر، میٹھا در، نیپئر، عیدگاہ، رسالہ، گارڈن اور نبی بخش تھانے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے پاس تھے۔ یہ ساتوں تھانے اولڈ سٹی ایریا میں واقع ہیں، یہ علاقے کراچی کا معاشی حب ہیں، اس میں روزانہ چار ساڑھے چار ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے، رنچھوڑ لین،کھارادر، میٹھادر اورگارڈن کے علاقے اسی ایریا میں واقع ہیں اور یہ ایم کیو ایم کے پاس تھے۔ لیاری گینگز ان علاقوں میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایم کیو ایم مزاحمت کر رہی تھی اور اس مزاحمت کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے تھے۔

راز داں کا یہ بھی کہنا تھا کہ محمود آباد اور چنیسر گوٹھ بھی صدر میں واقع ہے، یہ دونوں پوائنٹ منشیات فروشوں کے قبضے میں تھے۔ کلفٹن کے علاقے کیماڑی اور مچھرکالونی بھی ڈرگ مافیا کے پاس تھے، ویسٹ زون کے زیادہ تر علاقے بھی مختلف قوموں کے درمیان تقسیم ہوچکے تھے، کٹی پہاڑی اور قبضہ کالونی پختون کے پاس تھے، یہ علاقے اورنگی کے قریب ہیں، اورنگی مہاجر آبادی ہے، ان دونوں کے درمیان بنارس چوک ہے اور یہ چوک برسوں تک میدان جنگ بنا رہا، یہ دونوں علاقے ایم کیو ایم اور اے این پی نے آپس میں تقسیم کر رکھے تھے اور یہ کسی دوسری طاقت کو اپنے علاقوں میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔

پاک کالونی کراچی کا سب سے بڑا نو گو ایریا تھا، یہ علاقے بھی بلوچوں اور مہاجروں نے آپس میں تقسیم کر لیے تھے، یہاں تنگ گلیاں ہیں اور ان گلیوں میں بھی کوئی داخل نہیں ہوسکتا تھا، بلدیہ ٹاؤن کا مواچھ گوٹھ منشیات فروشوں کے قبضے میں جاچکا تھا، نیوکراچی کے علاقے مذہبی تنظیموں نے اپنے قبضے میں لیے ہوئے تھے اور ان میں بھی پولیس داخل نہیں ہوسکتی تھی۔

گلستان جوہر میں واقع رابعہ سٹی میں ہزاروں فلیٹس ہیں، ان فلیٹس کو ایم کیو ایم اور اے این پی نے آپس میں تقسیم کر رکھا تھا، یہاں بھی مورچے قائم کر کے اس علاقے کو مجرم پیشہ لوگوں نے اپنے کنٹرول میں لیا ہوا تھا۔ سچل گوٹھ کو سندھیوں اور مہاجروں نے آپس میں تقسیم کر لیا تھا، ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع فلیٹس بھی اے این پی اور ایم کیو ایم نے آپس میں تقسیم کر لیے تھے، شاہ فیصل کالونی ایم کیو ایم کے قبضے میں تھا اور کچھ علاقے اے این پی کے پاس بھی تھے، ملیر کے علاقے مہران گوٹھ، کھوکھرا پار، غریب آباد اور شیر پاؤ کالونی ایم کیو ایم حقیقی کے پاس تھے۔

گلشن حدید کا علاقہ سندھیوں اور مہاجروں کے پاس تھا۔ لانڈھی، کورنگی کا علاقہ چکرا گوٹھ سندھیوں اور مہاجروں میں تقسیم ہوچکا تھا، جمشید ٹاؤن کے علاقے جہانگیر روڈ اور جیل روڈ پر ایم کیو ایم اور بلوچوں کے درمیان لڑائی چلتی رہی ہے اور سہراب گوٹھ منشیات فروشوں اور اسلحہ مافیا کے پاس تھے اور اس پر بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ کراچی کے 101تھانوں میں سے 45 حکومت کے ہاتھ سے نکل چکے تھے، ان تھانوں کے اہلکار تنخواہ حکومت سے لیتے تھے لیکن حکم مافیا اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگزکا مانتے تھے ، ان علاقوں میں نہ کوئی داخل ہوسکتا تھا اور نہ ہی حکومتی رٹ تھی ۔ یعنی کراچی کے پانچ حصے دار تھے ایم کیو ایم، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی، ایک مذہبی تحریک اور مافیاز۔

شہر کراچی ان پانچوں نے آپس میں تقسیم کرلیا تھا، شہرکراچی کا 45 فیصد حصہ نو گو ایریا بن چکا تھا، گلیوں میں بیریئر لگے ہوئے تھے، ان بیریئرز کیساتھ کلاشنکوف بردار لوگ کھڑے ہوتے تھے اور پولیس کا کوئی اہلکار ان علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ قبل ازیں شہرکراچی پر صرف ایم کیو ایم کا قبضہ تھا، یہ پارٹی بھتہ بھی لیتی تھی اور لوگوں کو عبرت کی نشان بھی بناتی تھی لیکن بعد میں شہر کراچی میں پارٹیاں بن چکی تھی، یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اور حکومتی اداروں کو اس کا علم نہیں تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کیا آگ کا دھواں نہیں اٹھتا تھا اور اگر اٹھتا تھا توکیا یہ دور سے دکھائی نہیں دیتا تھا ؟

کراچی کا دھواں پاکستان کی ہر مقتدر شخصیت اور ہر مقتدر شعبہ کو نظر آرہا تھا لیکن سب خاموش تھے، یہ سب کسی نہ کسی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے اور ان کا کہیں نہ کہیں انٹرسٹ کامن تھا، چنانچہ یہ کراچی کے مرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بعد ازاں کراچی میں رینجرز کا آپریشن شروع ہوا اور کراچی پھر امن کا گہوارہ بن گیا ہے۔

قبل ازیں 1992ء میں بھی کراچی میں آپریشن کلین اپ کیا گیا تھا، اس آپریشن میں 198پولیس افسران نے حصہ لیا تھا، آپریشن ختم ہوا تو ان اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی، یہ اہلکار ایک ایک کر کے قتل کیے جاتے رہے، پندرہ برسوں میں ان میں سے 194 لوگ قتل کردیے گئے، ذرائع کے مطابق یہ تعداد 300 تھی، پولیس آج تک 194 اہلکاروں کے قاتلوں کوگرفتار نہیں کرسکی۔

پولیس نے اپنے مقتول اہلکاروں کی فائلیں تک بند کردی ہیں، ان پولیس اہلکاروں میں بے شمار لوگ اپنے ڈیپارٹمنٹ سے سیکیورٹی مانگتے رہے لیکن سرکار نے انھیں گارڈز اور اسلحہ دینے سے انکارکردیا، چنانچہ یہ لوگ گلیوں، ہوٹلوں، چوکوں اور اپنے گھروں میں قتل ہوتے رہے، اس فہرست کے صرف چار اہلکار زندہ ہیں۔ یہ چار بھی معافی مانگ کر اورکسی نہ کسی بڑی شخصیت کی سیکیورٹی میں جا کر زندہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں