عام انتخابات اور کچھ تذکرہ سماجی سرگرمیوں کا
شکیل خان نے خطوط نویسی کے پس منظر کو نہایت خوبصورت انداز میں نظر سامعین کیا
8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوا۔ بعض جماعتوں کی جانب سے توقع کی جارہی تھی کہ انتخابات کے نتائج ان کی مرضی کے مطابق سامنے آئیں گے مگر ان کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں جب نتائج ان کی مرضی کے مطابق منظر عام پر نہ آ سکے۔
جلسہ، جلوس یا جلسیاں دیکھنے کو نہ ملیں کیونکہ ان جلسے جلوسوں کا انعقاد عوام کے جوش و خروش اور دلی جذبات کے اظہار کا مظہر ہوتا ہے، حتیٰ کہ پارٹیوں کے کارکنان کی سرگرمیاں تک دیکھنے کو نہ ملی۔ عوامی ردعمل سرد مہری کا شکار رہا۔
کچھ عوامی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ اب ملک میں انتخابات کے نام سے چند بااثر افراد کی تعیناتی کر لی جاتی ہے، ووٹ کی حیثیت محض رسمی ہو کر رہ گئی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ قصہ پارینہ بن کر رہ گیا۔ الیکشن کے انعقاد میں آنیوالے اخراجات علیحدہ ہیں جو ظاہر ہے ملک کے خزانے پر اثر انداز ہوں گے۔ انتخابات کے نتائج کے بعد جمہوری عمل تو جاری رکھنا ضروری امر ہے۔
ورلڈ بینک، عالمی مالیاتی فنڈ کے بھاری قرضوں میں دبی ریاست کی صوبائی اور وفاق کی سطح پر اسمبلیوں میں جمع فوج در فوج پر آنیوالے اخراجات کا تو شمار کجا۔ یہ سچ ہے کہ جس خطے میں بیش بہا وسائل کی دولت کے انبار لگے ہونگے وہاں ڈکیتیوں کا ہونا ایک لازمی امر ہے۔
قومی دولت کا ضیاع تو ہوا ہی ہوا بلکہ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے دس دن کیلئے بند بھی رہے تو یوں ملک کے مستقبل کے معماروں کا ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔ ویسے بھی پاکستان دنیا کا وہ واحد منفرد ملک ہے جہا ں کمیشن کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہمارے ہاں کسی قسم کی سیاسی بصیرت ہے۔
ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں بیشتر مقتدر حلقوں کا تعلق کاروباری اشرافیہ اور وڈیرہ شاہی سے رہا ہے۔ ملک کی حکمرانی ایسے ہی خاندانوں کی میراث ہے۔ یہ ہر حکومت میں اہم حصے کے طور پر شامل ہوتے ہیں۔ اس ملک میں رہنے والے شہری کو قوم کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس طبقے کے ماتحت رعایا ہی میں شمار ہو گا۔ اب کچھ ذکر گزرے ہوئے اسلامی مہینے رجب کے حوالے سے کرتا چلوں کہ یہ مہینہ بڑا بابرکت مہینہ ہے اور بقیہ تمام مہینوں میں افضل ہے۔
انبیائے کرام اور بیشتر بر گزیدہ ہستیاںاسی ماہ رجب میں دنیا میں تشریف لائیں۔ امروہہ سادات کے برگزیدہ بزرگ حضرت سید شرف الدین شاہ ولایت کا وصال بھی دوسرے آئمہ کرام کی طرح اسی مہینے کے بائیسویں ویں روز ہوا جن کی یاد میں نہ صرف امروہہ بلکہ پاکستان میں بھی ان کا عرس منایا جاتا ہے۔ اسی طرز پر ہر سال انجمن سادات امروہہ (رجسٹرڈ) کراچی کے مرکز میں اس تاریخ کو ایک مذاکرہ اور محفل سماع کا انعقاد کرتی ہے۔
وقت کے گزرنے کیساتھ ساتھ ان پروگراموں کی تاریخ بہت پرانی ہو تی جا رہی ہے۔ عاشق شاہ ولایت اور ممتاز اہلسنت عالم سید اصغر درس نے اس مذاکرے میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی اور مفسر قرآن مولانا محمد حسن رضوی نے اس روحانی مذاکرے کی صدارت کے فرائض نبھائے اور دیگر مقررین میں ڈاکٹر ہلال نقوی، فراست رضوی اور پروفیسر سردار نقوی کے فرزند علامہ عمران مہدی نقوی امروہوی نے شرکت کر کے شاہ ولایت کی کرامات کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی۔
نظامت اور میزبانی کے فرائض انجمن سادات امروہہ کراچی کے جوا ئنٹ سیکریٹری سید علی احسان نقوی نے خوبصورت انداز میں نبھائے۔ آرٹس کونسل کراچی میں سال بھر ادبی محفلیں، ثقافتی پروگراموں کا سلسلہ سال بھر کامیابی کیساتھ جاری رہتا ہے۔ ان ہی پروگراموں میں ایک فنی خطاطی مصوری دنیا کا جگمگاتا ستارہ ''صادقین'' کی یاد میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
اس شاندار مصور و رباعی گوشاعر کا تعلق گو کہ ہندوستان کے چھوٹے سے قصبہ امروہہ سے تھا مگر ان کے فن کی شہرت نہ صرف منقسم برصغیر میں تھی بلکہ وہ ایک عالمگیر فنی شخصیت کے طور پر شہر ت حاصل کی۔ ان کے فن پارے پوری دنیا میں پسند یدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاتھ سے تیار کردہ فنی پارے نہ صرف برصغیر ہی میں شہرت رکھتے تھے بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ان فن پاروں کی زبردست پذیرائی بھی ہوئی۔ ان کی عملی زندگی کا کچھ حصہ فرانس کے شہر پیرس میں بسر ہوا۔
اپنے اہل خانہ سے دوری کا احساس ان کے دل و دماغ پر چھایا رہتا تھا، لہٰذا انہوں نے اپنے اس احساس کو خطوط نویسی سے دور کیا، وہ اپنا قیمتی وقت نکال کر اپنے گھر والوں سے کچھ وقت کیلئے جڑ جاتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب آج کل کی طرح انٹرنیٹ کی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ موبائل فری اس دور میں نقل و حرکت کے ذرائع اتنے تیز رفتار نہیں تھے جتنے کہ آج ہیں۔
اندرون ملک اور بیرون ملک دستاویزات کا واحد ذریعہ سرکار کی سرپرستی میں ڈاک خانہ ہوا کرتے تھے۔ منی آرڈر، ٹیلیکس اور ٹیلیگرام سروسز اسی محکمے کے ذریعے عمل میں آتی تھی۔ اسی وجہ سے لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ کا واحد ذریعہ بھی خطوط نویسی تھا۔
برصغیر کے نامور خطاط اور رباعی گو شاعر صادقین کے فرانس کے شہر پیرس میں قیام کے دوران جو خطوط اپنے گھر والوں کو ارسال کیے جو ان کے بھتیجے سید علی سلطان نقوی نے شب و روز محنت کے بعدان تمام خطوط کو ایک جگہ جمع کر کے ایک خوبصورت اور منفرد مجموعہ خطوط ''رقعاتِ صادقینی'' کے نام سے مرتب کروایا اور اس کتاب کی باقاعدہ رونما ئی کی۔
تقریب آرٹس کونسل کے حسینہ معین ہال میں منعقد کروائی جو بلاشبہ اپنی نوعیت کی منفرد تقریب تھی۔ اس تقریب کی صدارت انور مقصود نے کرنی تھی مگر مصروفیت کے سبب ان کی شرکت نہ ہو سکی۔ پروفیسر سحر انصاری جو اس تقریب میں شریک تھے۔ میزبان سلطان احمد نے انور مقصود کی غیر موجودگی میں پروفیسر صاحب کو قائم مقام صدارت کے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔
شکیل خان نے خطوط نویسی کے پس منظر کو نہایت خوبصورت انداز میں نظر سامعین کیا۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر سید جعفراحمد، شائستہ مومن، شاعرہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر اور کتاب کے پبلشر فاروق احمد شامل تھے۔ کتاب کے مصنف سلطان احمد نقوی اپنے چچا صادقین کے ہاتھ سے تحریر کردہ خطوط میں سے کچھ تراشے پڑھ کر سنائے۔