کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
ہر بڑے اور غیر معمولی شاعر کی طرح اقبالؔ کے کلام میں بھی ہمیں جگہ جگہ اس مستقبل گیر بصیرت کے نمونے ملتے ہیں
لاہور:
ہر بڑے اور غیر معمولی شاعر کی طرح اقبالؔ کے کلام میں بھی ہمیں جگہ جگہ اس مستقبل گیر بصیرت کے نمونے ملتے ہیں جس میں آنے والے زمانوں سے متعلق گمان، یقینوں کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ اقبالؔؔ جس زمانے میں یورپ میں قیام پذیر تھے (1905-1908) ان دنوں کمیونزم کا فلسفہ اور نظام اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکراؤ کے بعد پیدا ہونے والی متوقع صورت حال کے بارے میں دنیا بھر کے اہل فکر و نظر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے چونکہ اس نظام کے بہت سے پہلوؤں میں اسلامی مساوات اور معاشی استحصال کے خلاف اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایک طرح کی مماثلت پائی جاتی تھی، اس لیے اقبالؔ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور کارل مارکس کی کتاب ''داس کیپیٹال'' کی اس قدر تعریف کی کہ کارل مارکس کو:
''نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب'' جیسے شاندار الفاظ سے خراج تحسین پیش کیا اور اپنی شاعری میں جگہ جگہ سرمایہ دارانہ نظام سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا اور اسے ظلم کی ایک سنگین قسم قرار دیا۔ اپنی ایک طویل نظم ''خضرراہ'' کے ایک ضمنی عنوان ''سرمایہ و محنت'' کے تحت میں وہ کہتے ہیں۔
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چُن چُن کر بنائے مسکرات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور، مات
یہ باتیں انھوں نے اس وقت کہیں جب ابھی سرمایہ دارانہ نظام کے تخریبی حیلے نہ تو تعداد میں اتنے زیادہ تھے اور نہ ہی ان میں اتنی بوقلمونی تھی جو آج کی وال اسٹریٹ، کارپوریٹ سیکٹر، فنانشل سسٹم، کریڈٹ کارڈز، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف وغیرہ وغیرہ میں دکھائی دیتی ہے۔
کاروباری کمپنیاں کس بے دردی سے عوام الناس کے ساتھ ساتھ اپنے ملازمین کا بھی استحصال کرتی ہیں اس کا ایک بہت دلچسپ نمونہ مجھے برادرم شفیق احمد عباسی نے ای میل کیا ہے۔ اس بظاہر مزاحیہ اور مضحکہ خیز تحریر کے اندر جدید معاشی نظام کی سنگدلی اور انسان کو مشین یا روبوٹ کی طرح استعمال کرنے کے ضمن جو باتیں کہی گئی ہیں وہ مذاق لگتی تو ہیں مگر حقیقت میں مذاق نہیں ہیں۔ ایک بے نام تجارتی کمپنی کی اپنے ملازمین کے بارے میں نئی پالیسی کی تفصیل کچھ اس طرح سے بیان کی گئی ہے۔
-1 لباس۔
آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کام پر ایسا لباس پہن کر آیا کریں جو آپ کی تنخواہ سے مناسبت رکھتا ہو۔ اگر ہم نے آپ کو قیمتی برانڈڈ اشیا استعمال کرتے ہوئے دیکھا تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ آپ کی تنخواہ معقول سے زیادہ ہے اور آپ کو اس میں کسی اضافے کی ضرورت نہیں۔
اگر آپ کا لباس آپ کی تنخواہ کے مقابلے میں کمتر، پرانا اور کم قیمت ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے وسائل کا صحیح استعمال نہیں کر رہے تا کہ آپ بہتر لباس خرید سکیں یعنی اگر آپ اس تنخواہ میں گزارا کر سکتے ہیں تو آپ کی تنخواہ میں کوئی اضافہ درست نہیں۔
اگر آپ کا لباس مناسب، گوارا اور آپ کی تنخواہ کے مطابق ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ آپ کا گزارا صحیح چل رہا ہے اس لیے آپ کی تنخواہ میں کسی قسم کا اضافہ غیر ضروری ہو گا۔
-2 بیماری کے دنوں کی چھٹیاں۔
ہم آپ کی بیماری کے بارے میں کسی ڈاکٹر کے نسخے یا سرٹیفکیٹ کو بیماری کے ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اگر آپ ڈاکٹر کے پاس چل کر جا سکتے ہو تو دفتر بھی آ سکتے ہیں۔
-3 چھٹیاں۔
ہر ملازم کو سال میں 104 دن کی چھٹیاں ملا کریں گی ان دنوں کو عام الفاظ میں ہفتہ اور اتوار کہا جاتا ہے۔
-4 ہنگامی چھٹیاں۔
کسی ہنگامی (فوتگی وغیرہ) وجہ سے چھٹی نہیں ملے گی کیونکہ مرے ہوئے دوست، ہم کار اور رشتہ دار اب آپ کے کسی کام نہیں آ سکتے اور نہ ہی آپ ان کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ کام کمپنی کے ملازمین کی بجائے دوسروں کو کرنے دیجیے۔ بہت ہی ضروری صورت حال میں خیال رکھیے کہ جنازے سہ پہر کے بعد اٹھائے جائیں۔ ہم آپ کو آپ کے لنچ کے وقفے کے دوران اضافی کام کرنے پر ایک گھنٹے کی چھٹی دینے میں خوشی محسوس کریں گے۔
-5 ٹائلٹ کا استعمال۔
ملازمین کے ٹائلٹ آنے جانے میں کمپنی کا بہت سا وقت ضایع ہوتا ہے اس لیے اب اس کے لیے تین منٹ کی سخت پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ تین منٹ کے بعد ایک الارم بجا کرے گا اور ٹائلٹ پیپر کا رول مہیا نہیں ہو گا، ٹائلٹ کا دروازہ آپ سے آپ کھل جائے گا اور کیمرہ آپ کی تصویر لے لے گا۔ دوسری بار خلاف ورزی پر آپ کی تصویر کمپنی کے بلیٹن میں شائع کر دی جائے گی اور اگر اس میں آپ مسکراتے ہوئے پائے گئے تو آپ کو کمپنی کے ذہنی صحت کے قوانین کے تحت ملازمت سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہے۔
-6 لنچ بریک۔
پتلے دبلے لوگوں کے لیے لنچ کا وقفہ 30 منٹ کا ہو گا تا کہ وہ زیادہ کھائیں اور تندرست نظر آئیں۔
عام اور معقول صحت کے ملازمین کے لیے یہ وقفہ 15 منٹ کا ہو گا تا کہ وہ مناسب خوراک کے ساتھ اپنی صحت کو قائم رکھ سکیں۔
موٹے لوگوں کے لیے یہ وقفہ صرف پانچ منٹ کا ہو گا کیونکہ انھیں دبلا کرنے والا مشروب پینے کے لیے اتنے ہی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
آخر میں کچھ اور تفصیلات بھی ہیں مگر ان سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم انسانوں کے انسانوں پر روا رکھے جانے والے اس رویے کی طرف واپس آتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے کہ سرمایہ دار کا دماغ صرف ہندسوں کی زبان جانتا ہے اور جس نظام میں جیتے جاگتے انسان ہندسوں کی شکل اختیار کر جائیں اس کے تحت بننے والا معاشرہ اپنی اصل میں جنگل کے معاشرے سے بھی زیادہ خوفناک ٹھہرتا ہے کہ اس کے بعد انسان، انسان کو کھانا شروع کر دیتے ہیں جب کہ درندے کم از کم اپنے ہم جنسوں کو اپنی خوراک کا حصہ نہیں بناتے۔