کیا نظام امتحانات کی اصلاح ممکن ہے
نظام امتحانات کے لیے اصلاح کا سب سے اہم فیکٹر اساتذہ اور متعلقہ حکام کا خلوص اور ارادہ ہے
تعلیم اور نظام امتحانات کا آپس میں گہرا تعلق ہے یعنی امتحانات کسی بھی نظام تعلیم کا اہم ستون ہیں۔ امتحانات میں دراصل ہمارے تدریسی عمل کا اظہار ہوتا ہے۔
تدریسی عمل ناقص ہونے کی صورت میں امتحانات کے نتائج بھی ناقص ہوں گے۔اس میں شک نہیں کہ تعلیم کے کسی بھی نظام میں امتحانات کا ایک نظام ضرور ہوتا ہے اس کے بغیر نہ تو تعلیمی عمل کی کارگزاری کو جانچا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس بات کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ طلبا نے کیا کچھ سیکھا، یعنی امتحانات کے معیار کا براہ راست تعلق معیار تعلیم سے ہے۔
منطقی طور پر امتحانات اس دوران کی تدریسی سرگرمیوں کی کامیابی کا عکس ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام تعلیم اور نظام امتحانات ان مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔ ہمارے امتحانات میں طلبا کی صرف یادداشت کا امتحان لیا جاتا ہے جبکہ انسانی مصرف میں آنے والی دیگر مطلوب صفات، صلاحیت اور مہارت احاطہ امتحان سے باہر ہیں۔
استاد اور شاگرد سارا سال محض امتحانی پرچوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تدریس و تعلیم کا کام انجام دیتے ہیں، گویا نظام تعلیم ''نظام امتحانات'' ہی کا دوسرا نام بن کر رہ گیا ہے۔اگلی جماعت میں داخلہ، ملازمت، پیشے کا انتخاب وغیرہ مکمل طور پر آخری امتحان کے نتائج پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس لیے اس میں لازمی کامیابی کا حصول طالب علم اور والدین دونوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتے ہیں۔
یہ صورت حال ناجائز ذرائع استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کردی ہے۔ ابھی یا کبھی نہیں کی اس کیفیت کے تحت دھن، دھونس اور دھاندلی کی ہر شکل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات والدین بھی بلاواسطہ طور پر اس عمل میں شریک ہو جاتے ہیں، وہ نچلی کلاسوں میں بچوں کو اپنے اثر و رسوخ اور سفارش کی بنیاد پر کامیاب کراتے ہیں۔ والدین کا یہ طرز عمل بھی بالواسطہ طور پر بدعنوانی کا باعث بنتا ہے۔
امتحانات ایک سال کے عرصے میں منعقد ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں طلبا میں مسلسل محنت کرنے کی عادت پیدا نہیں ہوتی۔ ان حالات میں جیسے ہی امتحانات کے انعقاد کا اعلان ہوتا ہے دوران امتحان بعض طلبا ذہنی پریشانی، نفسیاتی الجھنوں اور اعصابی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ امتحان میں کامیابی کے لیے ناجائز ذرائع کی نت نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔
ان حالات میں پرائیویٹ ٹیوشن جو اب تجارتی اداروں کا روپ دھار چکے ہیں وہ میدان عمل میں آتے ہیں، ان کا علم و تحقیق سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کا زیادہ انحصار خلاصے، گیس پیپر، نوٹس اور Essay وغیرہ پر ہوتا ہے۔ یہ ادارے نصاب تعلیم کو انتہائی مختصر کر دینے کا باعث بن رہے ہیں جس کی وجہ سے نصاب تعلیمی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔
امتحانات میں نقل اب تعلیمی رواج بن گئی ہے اب انفرادی نقل کے بجائے اجتماعی نقل کا رجحان غالب آ رہا ہے۔ اب امتحانی نقل، پرچوں کا آؤٹ ہونا، اساتذہ پر دباؤ، امتحانی پرچوں میں دخل اندازی غرض ہر قسم کی دھاندلی اور دھونس نے امتحانات کی محدود افادیت کو پورے طور پر ختم کر دیا ہے۔
امتحانات میں عدم تحفظ کی وجہ سے دیانت دار اساتذہ امتحانی مراکز پر ذمے داری قبول کرنے سے گھبراتے ہیں، یوں غیر شعوری طور پر بددیانت اور جرائم پیشہ افراد کے لیے راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے نظام امتحانات پرچہ سازی سے لے کر اعلان نتائج تک تمام مراحل بے قاعدگیوں کا شکار ہیں۔ یہ امتحانات فنی نقطہ نظر سے اپنے قابل اعتماد ہونے کا جواز کھو بیٹھے ہیں۔ہمارا امتحانات کا نظام نہ صرف معیار تعلیم کو خراب کرنے کا باعث بنا ہے بلکہ معیار تعلیم کے تصور کو بھی بگاڑنے کا باعث بنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ نظام تعلیم اور نظام امتحانات میں کس طرح اصلاحات لائی جائیں؟ ہم نے طویل عرصے تک ایک سالہ نظام امتحانات کو بھی آزما کر دیکھ لیا اور سمسٹر سسٹم کو بھی، لیکن اس کے باوجود ہم تعلیمی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے۔
میری ذاتی رائے میں ہم نظام امتحانات کی ساری خرابی کو نظام تعلیم یا درسی کتابوں تک محدود کر دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خرابی میں سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار نے زوال کے باعث ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ اس صورت حال میں نظام امتحان کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔
معاشرے میں اگر جرائم کی بھرمار ہوگی تو امتحان دینے کے عمل میں بھی جرائم پیشگی نمودار ہوگی۔ ایک خراب معاشرہ اچھے سے اچھے امتحانی نظام کے سانچے کو خراب کر دیتا ہے۔ طالب علم معاشرے کا ایک حساس فرد ہے جوکہ گرد و پیش میں پھیلی ہوئی بدعنوانیوں سے لازمی متاثر ہوتا ہے۔ جب ذہن میں یہ خیال پختہ ہو جائے کہ بددیانتی ہی کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے تو پھر ہر طالب علم کا اس طرف مائل ہو جانا حیران کن نہیں۔
امتحان کسی بھی نظام تعلیم کا اہم ستون ہے۔ یہ طلبا کو نظام تعلیم سے مربوط رکھنے اور انھیں زیادہ سے زیادہ علمی سرگرمیوں سے فیض یافتہ ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ انھیں کسی صورت میں ایسے بگاڑ پیدا ہونے نہ دیا جائے۔ امتحانی نظام میں بگاڑ کے نتیجے میں ذہین اور پڑھنے لکھنے والے طلبا کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہ تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف وہ طلبا جو کامیابی کے لیے نقل کا سہارا لیتے ہیں وہ فہم و فراست سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ اپنی عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نظام امتحانات کی اصلاح کی جائے۔
میری ذاتی رائے میں نظام تعلیم میں اصلاح کیے بغیر نظام امتحانات میں اصلاح ممکن نہیں۔ نظام تعلیم میں مقصدیت کو فروغ دے کر اس کی ضروریات کا مسلسل تنقیدی اور تجرباتی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ نظام تعلیم کو نظام معیشت سے ہم آہنگ کرنا اور درسی کتابوں کی افادیت کا مسلسل جائزہ لے کر اسے حالات سے ہم آہنگ بنانا ضروری ہے۔
نظام امتحانات کے لیے اصلاح کا سب سے اہم فیکٹر اساتذہ اور متعلقہ حکام کا خلوص اور ارادہ ہے۔ یہ صورت حال قابل غور ہے کہ جو امتحان لیا جائے اس کی مکمل اور معیاری تدریس بھی لازمی ہو، تدریس کا دورانیہ مکمل ہو، نصاب کی تکمیل مکمل ہو، طلبا میں سیاق و سباق کے ساتھ مطالعے کی عادت کو اپنانے پر زور دیا جائے تاکہ ان میں فہم و فراست پیدا ہو سکے۔ امتحانی پرچہ اس طرح ترتیب دیا جائے کہ وہ پورے نصاب کا احاطہ کرے۔ لگے بندھے سوالات سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔
تعلیم وہ شعبہ ہے جو کسی قوم کی ترقی اور خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ مقاصد اسی صورت میں دے سکتا ہے۔ جب اس کی سمت درست ہو، ہماری افسر شاہی کو اس جانب لازمی توجہ دینی چاہیے۔