دستانے 

امریکی صدر جوبائیڈن کے خط کے علاوہ ایک اور خط ملک کے سیاسی، صحافتی حکومتی اور عدالتی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے


MJ Gohar April 03, 2024
[email protected]

امریکی صدر جوبائیڈن کے عہد حکمرانی کا یہ آخری سال ہے۔ اگلی مدت کے لیے ان کے انتخاب کے امکانات بہت زیادہ روشن نہیں۔ ان کی آج تک کی حکومتی مدت کے دوران پاکستان میں تین حکومتیں برسر اقتدار آئیں۔

تین سال سے زائد عرصے تک عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم رہے، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی اور شہباز شریف تقریباً ڈیڑھ سال تک وزیر اعظم رہے۔ مذکورہ دونوں پاکستانی وزرائے اعظم کے عہد حکومت کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن نے کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کو منصب سنبھالنے پر مبارک باد کا پیغام بھیجا اور نہ ہی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے اپنی حکومتی ترجیحات کا ذکر کرنا مناسب سمجھا۔

مبصرین و تجزیہ نگاروں نے جوبائیڈن کے اس غیر سفارتی طرز عمل کو سرد مہری سے تعبیر کرتے ہوئے پاک امریکا تعلقات میں خلیج اور فاصلوں سے تعبیرکیا اور موجودہ علاقائی و عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کے مترادف قرار دیا۔

8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے اشتراک عمل سے قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں شہباز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو امریکی صدر جوبائیڈن نے انھیں خط لکھ کر اپنی جانب سے نئی پاکستانی حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں امریکی تعاون کا یقین دلاتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ عالمی و علاقائی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

اگرچہ امریکی صدر جوبائیڈن کے خط کے ذریعے تین سالہ پاک امریکا حکومتی سطح پر سرد مہری کا خاتمہ ضرور ہوا ہے جو یقینا ایک خوش آیند بات ہے، تاہم جوبائیڈن نے پاکستانی وزیر اعظم کو منصب سنبھالنے پر مبارک باد دینے سے گریزکیا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ امریکی کانگریس میں پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات پر اٹھنے والے سوالات اور تحفظات ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی انتخابات شفاف ہوئے یا دھاندلی زدہ اس حوالے سے امریکی کانگریس کے مطالبات کا کہیں کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی سطح پر ایک واضح موقف سامنے آنا چاہیے۔ تاہم یہ امر قابل اطمینان ہے کہ تقریباً ساڑھے تین سال کے طویل عرصے بعد امریکا کا حکومتی سطح پر پاکستان رابطہ کرنا اور دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ و استحکام دینا اور مختلف شعبوں میں تعاون کی پیش کش کرنا خوش آیند امر ہے۔

حکومتی اور سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس کا بجا طور پر خیر مقدم کیا جانا قابل فہم ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی صدر جوبائیڈن کو لکھے گئے اپنے جوابی خط میں کہا ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہم اور کلیدی حیثیت دیتا ہے بعینہ پاکستان علاقائی اور عالمی امن و سلامتی اور خطے کی ترقی و خوشحالی کے لیے مشترکہ ہدف کے حصول کے لیے مل جل کر کام کرنے کا خواہاں اور منتظر ہے۔

پاکستان اور امریکا کے تعلقات ہمیشہ مد و جزر کی کیفیت سے دوچار رہے ہیں۔ کبھی بہت زیادہ گرم جوشی اور کبھی غیر متوقع اور حیران کن سردمہری امریکی پالیسی کا حصہ رہی ہے۔ سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار سے لے کر 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ تک پاکستان فرنٹ لائن اتحادی رہا۔اس جنگ کے منفی اثرات سے پاکستان داخلی طور پر بری طرح متاثر ہوا اور یہ جنگ وطن عزیز کے اندر کراچی سے خیبر تک پھیل گئی۔

ہم آج تک اس جنگ کے اثرات سے نہیں نکل پائے۔ دہشت گردی کے واقعات کا وقفے وقفے سے ہونا اور قیمتی جانوں کا ضیاع آج بھی امن و امان کو تباہ کر رہا ہے۔ غیر ملکی افراد بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ چینی انجینئروں کو دہشت گردی کے واقعے میں نشانہ بنانا اس کی تازہ مثال ہے'اب امریکا کی پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے اور برف پگھلنے کے پس منظر میں امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل قریب میں پاک امریکا تعلقات میں مزید بہتری اور استحکام پیدا ہوگا جو علاقائی و عالمی امن کے لیے ازبس ضروری ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن کے خط کے علاوہ ایک اور خط ملک کے سیاسی، صحافتی حکومتی اور عدالتی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ محترم و معزز ججز صاحبان کی جانب سے لکھا گیا خط یقینا ایک نہایت حساس معاملہ ہے۔ مذکورہ خط نے ملک کے سیاسی، صحافتی، عدالتی اور عوامی حلقوں میں بحث کا نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے ''سوموٹو'' نوٹس لے کر سات ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دے دیا ہے ، یہ خوش آیند امر ہے کہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ذمے داروں کا تعین ممکن ہو سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں