ایشین ٹائیگر

20 روپے من ہے آٹا ۔ اس پر بھی ہے سناٹا ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔


S Nayyer June 14, 2014
[email protected]

20 روپے من ہے آٹا ۔ اس پر بھی ہے سناٹا ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔ یہ عوامی شاعر حبیب جالب کے اشعار ہیں ۔ 20 روپے من آٹے سے مراد 50 پیسے سیر آٹا ہے ۔ اس زمانے میں کلو گرام کی جگہ سیر استعمال ہوتا تھا ۔ ایک سیر لگ بھگ کلو گرام کے برابر ہی ہوتا ہے ۔ ایک من میں 40 سیر ہوتے ہیں ۔ لہذا 20 روپے من آٹے کی قیمت کا سیدھا سا مطلب ہے کہ پچاس پیسے سیر آٹے کی قیمت ہوجانے پر حبیب جالب چیخ اٹھے تھے اور عوام کو غیرت دلاتے ہوئے فرما رہے تھے کہ 20 روپے من آٹے کی قیمت ہوجانے پر بھی کوئی احتجاج سامنے نہیں آرہا ہے آخر اس سناٹے اور خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ پھر ایوبی آمریت پر طنز کرتے ہوئے وجہ بھی خود ہی بتا دیتے ہیں کہ صدر ایوب زندہ باد ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔ آج آٹا پچاس روپے کلو ہوچکا ہے ۔

میرا دل چاہتا ہے کہ حکمران جو 62 ء کے ایوبی آئین پر لکھی گئی حبیب جالب کی شہرہ آفاق نظم ۔ صبح بے نور کو ایسے دستور کو میں نہیں مانتا ۔ میں نہیں مانتا ۔ کو جلسوں میں جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور جذبات کی شدت میں بہہ کر مائیک توڑ دیتے ہیں ،کسی ایک جلسے میں کم سے کم ایک مرتبہ تو یہ اشعارگنگنا دیں کہ '' پچاس روپے کلو ہے آٹا ۔ اس پر بھی ہے سناٹا '' ۔ میں جانتا ہوں کہ آج کے حکمران یہ اشعار نہیں پڑھیں گے ۔ ہاں پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ آگئی یا پی ٹی آئی کی حکومت آگئی تو کچھ بعید نہیں کہ وہ یہ اشعار پڑھ ہی ڈالیں ۔

اپوزیشن کی ڈراما بازی کرنا نہایت آسان ہوتا ہے ۔ اور خود حکومت کے منہ زور گھوڑے پر سواری کرنا کچھ اور ہی بات ہوتی ہے ۔ مینار پاکستان کے کیمپ میں بیٹھ کر جو دستی پنکھے چلائے گئے تھے اب نہ جانے کس کونے میں پڑے ہوئے ہیں ؟ علی بابا چالیس چور اسی ملک میں موجود ہیں لیکن گرفت میں نہیں آرہے اور اس لیے گرفت میں نہیں آرہے کہ انھیں پکڑنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ علی بابا اور چالیس چور پکڑے جائیں یا نہ پکڑے جائیں کیونکہ اس سے پہلے کون پکڑا گیا ہے ؟ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہو یا نہ ہو، لیکن بس ایک معصوم سی خواہش ہے کہ کسی جلسے میں لہک لہک کر اپنی سریلی آواز میں 50 روپے کلو ہے آٹا ۔ اس پر بھی ہے سناٹا ایک مرتبہ ضرور سنا دیں۔

آخر وہ جالب کے عاشقوں میں شامل ہیں اور جالب نے صرف '' میں نہیں مانتا '' کی صرف ایک ہی نظم تھوڑی کہی ہے ۔ '' لاڑکانے چلو ، ورنہ تھانے چلو '' ۔ ہر بلاول ہے دیس کا مقروض ، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے ۔ اور صر صر کو صبا اور ظلمت کو '' ضیا '' کیا کہنا یہ بھی اسی عوامی اور انقلابی شاعر کی تخلیقی صلاحیتوں اور بے باک و نڈر بات کہنے کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ کیونکہ یہ تمام نظمیں جالب صاحب نے اس وقت کہیں جب یہ صاحبان اقتدار اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ آج ن لیگ ایک مرتبہ پھر اس ملک کے راج سنگھاسن پر براجمان ہے ۔ کیا اسے پچاس روپے کلو آٹے کا مطلب سمجھ میں آتا ہے ؟یا سمجھنا نہیں چاہتی ۔

وہ اسحاق ڈار کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لیے تن من دھن سے کام میں جتی ہوئی ہے ۔مگر کیا 50 روپے کلو آٹے کی قیمت کے ساتھ پاکستان ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے ؟ بجلی کی موجودہ لوڈشیڈنگ کے دورانیے اور فی یونٹ قیمت کے ساتھ ہم ایشین ٹائیگر بن کر چھلانگ لگا سکتے ہیں ؟ ایشین ٹائیگر کے ائیرپورٹ پر دہشت گرد منظم حملہ کرسکتے ہیں ؟ سوال یہ نہیں کہ ہم نے یہ حملہ ناکام بنا دیا اور تمام دہشت گرد مارے گئے ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ حملہ ہوا ہی کیوں ؟ دہشت گرد جس مقام تک پہنچ گئے تھے اس مقام تک تو ان ممالک کے ائیرپورٹس تک بھی نہیں پہنچ سکے جو ایشین ٹائیگر بننے کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہیں۔

کولڈ اسٹوریج میں موجود سات عدد بے گناہ لوگوں کو ہم بچا نہیں سکے کیونکہ ہمارے پاس انھیں بچانے کے لیے جو مشینری اور آلات درکار ہیں وہ موجود ہی نہیں ہیں کیونکہ ہماری ساری توجہ ایشین ٹائیگر بننے پر مرکوز ہے ، اور ہم ایشین ٹائیگر بننے جا رہے ہیں ۔ وزیر خزانہ پرانے قرضے چکا کر نئے قرضے لے رہے ہیں جو ان کی مدت اقتدار ختم ہونے کے بعد واجب الادا ہونگے ۔ یعنی ادائیگی عوام ہی کریں گے ۔ اور دعویٰ یہ ہے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے ۔ آٹا پچاس روپے کلو اور پیٹرول ایک سو آٹھ روپے لیٹر ہے ۔ مزدور کی دہاڑی 300 روپے سے زیادہ نہیں اور ہم ایشین ٹائیگر بننے جارہے ہیں کیونکہ ہم نے لاہور میں میٹرو بس چلادی ہے جسے سبسڈی دیکر چلایا جارہا ہے ۔ اب ہم 24 ارب روپے سے یہ میٹرو بس دوسرے شہر میں چلانے جا رہے ہیں ۔

بجلی پر سبسڈی ہم نے واپس لے لی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کو سبسڈی دینا پسند نہیں ہے ۔ ہم کراچی سے لاہور تک موٹر وے بنانے جارہے ہیں کیونکہ ہم نے ایشین ٹائیگر بننا ہے اور دنیا میں نام پیدا کرنا ہے ۔ ہم بھاگ بھاگ کر ترکی کے دورے کر رہے ہیں اور وہاں سے بریفنگ لے لے کر آرہے ہیں کہ ترکی ٹائیگر کیسے بنا ؟ ہم ترکی کے تعاون سے میٹروبس کے منصوبے تو لے کر آگئے ، لیکن ہم نے وہاں یہ مطالعہ نہیں کیا کہ ترکی نے اپنے عوام کی قوت خرید میں اضافہ پہلے کیا پھر میٹرو بس چلائی ۔ اپنے عوام کو پہلے اتنا خوشحال کیا کہ وہاں کی فوج جس کا ترکی میں آئینی کردار تھا ، عوامی قوت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ترک عوام نے موجودہ حکومت کے حق میں بیلٹ بکس بھر دیے ۔ اور ہم ایشین ٹائیگر بننے کے خواہشمند بلدیاتی انتخابات کروانے سے ہی خوفزدہ ہیں۔

توانائی کے خوفناک بحران ، مہنگائی کے بے لگام گھوڑے پر سوار ہماری اشرافیہ امن و امان کو تہہ بالا کرنے والے دہشت گرد ۔ اشیاء صرف کی قیمتوں پر نظر رکھنے والی اتھارٹی کی عدم موجودگی اور لسانیت و صوبائیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اور مسلکی سیاست کرنے والے پیشہ ور سیاستدانوں کی موجودگی اور سب سے بڑھ کر تعلیمی نظام کے مختلف معیار رکھنے والے ملک صرف میٹروبس چلانے اور موٹر وے بنانے سے ایشین ٹائیگر نہیں بن جاتے ہیں ۔ پہلے اس ملک میں متوسط طبقہ تو پیدا کرلو ، جو کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں تو اکثریت انتہائی غریب اور ایک اقلیت انتہائی امیر ہے ، جب متوسط طبقہ موجود ہی نہیں ہے تو کیسا ایشین ٹائیگر ؟ ہاں ایک صورت ضرور ہے ایشین ٹائیگر بننے کی اور وہ یہ کہ جاپان ، کوریا ، چین اورانڈیا رضاکارانہ طور پر '' بھیگی بلی '' بن جائیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں