ارتقاء کی مسافتیں

کیا اب پاکستان ان اقدار تک واپس پہنچ پائے گا؟جن کی نشاندہی جناح نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں کی تھی


جاوید قاضی March 31, 2024

محسوس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اس ملک پر جیسے دو سوچوں کا تسلط ہو، دو الگ الگ نظریے ہیں۔ان دنوں سوچوں اور نظریات میں گھمسان کی جنگ ہو۔ یہ نظریے ہمیشہ ایک ساتھ چلے مگر کچھ ایسے کہ کبھی ایک نظریہ دوسرے پر حاوی ہوتا اور کبھی دوسرا نظریہ پہلے پر حاوی رہتا۔بس ایک ہی شخصیت تھی جس نے اس ملک کو بنایا باقی یا تو کہانیاں ہیں یا پھر فسانے۔

قائداعظم نے11 ستمبر کی تقریب میں پاکستان کا نظام دے دیا تھا مگر وہ بہت جلد ہی چل بسے، جناح کے جانے کے بعدپاکستان پر قبضے کا کام شروع ہو گیا ،وہ ملک جس کے بننے کا ذریعہ جمہوریت تھی، اسی جمہوریت کو بڑا بے آبرو کر کے نکا لا گیا اور مذہب کو بیچ میں لایا گیا۔یہاں سیکولر ازم کی تشریح لادینیت کی گئی بلکہ اردو لغت میں بھی سیکولرازم کی یہی تشریح کی گئی۔

آج 76 سال بعد یہ دنگل اپنے آخری راؤنڈ میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ ہم بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے تناظر میں پرکھتے رہے ہم جیسے بہت سے لوگوں کے لیے بھٹو ہیرو تھے اور ضیاء الحق ولن مگر حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق کا سیدھا ٹکراؤ جناح سے تھا۔جناح ایک سوچ اور ایک نظرئیے کا نام تھااور جنرل ضیاء الحق ایک الگ سوچ اور نظرئیے کا نا م ہے۔

اس بار کچھ معاملہ ایسا جڑا کہ وہ جہاد جو ہم نے امریکا کی آشیرواد سے لڑا اور جو بات ہمیں بھی پسند تھی وہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہاں سے چلے گئے مگر ایک نئے طبقے نے یہاں جنم لیا، جو کل تک سا ئیکلوں اور اسکوٹروں پر سواری کرتے تھے آج وہ لینڈ کروزر پر سوار ہوتے ہیں۔بڑا آسان تھا یہاں پر مذہبی انتہا پرستی کے ہتھیار کا استعمال کرکے جمہوریت کی جڑوں کو کاٹنا۔جب براہِ راست شب خون مارنا آسان نہ رہا تو ہم نے اپنی عدالتوں کے ذریعے نظریہ ضرورت کے کارڈ کھیلے۔ہائیبرڈ جمہوریت متعارف کرائی گئی۔

جنرل ضیاء الحق سے اس ملک میں منشیات فروشوں،اسمگلروں کی چاندی لگ گئی۔ہر چیز کی بولی لگنے لگی۔سینیٹ میں سیٹ پیسوں پر مل جاتی تھی۔ خیبر پختو نخوا میںآج باچا خان جیسے لوگ نایاب ہو چکے ہیں جو کل سیکولر افکار کو صوبہ سرحد میں لے کر چلے تھے۔سرحد کے اس پار کابل میں کل جو سرخے ہوا کرتے تھے جنھیں ہم اپنا دشمن سمجھتے تھے اور آج وہاں جو ہمارے دوست ہیں انھیں کے لیے غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ

''ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔

کیوں بندیال صاحب ، مظاہر نقوی کا ریفرنس جوڈ یشل کونسل میں چلانے کے لیے تیار نہ تھے۔کیوں مظاہر نقوی استعفیٰ دے کر بھاگے جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایسا نہیں کیا جب بندیال صاحب نے ان کو بھٹی میں جھونکا تھا۔

تم نے سولی پہ لٹکتے ہوئے جسے دیکھا ہوگا

وقت آئے گا وہی شخص مسیحا ہوگا

ثاقب نثار کے بعد تین اور چیف آئے وہ سب ایک دوسرے کے جیسے ہی تھے۔ان سب نے جیسے حلف لیا ہوا تھا کہ اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دینا،مگر یہ کام آئینی طور پر ہونا ضروری تھا۔ثاقب نثار کی جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز کو برخاست کیا تھا ،کیا اس بارے میں ثاقب نثار کچھ بتائیں گے کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ اب اسلا م آباد ہائی کور ٹ کے چھ ججز کو اسلا م آباد ہائی کور ٹ میں مداخلت نظر آئی ہے۔ایسا پہلے کیوں نہ ہوا؟

اب یہ خاص موقعہ ان کے نوٹس میں کیوں آیا ، ایسا تو زمانوں سے ہو رہا ہے۔اس بات پردراب پٹیل صاحب نے اپنی سوانح عمری میں کیا خوب لکھا ہے کہ کس طرح شب خون مارنے کے بعد جج صاحبان سے حلف لیے جاتے تھے۔کسی سے حلف لیے جاتے تھے اور کچھ ایسے بھی ہوتے تھے جو حلف نہیں لیتے تھے۔کب عدالت نے فیصلے صادر کیے ہیںحاکم وقت کے خلاف! جب دیے ہیں تو حاکم وقت Dejure کوئی اور ہوتا تھا اورDefactoکوئی اوریعنی پس پردہ کوئی اور پس ِ آئینہ کوئی اور ہوتا تھا۔

یہ Disorder عدالتوں میں نہ تھا بلکہ آئین کی شاخ مقننہ میں تھا،یعنی سول اور اسٹیبلشمنٹ کی تقسیم میں خرابی تھی،جس کو آئین ایک ہی صف مانتا ہے۔یہ تقسیم کیوں تھی ؟ یہ تقسیم تھی دو سوچوں اور دو نظریات کی وجہ سے۔سول بالادستی سے انکار کی وجہ سے دو سوچیں اور دو نظرئیے جنم لیتے ہیں۔یہیں سے دو درسگاہیں جمہوریت اور آمریت جنم لیتی ہیں۔کیوں اشرافیہ اس طرح سے تقسیم ہوئی ہے ؟

ایک شرفاء کا گروہ اس سوچ اور نظریے کا حامی ہے جو جنرل ضیاء الحق نے ترتیب دیا تھا کہ طالبان صحیح ہیں، اسلحہ اور منشیات کا کاروبار صحیح ہے۔ سینیٹ کو چلانے کے لیے ایک ادارے کا آدمی کافی ہے، اسی طرح قومی اسمبلی کے لیے بھی اور ارشد ملک جیسے جج نیب عدالتوں کو چلانے کے لیے کافی ہیں۔

جب یہ ٹرینڈ چلا جوڈیشل کونسل میں ریفرنس ڈالنے کا ایسے ججوں کے خلاف جن کے خدوخال مظاہر نقوی جیسے ہیں تو پھر چھ ججوں کی بازگشت سننے میں آئی،جو بھی اس نظریاتی تفریق میں جمہوریت کے خلاف استعمال ہوا ہے اس کے اندر یقینا اقتدار کی ہوس تھی،اثاثے بنانے کاجنون تھا،مظاہر نقوی کی طرح تبھی تو اعجاز الحسن پہلے ہی دوڑے، ریفرنس فائل ہونے سے قبل اور اب یہ سلسلہ لمبا چلے گا۔

یہ تمام حالات اس لیے پیدا ہوئے کی کوئی جامع پالیسی نہیں بنی ہوئی تھی کہ کون بنے گا جج۔جب مظاہر نقوی کو افتخار چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ کا جج بنانا چاہا تو پارلیمانی کمیٹی نے اعتراض اٹھایا اور پروپوزل واپس کردیا گیا، لیکن انیسویں ترمیم کے بعدپارلیمانی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہ رہی۔یہاں سے شروع ہوئی ایک رسم کہ ججوں نے اپنے من پسند وکیلوں کو جج بنانا شروع کردیا۔ا یسی قدامت پسندی کہ جیسے کل تک عمران خان عدالتوں کے پسندیدہ رہے ، اس طرح سے کبھی نہ ہوا۔

میاں صاحب اب جنرل ضیاء الحق کے فلسفے کو الوداع کہہ چکے ہیںاسی طرح آج اسٹبلشمنٹ بھی اس سوچ اور نظریے سے نکل رہی ہے جس کی بنیاد جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق نے رکھی تھی،مگر کیا یہ جنگ اتنی آسان ہے کیونکہ یہ کینسر ہماری ملکی سیاست کی جڑوں تک پہنچ چکا ہے،یہ کینسر افسرشاہی ، نظام انصاف ،صحافیوں، لینڈ مافیااور ٹیکس چور مافیا سب کے اندر بیٹھ چکا ہے۔

سب نے اس ملک کو مل کر لوٹا پھر ان کو عمران خان ملا، سوشل میڈیا اور فیک نیوز جیسے ہتھیا ر ملے۔پہلے نو مئی جیسے واقعات پر اکسایا، پھر آئی ایم ایف کو خط لکھا،یورپی یونین کو خط لکھا، ایک ریڈ لائن تھی جو سب پار کر گئے۔کوئی کسر نہ چھوڑی اب انجام کو پہنچتے نظر آ رہے ہیں۔

کیا اب پاکستان ان اقدار تک واپس پہنچ پائے گا؟جن کی نشاندہی جناح نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں کی تھی۔ایسے کئی سوال ہیں جن کا جواب اب بھی ملتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔عدلیہ کی حقیقی آزادی کے لیے یہ اہم ہے مظاہر نقوی جیسے لوگوں کو بے نقاب کیا جائے ۔ عدلیہ اور عدلیہ کی آزادی کو کوئی خطرہ نہیں،بس ارتقاء کی مسافتوں کو تیز کرو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں