پاکستان بھارت تعلقات حقائق اور فیصلے

عقل مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ بھارت سے تعلقات معمول پر لائے جائیں


Dr Tauseef Ahmed Khan March 27, 2024
[email protected]

سینئر صحافی سہیل سانگی ستر برس کے ہیں۔ ان کا گاؤں جھنجی تھرپارکا پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں ابھی تک بجلی نہیں آئی۔ سہیل سانگی کے گاؤں سے بھارت کی سرحد تقریباً 10-12 کلومیٹر دور ہے۔

سہیل جب بھی سرحدی گوٹھ کرول جاتے ہیں تو انھیں سرحد کے دوسری طرف روشنیوں کے قمقمے نظر آتے ہیں۔ سہیل کہتے ہیں کہ جب 1970 میں کمیونسٹ رہنما جام ساقی کی انتخابی مہم کے لیے اس گاؤں گئے تھے تو دوسری طرف انھیں بجلی کے کھمبوں کے ساتھ سڑکوں پر بسیں دوڑتی نظر آئی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت سے تعلقات معمول پر آجائیں تو بھارتی ریاست راجھستان سے بجلی خرید کر تھرپارکر کو غربت کے غلاف سے نکالا جاسکتا ہے۔ جب سابق صدر پرویز مشرف آگرہ گئے تھے تو تھر ایکسپریس چلنا شروع ہوئی تھی۔ تھر ایکسپریس کراچی سے جودھ پور تک جاتی تھی، اگرچہ یہ ریل گاڑی اس وقت ہفتے میں ایک دن چلتی تھی مگر میرپورخاص کے ریلوے اسٹیشن سے سرحد تک مختلف اسٹیشنوں پر رونق شروع ہوئی تھی، اگر یہ تھرپارکر ایکسپریس روزانہ چلتی اور ہر اسٹیشن پر ریل گاڑی میں سوار ہونے اور اترنے کی سہولت دی جاتی تو اس پورے علاقے میں تجارتی سرگرمیاں تیز ہوجاتیں۔

ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو 1972میں شملہ گئے اور بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی سے معاہدہ ہوا تو اس معاہدہ کے ذریعے 90 ہزار پاکستانی فوجی جوانوں کی رہائی، بھارت نے پاکستان کے 9000 مربع میل کے علاقے پر 1971 کی جنگ میں قبضہ کیا تھا، اس علاقے سے بھارتی فوج کی واپسی کے علاوہ نئی دہلی سے لاہور تک سمجھوتہ ایکسپریس چلانے کا فیصلہ ہوا تھا۔

یہ ریل گاڑی دونوں ممالک کے منقسم خاندانوں کے علاوہ سیاحوں اور تاجروں کی آمدورفت کا سب سے سستا ذریعہ ثابت ہوئی تھی۔ جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر بھارت کے وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری دی تھی تو نئی دہلی اور لاہور کے درمیان دوستی بس چلنا شروع ہوئی تھی۔ اس دوستی بس میں دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے ملک جانے میں خاصی آسانی ہوئی تھی۔

دہلی سے لاہور، کراچی اور دہلی، بمبئی سے کراچی کے لیے پی آئی اے اور ایئر انڈیا کی پروازیں بھی شروع ہوگئی تھیں۔ جب سابق صدر پرویز مشرف آگرہ میں واجپائی سے ملاقات کے لیے گئے تو پوشیدہ وجوہات کی بناء پر خالی ہاتھ واپس آئے تھے مگر کشمیریوں کی سہولت کے لیے کچھ اہم فیصلے ہوئے تھے۔ اب سری نگر سے مظفر آباد تک مسافر بس کے علاوہ تجارت کے لیے ٹرک چلنے لگے تھے، مگر پابندی یہ تھی کہ سری نگر سے آنے والا ٹرک کا سامان راولپنڈی میں کھلنے لگا۔

کشمیری شہریوں کی اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے لیے سرحدی اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو پرمٹ دینے کا اختیار تھا، یوں ہزاروں کشمیری باشندوں کو اپنے پیاروں سے ملنے کا موقع ملا مگر 2019میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی آئینی شقیں ختم کردیں۔ اس فیصلے سے بھارت کے سیکولر آئین پر سیاہ حاشیہ بن گیا تھا۔

تحریک انصاف کی سابقہ حکومت بھارتی جارحیت کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام ہوگئی۔ پاکستان کے دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھارت کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر بن گئے مگر سابقہ حکومت نے حقائق کو محسوس کرنے کے بجائے بھارت سے تعلقات منقطع کر لیے جس کی بناء پر دونوں ممالک کے سفراء کو واپس اپنے اپنے ملک جانا پڑا۔

دونوں ممالک کے ہائی کمیشن کے بیشتر عملے کو اپنے اپنے وطن جانا پڑا۔ بھارت سے زمینی اور ہوائی راستے بند کردیے گئے۔ سابقہ حکومت نے پہلے بھارت سے تجارت مکمل طور پر بند کردی ۔ یوں منقسم خاندانوں کے مصائب بڑھ گئے۔ دونوں ممالک نے ویزا کے اجراء کے طریقہ کار کو سخت کردیا اور محدود تعداد میں ویزے جاری کیے جانے لگے۔

بھارتی حکومت نے پاکستانی شہریوں کے درمیانہ درجے کے ہوٹلوں میں قیام پر غیر اعلانیہ پابندی لگائی ہوئی ہے جس سے مریضوں کے لواحقین مزید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک بڑے اخبار میں شایع ہونے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی بندش کو پانچ سال ہونے کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ریلوے کی 11 بوگیاں واہگہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی خراب ہورہی ہے۔

پاکستان ریلوے کی مال گاڑیوں کی 15 بوگیاں بھارت میں رکی ہوئی ہیں۔ دونوں ممالک کے ریلوے حکام ان بوگیوں کو اپنے وطن بھجوانے کے طریقہ کار پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔ امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی لکھتی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان سال 2020 اور 2021 میں بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے روابطہ قائم ہوئے تھے۔ ان روابط سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور دونوں ممالک نے 2003ء میں ہونے والے غیر رسمی اتفاق رائے (2003 understanding) کی بنیاد پر 2021 میں لائن آف کنٹرول کے احترام پر اتفاق رائے کیا گیا تھا۔

گزشتہ سال ایک اہم تبدیلی اس وقت ہوئی جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری 2023 میں شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے گوا گئے تھے۔ وہ ایسا موقع تھا کہ دونوں ممالک کے وزراء خارجہ مسائل کے حل کے لیے اگلی ملاقات پر اتفاق کرتے مگر بدقسمتی سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ یوں کئی ریاستی اور بہت سے انسانی مسائل کے حل پرکوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ جب گزشتہ ماہ شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تو خود وزیر اعظم مودی نے میاں شہباز شریف کو نیا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی تھی۔

میاں شہباز شریف نے بھارتی وزیر اعظم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ اب بھارت میں انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے اور جون میں نئی بھارتی حکومت اقتدار میں آئے گی۔ دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہوا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی اور ان کے رفقاء اس حقیقت کو تسلیم کرتے رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے مابین معمول کے تعلقات سے بھارت میں ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت اقتصادی لحاظ سے دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہے۔

بھارت کا اس سال جی ڈی پی 3.7 ٹریلین ڈالر ہے جب کہ آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 52 ویں نمبر ہے اور بھارت کے ایک تجارتی وصنعتی گروپ ٹاٹا کا سرمایہ 365 بلین ڈالر ہے، یوں اس گروپ کی معیشت کا سائز پاکستان کی معیشت سے بڑا ہے۔ پاکستان کا اس سال جی ڈی پی کا تخمینہ 1,890.69بلین ڈالر ہے۔

پاکستان کا بیرونی قرضہ گزشتہ دسمبر میں 131.2 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ پاکستان کو ان قرضوں کی ابتدائی اقساط کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط کی ضرورت ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے بجلی،گیس اور پٹرول پر سے سبسڈی ختم کر رہی ہے، یوں مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں عقل مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ بھارت سے تعلقات معمول پر لائے جائیں، یوں بھارت سے سستی اشیاء خاص طور پر ادویات درآمد کی جاسکتی ہیں تاکہ قیمتوں میں استحکام پیدا ہوا۔ بھارت 90ء کی دہائی میں اسی طرح کے معیشت کے بحران کا شکار تھا مگر ڈاکٹر من موہن سنگھ کی پالیسیوں سے بھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ وزیر خارجہ اسحق ڈار کا بھارت سے تجارت کرنے شروع کرنے کی خواہش کا اظہار ایک خوش آیند اقدام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔