متبادل سوچ اور فکر کی آزادی

یہ ایک فرد کی رائے ہے اور اس کا احترام کرنا ہی مہذب معاشرے کی عکاسی کرتا ہے


سلمان عابد March 19, 2024
[email protected]

سیاسی ، جمہوری ، علمی اور فکری معاشروں کی بنیادی خوبی متبادل سوچ اور فکر کو احترام دینے سے جڑی ہوتی ہے ۔آپ کو متبادل سوچ اور فکر سے اتفاق نہ بھی ہو تو تب بھی دوسروں کے نقطہ نظر کو اس بنیادپر عزت دی جاتی ہے کہ یہ ایک فرد کی رائے ہے اور اس کا احترام کرنا ہی مہذب معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔

بدقسمتی سے ریاستی و حکومتی نظام سے لے کر نچلی سطح تک یا طاقت ور طبقات سے لے کر فرد کی سوچ اور فکر میں اپنی رائے یا اپنے ہی خیالات کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ہمارا سچ محض ہماری ذات یا ہماری خواہشات تک محدود ہوتا ہے اور ہم دیگر افراد کے سچ کو سچ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری جیسی ریاستیں نام پر تو جمہوری ریاستیں کہلاتی ہیں مگر عملی بنیادوں پر جمہوری روایات سے کافی دور کھڑی ہوتی ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں متبادل سوچ تو موجود ہوتی ہے مگر ان کی اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی خاص پزیرائی نہیں ہوتی ۔ جو لوگ متباد ل سوچ یا حکومتی اور ادارہ جاتی نظام پر مختلف رائے رکھتے ہیں یا اس کو ہر سطح پر چیلنج کیا جاتا ہے تو یہ عمل ہمارے ریاستی نظام کو قبول نہیں۔ اہل دانش یا لکھنے یا بولنے والوں پر جب بھی پابندیاں ہونگی تو ایسے معاشروں کی عکاسی گٹھن پر مبنی معاشروں کی ہوتی ہے۔

ہم مجموعی طور پر سیاست، سماجیات ، مذہبی اور علمی و فکری سوچ وفکر کا مقابلہ سیاسی حکمت عملیوں کے بجائے طاقت کے انداز میں کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی طاقت کی زبان نہیں سمجھنا چاہتا تو اس کو ایک مخصوص انداز میں سمجھادیا جاتا ہے یا اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں اظہار رائے پر مختلف نوعیت کی بلواسطہ یا بلاواسطہ طرز کی پابندیاں ہیں یا جبر کا سامنا ہے ۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم متبادل آوازوں یا مختلف مخالفانہ خیالات کو طاقت کے انداز میں دبا سکتے ہیں یا جو لوگ بول رہے ہیں ان کو طاقت کی بنیاد پر پیچھے دھکیلا جاسکتا ہے ، وہ پہلے بھی غلطی پر تھے اور آج بھی غلطی پر ہیں ۔ آج کی دنیا ایک گلوبل ویلج کی مانند ہے اور دنیا کی ہر سطح پر آزادی اظہار کی جدوجہد کو تسلیم کیا جارہا ہے ۔ بالخصوص ایک ایسی دنیا جو ڈیجیٹل دنیا ہے اور جہاں ریاستی، حکومتی ونجی میڈیا کی جگہ پر اپنی آواز کو پہنچانے کے لیے نئی جدت اور نئی جہتیں ڈیجیٹل میڈیا کی صورت میں سامنے آگئی ہیں۔

اس لیے اس حقیقت کو نظراندازکرنے کے بجائے اس کو قبول کرنا ہوگا ۔ڈیجیٹل میڈیا کو برا بھلا کہنا یا اسے شیطانی ہتھیار قرار دینا یا اسے فساد کے طور پر پیش کرنے کی حکمت عملی کارگر نہیں ہوسکے گی ۔ اس ڈیجیٹل دنیا کا علاج طاقت کی حکمت عملی سے نہیں بلکہ علمی اور فکری حکمت عملیوں کی مدد سے ہی ممکن کیا جاسکتا ہے۔ اس کا علاج ڈیجیٹل میڈیا میں فیس بک، ٹویٹر ، انسٹا گرام ، واٹس ایپ یا انٹرنیٹ میں تعطل پیدا کرنا یا بندش کرنا یا اس میں کسی بھی قسم کی رکاوٹیں پیدا کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہوگا۔

ہمیں متبادل آوازوں یا سوچ و فکر سے گھبرانے کے بجائے لوگوں کے سوالات ، تحفظات اور خدشات سمیت مختلف خیالات کو اہمیت بھی دینی ہوگی اور ان کی اہمیت کو سمجھ کر نئے راستوں کو بھی تلاش کرنا ہوگا۔ ہماری ترجیح نئے سیاسی و جمہوری راستوں کی تلاش او رایک مضبوط سیاسی ، معاشی ،انتظامی اور قانونی نظام کی ہی تلاش ہونا چاہیے۔لیکن ان نئے انتخابات کی بنیاد پر جو نیا سیاسی نظام تشکیل دیا گیا ہے جس کی شفافیت پر بھی کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں وہ بھی مختلف نوعیت کے کمزور ڈھانچوں اور کمزور سیاسی بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے۔

لوگ توقع کرتے ہیں کہ کچھ تو بدلنا چاہیے او رایسا کہ ہم سب کو بہتری کا راستہ مل سکے ۔مگر سیاسی و معاشی نظام کی ایک بڑی ناکامی ریاست کی سطح پر موجود وہ مختلف تضادات یا فکری مغالطے ہیں جن کی بنیاد پر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔

ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کی ترتیب ، طریقہ کار اور حکمت عملی پر کسی کا بھی اختلاف کرنا اس کا بنیادی حق ہے ۔یہ حق اسے سیاسی، جمہوری ، آئینی اور قانونی بنیادوں پر بھی حاصل ہے ۔

البتہ یہ ذمے داری لوگوں پر بھی یا اظہار کرنے والوں پر بھی ہوتی ہے کہ وہ اول تنقید اور تضحیک کے درمیان فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں اور بلاوجہ کسی بھی شخصیت یا ادارہ کی تضحیک کرنے کی پالیسی کی حمایت نہ خود کرنی چاہیے اور نہ اس کی حمایت کی جانی چاہیے ۔یہ بات بجا ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے افراد کو اظہار آزادی کی اہمیت اور اس کو استعمال کرنے کا طریقہ کار معلوم نہیں اور لوگ جان بوجھ کر یا لاشعوری طور پر ریڈلائن کو کراس کرجاتے ہیں جو بلاوجہ مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔

ریاستی و حکومتی نظام کو یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ ریاست یا حکمرانی کے نظام کو جس طریقے سے یا غیر منصفانہ اور عدم شفافیت کی بنیاد پر چلانے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس پر لوگوں میں خاص سخت ردعمل پایا جاتا ہے ۔ لوگوں کے جب سوالات اور تحفظات پر نہ تو جواب ملیں اور نہ ہی ان سوالوں کا کوئی عملی حل ہمیں معاشرے کی سطح پر یا حکمرانی کے نظام میں نظر آئے تو ایسی صورت میں لوگوں کو متبادل آواز اٹھانا یا ریاستی یا حکومتی نظام کو چیلنج کرنا فطری امر ہوگا ۔

ریاست اور حکومت کی ذمے داری متبادل آوازوں پر پابندی یا طاقت کے استعمال کے بجائے یہ ہے کہ موجودہ نظام کی خرابیوں کی اصلاح کرے ۔کیونکہ جب لوگوں کے بنیادی نوعیت کے مسائل اور ان کے حقوق کی پاسداری کی جا رہی ہوگی یا ان کو مختلف سطحوں پر سہولیات مل رہی ہونگی تو ردعمل یا منفی سیاست یا منفی اظہار کا بھی خاتمہ ہوگا۔اس لیے ہمیں جو مخالفانہ سوچ نظر آتی ہے اس کا جواب خود حکومتی نظام میں بھی تلاش کرنا چاہیے کہ لوگ کیونکر اس نظام یا اس کے کرداروں کو چیلنج کررہے ہیں اور کیونکر وہ تنقید یا اظہار کرتے ہوئے پہلے سے طے شدہ حدود سے باہر نکل جاتے ہیں ۔

پچھلے دنوں معروف دانشور، مصنف خورشید ندیم کے ادارے ''ادارہ تعلیم و تحقیق '' نے لاہور میں ایک فکری نشست ''پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی ، مذہبی اور سماجی تفریق اور میڈیا کے کردار'' کا اہتمام کیا۔اس فکری نشست کا مجموعی نقطہ میڈیا کے مجموعی کردار اور فکری خیالات کی سطح پر انتہا پسندانہ رجحانات کے اسباب اور علاج تلاش کرنا تھا۔

ایک اہم نقطہ یہ بھی تھا کہ بلاوجہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف مخالفانہ مہم چلانا یا اس کو ساری صورتحال کا ذمے دار قرار دینا بھی درست نہیں ہوگا۔ راقم کا نقطہ بھی یہ ہی تھا کہ اب ڈیجیٹل میڈیا کوایک طاقت اور حقیقت کے طور پر تسلیم کرکے اس میں سے اصلاح کے پہلوؤں کو تلاش کرنا ہوگا۔

برادر خورشید ندیم کا یہ نقطہ وزن رکھتا ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج نے بھی پہلے سے موجود سیاسی اور سماجی تقسیم کو گہرا کیا ہے۔ان کا خیال تھا کہ فکری محاذ پر ایک میڈیا کے تناظر میں ایک ایسا ضابطہ اخلاق سامنے آنا چاہیے جس کو بنیاد بنا کر میڈیا کے کردار کو کسی احتسابی عمل کا حصہ بنایا جاسکے ۔

خورشید ندیم اس نقطہ کو خود بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ بنیادی مسئلہ ہمارے ریاستی نظام میں موجود اپنی سوچ کی بالادستی کا ہے اور جب تک ہم دوسرے نقطہ نظر اور مخالف کی حیثیت یا طاقت کو تسلیم نہیں کریں گے ان کو راستہ نہیں دیں گے مسائل کا حل ممکن نہیں ہوگا۔ یہ جو سماج کی سطح پر گھٹن اور ذہنی آوارگی نظر آتی ہے اس کی وجہ بھی ایک دوسرے کے خیالات کو احترام دینے کے بجائے ان کو تعصب، نفرت ، بغاوت یا غدار کے طور پر تسلیم کرنے کی سوچ غلط حکمت عملی کا حصہ ہے ۔

اس طرز عمل سے ہم مسائل کا حل نہیں بلکہ ان مسائل کو اور زیادہ بگاڑنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس تحریک یعنی متبادل سوچ اور فکر کی بنیاد پر فکری آزادی یا ایک دوسرے کی رائے کو احترام دینے کا عمل تعلیمی اداروں بشمول دینی مدارس کی سطح سے شروع ہونا چاہیے ۔ جامعات اس کام میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن یہاں تو جامعات کا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ بھی علم و تحقیق سے وابستہ ہیں ان کو کس حد تک فکری آزادی حاصل ہے اور کیا وہ ایک متبادل تحقیق کو سامنے لانے میں خود کو آزاد تصور کرتے ہیں ۔

بنیادی طور پر جمہوری معاشروں کا حسن یا اس کی علمی ساکھ فکری آزادی اور متبادل سوچ کو اہمیت دینے یا اس نقطہ کو تسلیم کرنے سے ہی جڑی ہے ۔ یہ جو آج ہماری دنیا میں علمی و فکری بنیادوں یا آزادی اظہار پر درجہ بندی ہے وہ خود ہماری ساکھ پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑے کرتی ہے ۔ اس لیے ریاستی و حکومتی نظام کو سمجھنا ہوگا کہ پرانے خیالات اور فکر یا روائتی اور طاقت سے جڑے انداز کی بنیاد پر معاشرے کو یکجا نہیں کیا جا سکتا ، اس کے لیے ہمیں اپنا طرز عمل بدلنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں