موسمیاتی تبدیلیاں بڑا خطرہ

سال 2023گزشتہ ایک لاکھ برسوں میں گرم ترین سال تھا جس نے دنیا بھر میں گرمی کے ریکارڈ توڑ ڈالے


Zamrad Naqvi March 11, 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

گزشتہ سال دسمبر میں دبئی میں موسمیاتی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا نام CLIMATE CHANGE CONFERENCE OF PARTIES تھا یعنی کوپ ۔ جس میں دنیا کے دو سو ممالک کے رہنماؤں ماہرین موسمیات اور مختلف اداروں نے شرکت کی۔

اس کانفرنس میں انکشاف ہوا کہ سال 2023گزشتہ ایک لاکھ برسوں میں گرم ترین سال تھا جس نے دنیا بھر میں گرمی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ وہ گرمی پڑی کہ الامان الحفیظ۔ خدشہ کیا یقینی بات یہ ہے کہ رواں سال گرمی گزشتہ سال کے بھی ریکارڈ توڑ دے گی۔

منجمد علاقوں میں بڑے بڑے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ ان میں سے کئی گلیشیئر تو اپنے حجم اور وسعت میں بہت سے ممالک کے رقبے کے برابر ہیں۔ گرمی سے پگھل کر آخر کار ان کا پانی سمندروں میں جائے گا۔ جو پہلے ہی لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ تمام ممالک اور شہر جو سمندروں سے چند فٹ یا بہت کم اونچے ہیں غرق آب ہو جائیں گے۔ اس طرح لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر اور تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

وہ ممالک جہاں طویل موسم سرما ہوتا ہے وہاں ایسی گرمی پڑی کہ لوگوں کے ہوش اڑ گئے۔ بہت سے لوگوں کی اموات ہوئیں۔ حتی کہ فرانس اور اسپین کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ممالک کے یہ کرتوت ہی ہیں جس سے یہ خود تو نقصان اٹھا رہے ہیں لیکن پاکستان جیسے بہت سے غریب اور پسماندہ ملکوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

ان ترقی یافتہ ملکوں کی نسبت پاکستان کی غربت پسماندگی بدحالی میں کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے جہاں کی نصف سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔ کیا المیہ ہے پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں عوام کو یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کا یہ جنون ہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو صنعتی اور معاشی میدان میں پچھاڑ دیں۔ جس نے دنیا کو تباہ و برباد کر دیا ہے اس ترقی کا نتیجہ کاربن ڈائی آکسائڈ اور میتھین گیس کی اخراج کی شکل میں جس نے کرہ ارض کے اردگرد لپٹی حفاظتی تہہ اوزون میں سوراخ پیدا کر کے انسانوں اور زمین پر موجود ہر طرح کی حیاتیاتی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ان گیسوں نے ماحولیات کو تباہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں صحراؤں میں برف باری ہو رہی ہے۔ بے موسمی شدید بارشیں تو کہیں خشک سالی۔ دنیا غذائی قلت کا شکار ہو رہی ہے۔ ان اشیاء کی قیمتیں آسمان کو پہنچ رہی ہیں ۔ فصلیں ناقص پیدا ہو رہی ہیں۔ کم خوراکی اور ناقص غذائیت کی وجہ سے انسان خطرناک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ گرمی اور ضرورت سے زیادہ سردی کی وجہ سے فصلیں ناقص پیداوار دے رہی ہیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ انسان کی بے پناہ ترقی نے خود انسان کے اپنے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مشہور انگریز شاعر ورڈزورتھ نے آج سے سو سال پہلے فطرت کی تباہی کا نوحہ پڑھتے ہوئے اس خطرے کی نشاندہی کر دی تھی۔زمین کے درجہ حرارت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

آج سے 30سال بعد 2050تک زمین کے زیادہ تر حصے اتنے گرم ہو جائیں گے کہ وہاں پر انسانی وجود کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ایک ہزار سال بعد ہماری زمین اتنی گرم ہو جائے گی کہ سمندر بھاپ بن کر اڑ جائیںگے۔ ہماری زمین ایک ریگستان میں تبدیل ہو جائے گی اور یہاں سے انسان سمیت ہرجاندار شے کا خاتمہ ہو جائے گا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ فوسل فیولز کا استعمال ہے۔ جن میں تیل گیس کوئلہ شامل ہے۔ ظاہر ہے ان چیزوں کا سب سے زیادہ استعمال امریکا یورپ روس چین جاپان اور بھارت میں سب سے زیادہ ہے جو گرین گیس ہاؤسز کاربن کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

اس میں کاربن مونو آکسائیڈ نائٹروجن آکسائڈ اور میتھین سمیت دیگر مختلف زہریلے کیمیائی مادے شامل ہیں۔ یورپ خاص طور پر جرمنی میں ماحولیاتی سائنسدانوں نے جرمن عوام اور دنیا کو اس خطرے سے آگاہ کیا۔ عوامی شعور اس حد تک جا گا کہ وہاں گرین پارٹی وجود میں آگئی۔ جس کا منشور ہی ماحولیات کا تحفظ تھا۔ یہ بات گزشتہ صدی یعنی 1980کی دہائی کی ہے۔

گرین پارٹی کو عوامی سطح پر اس حد تک مقبولیت حاصل ہوئی کہ اب وہ وہاں کی پارلیمنٹ بندس تاگ میں پہنچ کر اتحادی حکومت میں حصہ دار بن گئی ہے۔ اب گرین انرجی تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ بن گئی ہے کہ انرجی، فیول فوسلز کے بجائے سولر اور ونڈ سے لی جائے۔

یعنی سورج اور ہوا سے۔ لیکن دنیا کے ان ترقی یافتہ طاقتور ملکوں کی معاشی ترقی نے پاکستان جیسے دنیا کے بہت سے ملکوں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ حال ہی میں دو سال قبل پاکستان میں آنے والا سیلاب اس کی ایک بڑی مثال ہے جس میں پاکستان کا بیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ ہزاروں لوگ جاں بحق گئے۔

ماحولیاتی آلودگی ہی اسموگ کو جنم دیتی ہے جس کے سبب ہر سال دنیا بھر میں 70لاکھ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ پاکستان بھارت چین میں یہ پانچواں موسم بن گیا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں گھر سے کام کرنے کا رواج ہو گیا ہے۔ لوگ دو سے تین دن دفتر جاتے ہیں۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ سڑکوں پر کم آنے سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی آئی ہے۔

دوسرا پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک ماحولیات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہم جیسے بے شعور عوام میں کچھ تو شعور پیدا ہو۔ ویسے ماحولیاتی سائنسدان تو کہتے ہیں کہ پانی سر سے اوپر کب کا گذر چکا۔ اب ہمیں قیامت صغریٰ نہیں کبریٰ کا انتظار کرنا چاہیے۔ جو اچانک طوفان نوح کی شکل میں نازل ہوگا۔ جس کا آغاز نئے برس سے ہو سکتا ہے۔ قیامت سر پر کھڑی ہے اور ہم چین کی بنسی بجا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں