دشمن ہم پر ہنس رہا ہے
میرے دفتر کی میز پر ایک ایسا کیلنڈر رکھا ہے جس پر تاریخ کے ساتھ احادیث نبویؐ اور آیات قرآنی کے تراجم موجود ہیں۔
میرے دفتر کی میز پر ایک ایسا کیلنڈر رکھا ہے جس پر تاریخ کے ساتھ احادیث نبویؐ اور آیات قرآنی کے تراجم موجود ہیں۔ میں اس پر ایک نظر دفتری امور کی انجام دہی سے پہلے ضرور ڈال لیتی ہوں کہ قرآن و حدیث اور زریں اقوال ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اور سفر زیست کے منفی و مثبت رخ متعین کرنے میں مددگار و معاون بھی ثابت ہوتے ہیں۔ کامیاب زندگی کے لیے کامیاب و ناکام شخصیات کی حیات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اور تاریخ سے آگاہی بھی۔ کیونکہ تاریخ حال کو سنوارنے اور مستقبل کی روشن راہیں متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور باشعور ہونے کے باوجود بھی زندگی کی اتنی بڑی بڑی حقیقتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اور ان راستوں پر بھٹکنے لگتے ہیں جہاں تاریکیاں دلدل اور بند گلیاں ہیں۔ اس کا ذمے دار کوئی دوسرا نہیں ہم خود ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی ذمے داری کو اس وقت تسلیم کرتے ہیں جب کہ ہم میں آئینہ دیکھنے کا حوصلہ ہو۔ لیکن صاحب اب تو مزاج قوم کے کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ صورت حسب پسند نظر نہ آئے تو آئینہ توڑ دیتے ہیں۔
توڑ پھوڑ کی عادت ہماری فطرت کا حصہ بن چکی ہے۔ تعمیری کاموں کو تو جیسے ہم بھول ہی گئے ہیں۔ خواہ وہ مادی تعمیر ہو یا کردار کی۔ دونوں عمارتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ عمارتیں گر جائیں گی تو مکین کہاں جائیں گے کھلے آسمان تلے۔ ایک شور برپا ہو گا امداد کا۔ واہ۔ ہم تو لفظ و معنی کے رشتے بھی بھول گئے ہیں۔ قوم پر عجب وقت آ پڑا ہے۔ امداد اور بھیک میں فرق ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انا، خود داری اور وقار جیسے دولت تو نایاب ہوچکی ہیں۔ اور جو بے چارے انا پرست ہیں وہ گمنامی کے کسی گوشے میں فقیرانہ زندگی گزار رہے ہوں گے اب کسی کے پاس دور حاضر میں اتنا وقت ہے کہ ان گوہر نایاب کو تلاش کرے۔ بے شمار پتھروں میں اگر ایک گوہر مل بھی گیا تو ایسی لوٹ مار مچے گی کہ سب آپس میں برسر پیکار ہوں گے۔ آپ پر لطف تماشے سے لطف اندوز ہوں گے اور گوہر نایاب ہائے بے چارہ ۔ بقول شاعر:
اب اسے ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
بات شروع ہوئی تھی دفتر کی میز پر رکھے کیلنڈر سے اور بات پہنچ گئی گوہر تک ہمارے ملک میں خزانے کی کوئی کمی نہیں۔ ہماری زمین و پہاڑوں کو اللہ نے بے پناہ دولت سے نوازا ہے۔ یا تو ہم خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ جائیں گے۔ چاہے اشرفیاں زیر زمین پانی بن کر بہہ جائیں لیکن ہم ٹھہرے لکیر کے فقیر ''میری نہیں تو تیری بھی نہیں'' تریا ہٹ بچوں کی طرح ضدی۔ حالانکہ ہم سے تو بچے اچھے ہوتے ہیں۔ گیند سے کھیلتے ہوئے زبردست بے ایمانی کے ساتھ شور و جھڑپ شروع ہوتی ہے۔ اور تھوڑی دیر کے بعد کھڑکی سے جھانک کر دیکھیں میدان و گلیوں میں گیند کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ کاش ہم بڑے بھی بچوں کی اس معصوم خوبی کو اپنا لیں۔ مگر یہ تو معصوم خوبی ہے۔
مگر ہماری معصومیت تو بڑے ہونے پر ایسی رخصت ہوتی ہے کہ صرف مصلحت و منافقت باقی رہ جاتی ہے۔ بات پھر کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہماری قوم اپنی مقررہ منزل و منتخب رستوں و نظریات و مقاصد سے بے دور نکل گئی۔ شاید اتنی دور کہ ہم اپنے اصل نکتے کو ہی بھول گئے۔ لیکن بھولے بسرے لوگ کبھی کبھی واپس بھی لوٹ آتے ہیں۔ اسی امید پر ہم بھی منتظر ہیں کہ شاید ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے اور ہم ان غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے سبق حاصل کریں۔
آج کل تو لوگوں کا حافظہ بھی کمزور ہو گیا ہے۔ یاد کیا ہوا سبق جلد بھول جاتے ہیں۔ یادیں، سبق اور بھول جانے کا عمل جب یہ تینوں چیزیں ایک جگہ مل جاتی ہیں تو وہ معاشرہ جنم لیتا ہے کہ جس میں ہم زندہ ہیں۔ خیر یہ بھی ہمارا ہی کمال ہے کہ ہم زندہ ہیں۔ زندہ درگور ہی سہی۔ یا پھر کس طور زندہ ہیں۔ ویسے ہمارے اس حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ بے شمار مسائل اور کمتر وسائل کے باوجود ہم جی رہے ہیں۔ سانس لے رہے ہیں۔ اور وحشتوں کے سائے میں پل رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
بات چلی تھی کیلنڈر سے۔ بات تو بہت دور تک چلی گئی لیکن نظر ابھی تک کیلنڈر پر ہی ٹھہری ہوئی ہے۔ آیت کا ترجمہ ہے:
''اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں۔ بس وہی لوگ اسی سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔'' (سورۃ ص۔ 38:24)
کیا یہی حال دور حاضر میں ہمارا نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اپنی نفرتوں دشمنی اور زیادتی کا نشانہ بناتے۔ کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ یہ کون سا مقام ہے کہ دوسروں کو تکلیف پہنچا کر نفسیاتی تسکین حاصل کی جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نا انصافی کے اس مقام پر ہیں جہاں انتشار معاشرہ کا حصہ بن چکا ہے۔ جب کہ معاشرہ پرسکون حالت میں نہ ہو تو نفسیاتی امراض تیزی سے پھیلتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔ اسی طرح جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور بدی کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ اور لوگوں کے ایمان کمزور پڑنے لگتے ہیں۔
بہت کم لوگ ہیں جو ایسے قیامت خیز ماحول میں اپنے عمل صالح کی بنیاد پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھتے ہیں۔ اندھیرے رستوں پر چمکتے ہوئے وہ جگنو جو ہمیں رستہ دکھاتے ہیں۔ ان ہی کی برکتیں ہمیں قہر خداوندی سے بچائے ہوئے ہیں۔ سیاہ راتوں میں ننھا منا ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی ہماری امیدوں کو سہارا دیتا ہے۔ ہوا کے دوش سے آندھیوں سے ہم اسے بچاتے ہیں اور اسی ایک چراغ سے کئی چراغ جلانے کی سعی کرتے ہیں۔
حدیث نبوی ہے کہ ''جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمے دار ہو (یعنی حکمران) تو اللہ اس کا مقصد پورا نہیں کرے گا جب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے۔''
لیکن دور حاضر میں تو عالم یہ ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی مقام یا عہدے پر ہو اپنی ضروریات پوری کرنے میں لگا ہوا ہے۔ دوسرے کی ضروریات کو سمجھنے اور پورا کرنے سے نہ ہی اسے دلچسپی ہے اور نہ ہی فرصت۔ شاید اسی لیے کہ دین اور سیاست جب ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو صرف چنگیزیت باقی بچتی ہے۔
ہمارا راستہ قرآن پاک اور حدیث کا راستہ ہے ہم ان راستوں سے دور ہو رہے ہیں۔ اور ان راستوں پر بھٹک رہے ہیں جہاں دشمن ہم پر ہنس رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کی نظروں میں صرف ایک مذاق بن کر رہ جائیں۔ ہمارے پاس مہلت ہے دعا کی۔ اے اللہ! ہمارے کام کا انجام بہتر کر اور ہم کو دنیا کی رسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے بچا۔ (آمین!)